آزاد کشمیر میں انتخابی عمل کا آنکھوں دیکھا حال
آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہوتے ہی پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کی سیاست کا رخ وادی کی جانب مُڑگیا۔
گزشتہ چند برسوں خاص کر 2013ء کے عام انتخابات کے بعد سے تو انتخابی عمل اور نتائج کو نہ ماننے کا ایسا لامتناہی سلسلہ شروع ہوا ہے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ الزام تراشی، دھاندلی اور الیکشن کمیشن پر عدم اعتماد کا شور ہر سیاسی تقریر میں سنائی دیتا ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ سیاسی فضا میں کس حد تک نفرت و شدت بڑھتی جارہی ہے، سیاسی مخالفین ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے ہر حربہ استعمال کر رہے ہیں۔
یہ تمام باتیں ایک خیال کی صورت میں میرے دماغ میں گردش کر رہی تھیں۔ خیر، اس بار آزاد جموں کشمیر میں مقابلہ ملک کی 3 بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان ہونا تھا۔ ہم نے بھی انتخابی مہم کے دوران آزاد کشمیر کے مختلف حلقوں سے عوامی رائے جاننے اور 25 جولائی کو مظفرآباد سے اپنی خصوصی ٹرانسمیشن کے لیے لائحہ عمل بنانا شروع کردیا۔ طے یہ پایا کہ ابتدائی مرحلے میں ہم میرپور اور بھمبر کے حلقوں میں جائیں گے اور انتخابات سے 2 دن پہلے مظفرآباد کے لیے اپنا رختِ سفر باندھیں گے۔
بھمبر کو آزاد کشمیر کا قبائلی علاقہ جبکہ میرپور کو منی لندن بھی کہا جاتا ہے۔ میرپور کو منگلا ڈیم کی وجہ سے شہرت حاصل ہے اور یہاں ہر گھر سے ایک فرد برطانیہ یا پھر بیرونِ ملک مقیم ہے۔ ان 2 شہروں سے واپس آجانے کے بعد میں نے اور میری ٹیم نے مظفرآباد جانے کی تیاری شروع کردی۔ اس دوران انتخابی مہم پر بھرپور نظر رکھی ہوئی تھی۔
بلاول بھٹو کچھ دن کی مہم چلانے کے بعد دورہ امریکا پر روانہ ہوگئے۔ ان کی غیر موجودگی میں ان کی ہمشیرہ آصفہ اور پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنماؤں نے اپنے ووٹروں اور جیالوں کا خون گرمائے رکھا۔
بعدازاں بلاول کچھ دن بعد واپس لوٹ آئے اور آزاد کشمیر کے انتخابی میدان میں خوب سیاست کی۔ مریم نواز بھی پیچھے نہ رہیں اور کم و بیش آزاد کشمیر کے ایک، ایک حلقے میں جاکر جلسوں سے خطاب کیا۔ پی ٹی آئی کے وزرا بھی پیش پیش رہے جبکہ وزیرِاعظم عمران خان نے بھی انتخابی مہم ختم ہونے سے کچھ دن پہلے انتخابی جلسوں سے خطاب کیا۔
میرے ذہن میں جو خدشات تھے وہ درست ثابت ہوئے۔ انتخابی مہم میں تینوں جماعتوں کے سیاسی قائدین اور پارٹی کے سینیئر رہنماؤں سے جس سیاسی بصیرت کا تقاضا تھا وہ پورا نہ ہوا۔
