اس سے قبل اگست 2020 میں امپرئیل کالج لندن کے محققین نے انتباہ جاری کیا تھا کہ کووڈ 19 بچوں میں ذیابیطس ٹائپ ون کا باعث بن سکتی ہے۔
اب طبی جریدے نیچر میٹابولزم میں شائع نئی تحقیق میں انکشاف کیا گیا کہ اٹلی کے ایک ہسپتال میں زیر علاج رہنے والے 551 کووڈ مریضوں میں سے 46 فیصد کا بلڈ شوگر لیول بڑھ گیا، جو ذیابیطس کے مریضوں میں ایک عام مسئلہ ہوتا ہے۔
تحقیق کے مطابق یہ مسئلہ مریضوں میں کووڈ سے صحتیابی کے بعد بھی کم از کم 2 ماہ تک برقرار رہا۔
محققین کا کہنا تھا کہ ابھی یہ تو معلوم نہیں کہ کورونا وائرس سے متحرک ہونے والے ذیابیطس کے مرض کا بہترین علاج کیا ہے، مگر ایک ماہر نے خبردار کیا کہ کووڈ کے باعث ہمیں شاید ذیابیطس کے شکار افراد کی تعداد میں نمایاں اضافے کو دیکھنا پڑے گا۔
ذیابیطس کی 2 اقسام عام ہیں، جن میں سے ٹائپ ون ایک آٹوامیون مرض ہے جو اس وقت سامنے آتا ہے جب مریض کا جسم غلطی سے انسولین بنانے والے خلیات پر حملہ آور ہوجاتا ہے۔
اس کے مقابلے میں ذیابیطس ٹائپ 2 کو مریض کے طرز زندگی سے منسلک کیا جاتا ہے، یعنی زیادہ جسمانی وزن یا سست طرز زندگی اس کی وجوہات میں شامل ہے۔
ذیابیطس کے مریضوں کے بارے میں یہ پہلے ہی یہ بات سامنے آچکی ہے کہ ان میں کورونا وائرس سے بیماری کی شدت سنگین ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے، مگر اب ایسے شواہد مسلسل سامنے آرہے ہیں کہ کووڈ اس خاموش قاتل مرض کا شکار بھی بناسکتا ہے۔
کووڈ کے مریضوں میں ذیابیطس کی تشخیص کو سمجھنے کے لیے بوسٹن چلڈرنز ہاسپٹل کے ماہرین نے اٹلی کے شہر میلان کے ایک ہسپتال میں مارچ سے مئی 2020 کے دوران زیر علاج رہنے والے 551 مریضوں کا جائزہ لیا۔
ان مریضوں میں ایک بلڈ شوگر سنسر ہسپتال میں داخلے کے وقت نصب کیا گیا تھا اور اس کے ڈیٹا کا جائزہ 6 ماہ تک لیا گیا۔
محققین کا کہنا تھا کہ ان مریضوں میں سے کوئی بھی ہسپتال میں داخلے سے پہلے سے ذیابیطس کا شکار نہیں تھا اور ہم نے 46 فیصد مریضوں میں نئے ہائپر گلیسیما کو دریافت کیا۔
ہائپر گلیسمیا ہائی بلڈ شوگر لیول کے لیے استعمال ہونے والی طبی اصطلاح ہے، وقت کے ساتھ اس کے نتیجے میں مریضوں کی آنکھوں، اعصاب، گردوں یا خون کی شریانوں کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہوتا ہے۔
تحقیق کے مطابق جن مریضوں کو کووڈ کے باعث ہائی بلڈ شوگر کا سامنا ہوا ان کو دیگر مریضوں کے مقابلے میں ہسپتال میں زیادہ عرصے قیام کرنا پڑا، ان کی علامات زیادہ سنگین تھیں اور انہیں آکسیجن، وینٹی لیشن اور آئی سی یو نگہداشت کی بھی زیادہ ضرورت پڑی۔
محققین کے مطابق حیران کن طور پر ان افراد میں انسولین کی بہت زیادہ مقدار بننے لگی تھی جبکہ بلڈ شوگر لیول کی سطح کم کرنے والے خلیات کے افعال پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔
انہوں نے بتایا کہ بنیادی طور پر لبلبے کے ہارمونز میں آنے والی خرابیوں سے عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ کے باعث انہیں ان مسائل کا سامنا ہوا اور صحتیابی کے لیے بھی زیادہ وقت لگا۔
کورونا وائرس کی یچیدگیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مریض کا مدافعتی نظام حد سے زیادہ متحرک ہوجاتا ہے، جس کے نتیجے میں ورم کا باعث بننے والے مالیکیولز کی بھرمار ہوجاتی ہے جو صحت مند خلیات پر حملہ آور ہوجاتی ہے۔
اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ورم کا باعث بننے والے مدافعتی پروٹیشنز کو بلاک کرنے سے مریضوں کے بلڈ شوگر لیول کو کسی حد تک بہتر بنایا جاسکتا ہے۔
تاہم دیگر مسائل اپنی جگہ برقرار رہتے ہیں اور ہر بار کھانے کے بعد ان مریضوں کے جسم میں گلوکوز کی سطح میں غیرمعموی اضافہ ہوجاتا۔
محققین کا کہنا تھا کہ یہ اولین تحقیقی رپورٹس میں سے ایک ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ کووڈ 19 براہ راست لبلبے پر اثرات مرتب کرنے والا مرض ہے جو کہ طویل المعیاد طبی مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔
ان مریضوں کا علاج کس طرح ہوسکتا ہے یہ تاحال کسی اسرار سے کم نہیں، کیونکہ انسولین کو مسلسل بلاک کرنے سے دائمی ورم کا سامنا ہوسکتا ہے جس سے نقصان بڑھنے کا خدشہ ہوتا ہے۔