نقطہ نظر

تعزیتی تحریر: میرا دوست دانش صدیقی

جامعہ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد دانش کے ساتھ میری دوستی کے تعلق میں مباحثوں کے لیے جگہ تنگ اور شفقت و محبت کے لیے وسیع ہوتی گئی۔

یہ 2005ء کی گرمیوں کا ذکر ہے، جب دانش اور میرا جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اے جے کے ماس کمیونیکیشن ریسرچ سینٹر میں تازہ داخلہ ہوا تھا۔ جامعہ میں اس سے پہلی ملاقات کے لمحات کو یاد کرنے کے لیے ذہن پر زور دے رہی ہوں۔

جینز کے اندر ڈالی ہوئی پستائی رنگ کی آدھی آستینوں والی شرٹ پہنے اور اپنے بائیں کاندھے پر عنابی رنگ کا بیگ لٹکائے اس بلند قامت ساتھی کی ایک دھندلی سی یاد اب بھی میرے ذہن میں محفوظ ہے۔ ارے ہاں، وہ سیگریٹ نوشی بھی کیا کرتا تھا اور پھر آگے چل کر تو ایم سی آر سی کی چھت پر بنی کینٹین پر ٹریننگ اور تھیوری کلاس کے درمیان سگریٹ پینے والے بہت سارے 'سُٹا کنورٹس' (یعنی 'دائرہ سیگریٹ نوشی' میں داخل ہونے والوں) کی تعداد بڑھتی گئی، جسے وہ بڑے ہی فخر سے گنا کرتا تھا۔

دانش توانائی سے بھرپور، ہنس مکھ اور گرم دماغ رکھنے والا شخص تھا اور میرے خیال میں ان دنوں ہر طالب علم کی خواہش ہوتی کہ ان کی اسائمنٹ فلموں میں دانش بھی شامل ہو۔ کریو میں اس کی موجودگی کے باعث آپ شوٹ کے دوران ہدایت کاری پر زیادہ توجہ مرکوز کرسکتے تھے۔ بس شرط یہ تھی کہ آپ کو اسے طیش نہیں دلانا ہوتا ورنہ وہ آپ سے تعاون سے صاف انکار کردیتا۔

مگر مجھے لگتا ہے کہ وہ اس کے باوجود بھی مقررہ وقت کے ایک گھنٹے کے اندر ہی لوٹ آیا کرتا ہوگا اور 'ہدایت کار' پر فراخ دلی سے تبصرہ کرتے ہوئے ایک بار پھر کام میں مصروف ہوجاتا ہوگا۔ اگر خوش قسمتی سے آپ ان کے دوست ہوتے تو فلم کے باضابطہ کریو میں بھلے ہی وہ شامل نہ ہو، مگر شوٹ پر آپ کا ساتھ دینے ضرور آجاتا۔

مجھے طالب علمی کے دور میں بنائی ہوئی ایسی کوئی فلم یاد نہیں جو دانش کے بغیر مکمل ہوئی ہو۔ 2007ء میں ہماری فائنل گریجویشن فلم 'رہائش' نئی دہلی کے جامعہ نگر اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں عکس بند ہوئی تھی۔ اس فلم کا کریو ہماری ماؤں، رشتہ داروں اور دوستوں پر مشتمل تھا۔

کچھ آپ بیتی اور کچھ سیاسی صنف پر مبنی اس فلم میں ہم نے اپنے دلوں، زندگیوں اور بھارت میں بڑھتے ہوئے اکثریت پسند دائیں بازو کے ماحول میں مذہبی اقلیت سے تعلق رکھنے والے ایک متوسط طبقے میں پروان چڑھنے والوں کی دشواریوں کو سمویا ہے۔

دانش سے 15 سالہ دوستی کے دوران یہ آشکار ہوا کہ ہم دونوں ہی اس تشدد کے خطرے کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں جو ہماری مجرد زندگیوں پر منڈلاتا رہتا ہے۔ جامعہ میں بطور پوسٹ گریجویٹ طالبہ داخلہ لینے سے پہلے تک میں اپنی بطور بھارتی مسلمان خاتون کی شناخت کو ہر ممکنہ حد تک جھٹلاتی رہی یا پھر اسے خاندان کے بہت ہی ذاتی حلقے تک محدود رکھتی چلی آ رہی تھی۔

دوسری طرف دانش نے اپنی شناخت کو مکمل طور پر قبول کیا، وہ اسے اعزازی تمغے کی طرح سینے پر سجاتا جبکہ اس کے لطیفوں میں طنزیہ مذہبی باتوں کا تڑکا بھی شامل رہتا تھا۔ اس شخص کے آس پاس رہ کر میں خود سے اور اپنی تاریخ سے پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ مطمئن ہوگئی تھی۔