درحقیقت آزاد کشمیر میں بننے والی حکومت اور یہاں پر بولا جانے والا ایک ایک لفظ مقبوضہ کشمیر میں اپنی آزادی کی جدوجہد کرنے والے کشمیری بھائی اور بہن کے لیے معنی رکھتا ہے۔ آپس کی سیاسی چپقلش اور اخلاق سے گرے ہوئے الزامات کشمیر کاز کو کس حد تک نقصان پہنچا سکتے ہیں اس کا اندازہ شاید ہمارے سیاسی رہنماؤں کو نہیں ہے۔
آزاد کشمیر کے عوام اور ان کے مسائل پر بات کرنے کے بجائے ہر ایک جماعت نے ایک دوسرے کی ذات پر کیچڑ اچھالا۔ اس سے پہلے آزاد کشمیر میں 2 جماعتوں کے درمیان انتخابات کا انعقاد ہوا کرتا تھا لیکن پہلی بار ایسا ہوا کہ 3 سیاسی جماعتیں بھرپور انداز میں ایک دوسرے کے مدِمقابل آئیں۔ اس میں کوئی برائی بھی نہیں کیونکہ مقابلہ ہونا چاہیے اور صحت مند ہونا چاہیے لیکن حالیہ سیاسی تاریخ میں پہلی بار یہاں کی بھی سیاسی فضا آلودہ ہوگئی۔
یہاں بلند و بالا پہاڑ ہیں، بل کھاتے بہتے دریا، بلندیوں کو چومتے چنار کے درخت، خوبصورت پھول بیل بوٹے ہیں اور آلودگی سے پاک فضا ہے۔ سیاحوں کی خواہش ہوتی ہے کہ آزاد کشمیر کی ان وادیوں میں کچھ دن ٹھہر کر قدرت کے نظارے دیکھے جائیں، آلودگی سے پاک فضا میں کُھل کر سانس لی جائے اور سکون کے چند لمحات گزارے جائیں، تاہم سیاسی جماعتوں نے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے چکر میں یہاں کی سیاسی فضا آلودہ کردی۔
غداری اور کشمیر کا سودا کرنے جیسے الزامات معمولی نوعیت کے نہیں۔ آزاد کشمیر اور خاص طور پر مقبوضہ کشمیر میں رہنے والے کشمیری بہن بھائیوں کو کیا پیغام گیا ہوگا؟ اس سے کسی کو کوئی غرض نہیں۔ اس سے کوئی غرض نہیں کہ ان الزامات سے سیاسی تقسیم در تقسیم کا عمل اور زیادہ تیز ہوجائے گا۔ اس کا براہِ راست اثر آزاد کشمیر کے عوام اور یہاں آنے والوں پر پڑے گا۔
انتخابی مہم ختم ہوچکی تھی۔ ہم 24 جولائی کو مظفرآباد پہنچے۔ براستہ مری موٹروے آتے ہوئے لوئر ٹوپہ کے مقام پر گاڑیوں کا بے تحاشا رش نظر آیا۔ چونکہ لوگ ابھی تک بڑی عید کی چھٹیوں کا مزہ لے رہے تھے اس لیے مری جانے والوں کی ایک کثیر تعداد نظر آئی۔ دل تو بہت چاہا کہ ہم بھی مری سے ہوتے ہوئے نتھیا گلی اور ایوبیہ کے پُرفضا مقام پر کچھ وقت گزاریں مگر یہ خواہش دل ہی میں دبا لی۔
اگرچہ ایوبیہ یا نتھیا گلی نہ جاسکے تو کیا ہوا۔ سڑک کنارے رُک کر گرما گرم پکوڑے اور چائے سے تو لطف اندوز ہوا جاسکتا تھا۔ لہٰذا اپنے سینیئر پروڈیوسر علی راؤ سے کہا کہ ڈرائیور سے کہہ کر جہاں مناسب جگہ نظر آئے وہاں گاڑی رکوا لیں۔ لہٰذا اپنی پروڈکشن اور ٹیکنیکل ٹیم کے ساتھ سڑک کنارے بیٹھ کر ہم نے اپنی اس خواہش کو پورا کیا۔
رات ساڑھے 8 بجے ہم مظفرآباد پہنچے۔ ہوٹل میں ہمارے بیورو چیف سردار ذوالفقار استقبال کے لیے موجود تھے۔ طے یہ پایا کہ سامان رکھ کر شہر کا دورہ کر لیا جائے تاکہ انتخابی گہما گہمی کا ابھی اندازہ ہوجائے اور ساتھ دوسرے دن صبح اپنی خصوصی ٹرانسمیشن کے لیے مناسب جگہ بھی تلاش کرلی جائے۔
