پاکستان

ساجد سدپارہ کو دوسری مرتبہ کے-ٹو سر کرنے کا اعزاز حاصل

ساجد سدپارہ نے اپنے کینیڈین اور نیپالی ساتھیوں کے ہمراہ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی سر کر لی۔
|

معروف کوہ پیما محمد علی سدپارہ کے بیٹے ساجد سدپارہ نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ دوسری مرتبہ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے۔ٹو سر کرنے کا اعزاز حاصل کر لیا۔

ساجد سدپارہ نے بدھ کو اپنے ساتھیوں کینیڈین فلم ساز ایلیا سکلے اور نیپال کے پسنگ کاجی شیرپا کے ہمراہ کے-ٹو سر کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔

مزید پڑھیں: شہروز کاشف کے۔ٹو سر کرنے والے سب سے کم عمر کوہ پیما بن گئے

وزیر سیاحت راجا ناصر نے تصدیق کی کہ محمد علی سدپارہ کے بیٹے ساجد سدپارہ نے صبح 10 بجے کے-ٹو سر کر لی تھی۔

انہوں نے چوٹی سر کرنے پر ساجد سدپارہ کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ تیز ہواؤں اور برف کی وجہ سے ملکی و غیر ملکی کوہ پیماؤں کو مشکلات کا سامنا ہے۔

الپائن کلب آف پاکستان کے مطابق آج کا دن کے-ٹو سر کرنے والے کوہ پیماؤں کے لیے یادگار ثابت ہوا کیونکہ مجموعی طور پر 24 کوہ پیماؤں نے یہ سنگ میل عبور کیا۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز ہی 19سالہ شہروز کاشف نے بھی کے-ٹو سر کرنے کا اعزاز حاصل کیا تھا اور یہ کارنامہ انجام دینے والے دنیا کے کم عمر ترین کوہ پیما بن گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: کے-ٹو پر لاپتا ہونے والے محمد علی سدپارہ، اسنوری، موہر کی لاشیں مل گئیں

واضح رہے کہ کے ٹو کی مہم سر کرنے کا یہ منصوبہ ساجد سدپارہ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر بنایا تاکہ وہ اپنے والد محمد علی سدپارہ کے ساتھ ساتھ آئس لینڈ کے جون اسنوری اور چلی کے جوآن پابلو موہر کی لاشیں تلاش کرنے کے لیے بنایا۔

ان تینوں متوفی کوہ پیماؤں کو آخری مرتبہ کے-ٹو کے ایک تنگ مقام پر دیکھا گیا تھا تاہم اس کے بعد ان کا رابطہ منقطع ہو گیا تھا۔

کے-ٹو کی اس مہم جوئی کے دوران ساجد سدپارہ کو آکسیجن کی فراہمی کے آلے میں خرابی کے سبب اپنی مہم ترک کر کے کیمپ تھری پر آنا پڑا جبکہ خراب موسم کی وجہ سے انہیں مرحوم کوہ پیماؤں کی تلاش کی مہم کو بھی متعدد مرتبہ مؤخر کردیا گیا، 18 فروری کو ان تینوں کوہ پیماؤں کو مردہ تصور کر لیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: کے ٹو سر کرنے کے خواہشمند بلغارین کوہ پیما گر کر ہلاک

بعدازاں دو دن قبل 26 جولائی کو ان تینوں کوہ پیماؤں کی لاشیں کے-ٹو پر ایک تنگ مقام سے ملی تھیں۔

خاتون نے جیسا بھی لباس پہنا ہو، ریپ کرنے والا ہی ذمہ دار ہوتا ہے، وزیراعظم

کیا آزاد کشمیر کو سیاسی جماعتوں کے لیے میدانِ جنگ ہونا چاہیے؟

کیا آزاد کشمیر کو سیاسی جماعتوں کے لیے میدانِ جنگ ہونا چاہیے؟