مظفرآباد شہر کا دورہ کرنے کے بعد ایسا محسوس نہیں ہوتا تھا کہ اگلے دن یہاں انتخابات ہورہے ہیں۔ ایک سکوت کا عالم تھا۔ مختلف جگہیں دیکھنے کے بعد میں نے اور میرے سینیئر پروڈیوسر علی راؤ اور پروڈیوسر علی کیانی نے صبح کی خصوصی ٹرانسمیشن کے لیے آزاد جموں کشمیر سپریم کورٹ کی عمارت کے سامنے چوک کا انتخاب کیا۔ اس چوک پر ایک یادگار تعمیر کی جارہی ہے اور کام ابھی تکمیل کے مراحل میں ہے۔
رات کھانے پر مختلف صحافی دوستوں سے بھی گپ شپ ہوئی۔ اس گپ شپ میں ایک واحد سوال ایسا تھا جس کا جواب تقریباً سب کو ہی معلوم تھا اور وہ سوال یہ تھا کہ جیت کس جماعت کی ہوگی؟ اس جواب کی بنیاد یہاں رائج سیاسی روایت ہے جس کے تحت مرکز میں جو بھی سیاسی جماعت حکومت بناتی ہے آزاد کشمیر میں بھی اسی کی حکومت بنتی ہے۔ یہی صورتحال گلگت بلتستان میں بھی ہے۔
اسی کلیہ کو مدِنظر رکھتے ہوئے حکمراں جماعت کے وزیر، مشیر اور ترجمان دن رات یہ راگ الاپ رہے تھے کہ آزاد کشمیر میں اس بار حکومت تحریک انصاف کی ہوگی۔ پی ٹی آئی کے ووٹرز اور سپورٹرز یہ کہتے سنائی دیے کہ اس بار وزیرِاعظم عمران خان آزاد کشمیر میں ہیٹ ٹرک کرنے جارہے ہیں۔ مگر ایسی ہیٹ ٹرک مکمل کرنے والے واحد عمران خان نہیں ہوں گے کیونکہ اس سے پہلے میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری بھی ایسی ہیٹ ٹرک کرچکے ہیں۔
اسی بیٹھک میں ایک اہم سوال تھا کہ آزاد کشمیر کا آئندہ وزیرِاعظم کون ہوگا؟ اس کا جواب تھوڑا مشکل تھا کیونکہ پی ٹی آئی کی جانب سے وزیرِاعظم کے لیے 3 امیدوار میدان میں اترے تھے یعنی حلقہ ایل اے 3 میرپور سے بیرسٹر سلطان محمود چوہدری، حلقہ ایل اے 7 سے چوہدری انوار الحق اور حلقہ ایل اے 15 باغ سے سردار تنویر الیاس خان۔ اگر یہ تینوں امیدوار کامیاب ہوئے تو پھر کیا ہوگا؟ اگرچہ حتمی فیصلہ تو وزیرِاعظم عمران خان ہی کریں گے کہ وزارتِ عظمیٰ کا ہما وہ کس کے سر پر بٹھاتے ہیں، مگر سب کی نظر میں غالب امکان یہی تھا کہ سردار تنویر الیاس اس بار آزاد کشمیر کی وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوسکتے ہیں۔
25 جولائی کو صبح ہم جلدی اُٹھ گئے اور تیار ہوکر اپنی خصوصی ٹرانسمیشن کے لیے نکل پڑے۔ شہر میں چل پہل تھی۔ جگہ جگہ بینرز آویزاں تھے۔ دیواروں پر امیدواروں کے پوسٹرز چسپاں تھے۔ صبح 9 بجے پولنگ کا آغاز ہوچکا تھا۔ ہم نے کچھ پولنگ اسٹیشنز کا باہر سے دورہ بھی کیا جہاں میڈیا نمائندوں کی بڑی تعداد موجود تھی اور ساتھ ہی ساتھ ووٹرز بھی اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرنے کے لیے آرہے تھے۔
جب بہت سے دوست احباب کو پتا چلا کہ ہم مظفرآباد کشمیر میں موجود ہیں تو نیک تمناؤں کے ساتھ کہا کہ بہت ہی خوبصورت موسم ہوگا، خوب انجوائے کرو۔ اب ان سے کیا کہتے کہ مظفرآباد میں اس دن سورج سر کے اوپر تھا، شدید حبس تھا، گرمی اپنے عروج پر تھی اور ایک پل بھی باہر رہنا محال تھا۔ کپڑے پسینے میں شرابور تھے لیکن ٹی وی اسکرین پر دیکھنے والوں کو ہم نے ایسا محسوس ہونے دینا تھا کہ جیسے ہمارے اردگرد ٹھنڈی مشینیں لگی ہیں اور کشمیر کی وادیوں سے یخ بستہ ہوائیں ہم سے مسلسل ٹکرا رہی ہیں۔ مظفر آباد کے کچھ صحافی دوستوں کو ہم نے اپنی ٹرانسمیشن میں مدعو کیا تھا جبکہ ہمارے دیگر نمائندگان بھی ہمارے ساتھ مسلسل رابطے میں تھے۔
چند ایک حلقوں میں امن و امان میں خلل کی اطلاعات بھی موصول ہوئیں۔ فائرنگ کے واقعات اور 2 انسانی جانوں کے ضیاع پر دکھ بھی ہوا۔ امن و امان کی صورتحال کو بہتر رکھنے کے لیے انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے مستعد تھے اور شام 5 بجے تک پولنگ جاری رہی۔
شام 5 کے بعد ووٹوں کی گنتی کا مرحلہ شروع ہوا اور جیسے جیسے غیر حتمی نتائج آنے لگے ویسے ویسے موٹر سائیکل اور گاڑیوں پر سوار کارکنان چھوٹی چھوٹی ریلیوں کی صورت میں اپنے امیدوار کی کامیابی کا جشن مناتے نظر آئے۔
رات 10 بجے تک صورتحال کافی حد تک واضح ہوچکی تھی۔ تحریک انصاف کامیابی کے چوکے چھکے لگاتے ہوئے پہلے نمبر پر تھی جبکہ پیپلز پارٹی دوسرے اور مسلم لیگ (ن) تیسرے نمبر پر تھی۔
رات دیر گئے پارٹی پوزیشن واضح ہوچکی تھی۔ ہم بھی واپسی کے لیے تیار ہوچکے تھے مگر ایک بات میرے ذہن میں بار بار گھوم رہی تھی کہ چاہے پاکستان میں عام انتخابات ہوں یا ضمنی، آزاد کشمیر میں انتخابات ہوں یا گلگت بلتستان میں، انتخابی مہم میں ایک دوسرے کے کردار پر کیچڑ اچھالنے کی جو ریت چل پڑی ہے اس کے اثرات گھروں، گلی محلوں، دوستوں و رشتہ داروں میں سیاست پر ہونے والے گفتگو میں نظر آنے لگے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے اخلاقیات کہیں کھو گئی ہے۔
حکمران اور سیاسی رہنما جس طرح کی زبان اور طرزِ عمل اختیار کریں گے، ان کے حامیوں میں بھی اسی زبان اور طرزِ عمل کی جھلک نظر آئے گی۔ انتخابات کے بعد نتائج کو تسلیم نہ کرنے کے بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے لیکن قانون سازی کرنے والے پارلیمان میں بیٹھے سیاسی رہنما انتخابی اصلاحات اور نظام میں بہتری کے لیے اب بھی سنجیدہ نظر نہیں آتے۔
کاش کہ الزام تراشیوں کا سلسلہ بند ہوجائے اور پوری سیاسی قیادت ایک ایسا نظام تشکیل دینے کے لیے سنجیدہ ہو جس کے ذریعے ملک کے اندر صحت مند اور پُرفضا سیاسی ماحول پروان چڑھ سکے۔
فرید ریئس ایک نجی ٹی وی چینل میں بطور سینئر اینکر اور ایگزیٹو پروڈیوسر ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