ہمارے شوٹس کے دوران ہم دونوں میں مباحثے بھی ہوئے، ظاہر ہے ہم دہلی کی ہائی وولٹیج زندگی جو جیتے ہیں۔ 9/11 کے بعد کی دنیا نے ہمارے جسموں اور ذہنوں کو مضطرب اور مفلوج کردیا ہے۔ ان دنوں دنیا کے دوسرے کونے میں فلم بند ہونے والے وائرل مناظر ہمارے فونز میں دکھائی دینے لگے جنہیں دیکھ کر مجھے کوفت سی محسوس ہوتی تھی۔ 21 برس کی عمر میں جب ہم دونوں یہ پڑھ رہے تھے کہ میڈیا کس طرح تخلیق کیا جاتا ہے اور میڈیا کے معنی کو کس طرح تخلیق کیا جاتا ہے، تب ہم امریکا کی دہشتگردی کے خلاف جنگ کے میدان بننے والے عراق اور افغانستان سے ویڈیوز کی صورت میں آنے والے پے درپے عذابوں کو بھی جھیل رہے تھے۔

میں نے خود کو تو ان مناظر سے محفوظ رکھا مگر 'لڑکے' نہ صرف دیکھتے بلکہ شیئر بھی کرتے۔ چند مواقع پر تو میں نے بھی میڈیا کے اثرات سے متعلق اس نامکمل تھیوری کا پرچار کرنا شروع کردیا کہ کس طرح انسانی زندگی اور تکالیف کی حساسیت کا احساس کرنے کے بجائے 06ء-2005ء میں ہمارے سستے نوکیا فونز پر نظر آنے والی یہ ناقابلِ اعتماد وائرل ویڈیوز ہمیں پُرتشدد مواد کا عادی بنا رہی تھیں۔ اس دن میرا رویہ ضرور پریشانی کا باعث بنا ہوگا جب ہماری بحث شدت پکڑ چکی تھی اور لڑائی میں شور اتر آیا تھا، مجھے یاد ہے کہ اس لڑائی کے بعد ہم اپنا غصہ ٹھنڈا کرنے اپنے اپنے ساتھیوں کے پاس چلے گئے۔

مگر ہماری جلد ہی صلح ہوگئی کیونکہ طویل عرصے تک دانش سے راہیں جدا کرنا کہاں کسی کے بس کی بات تھی اور پھر ہم تسلی و خوش مزاجی کے ساتھ کسی موضوع پر طویل گفتگو سے باز رہتے ہوئے آپس میں باتیں کرتے۔

جامعہ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد دانش کے ساتھ میری دوستی کے تعلق میں مباحثوں کے لیے جگہ تنگ اور شفقت و محبت کے لیے وسیع ہوتی گئی۔ ہم نے 2009ء میں ایک اور فلم بنائی۔ اس نے کیمرے کی آنکھ سے عام زندگی میں سخت مزاج اور ٹھہری ہوئی شخصیت کے مالک ہماری فلم کے مرکزی کردار ڈاکٹر ڈیوڈ بیکر کی شخصیت کے توقع سے پرے حساس اور نرم پہلوؤں کو خوب اجاگر کیا۔

انہی دنوں دانش ممبئی منتقل ہوگیا اور میں جو اس کی دلیرانہ آزادی سے جلتی اور اس کی دوستی پر شاکر تھی، کبھی کبھی اس کے ٹھکانے پر آ دھمکتی تھی۔ پھر میں پی ایچ ڈی کرنے برطانیہ چلی گئی البتہ ہماری ملاقات ہر سال ممبئی یا دہلی میں ہوتی رہتی تھی۔

دانش نے بطور تصویری صحافی رائٹرز میں ملازمت اختیار کرلی تھی اور وہ تواتر سے جوکھوں سے بھرپور اسائمنٹ پر جانے لگا۔ رائٹرز میں اپنے 10 سے زائد برسوں پر محیط عرصہ ملازمت میں اس نے انسانی تنازعات اور مزاحمت کی کئی ساری تصاویر محفوظ کیں۔ کابل کی سلور اسکرین، بھارت میں کورونا لاک ڈاؤن کے دوران مہاجر مزدوروں اور پلٹرز انعام حاصل کرنے والی روہنگیا کی ملک بدری پر سیریز میں شامل دانش کی تصویریں ہمیشہ میری پسندیدہ تصویروں میں شمار ہوں گی۔

دانش کے کام کی ایک خاصیت یہ بھی ہے وہ تصویر میں اپنے سبجیکٹ کو شاندار فریم سے زیادہ اسے درپیش بحران میں ہی دکھانے کی کوشش کرتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک روز وہ بنڈل کھنڈ گاؤں میں مقیم دیارام نامی مزدور کے پاس پہنچا اور پھر وہاں سے دہلی فسادات میں زخمی ہونے والے ایک مقامی ہسپتال میں زیرِ علاج زبیر کو ڈھونڈنے نکل پڑا۔ دانش آئی کانِک تصاویر سے زیادہ لوگوں کو فوقیت دیتا تھا اور بحران زدہ حالات میں بھی اخلاقی تقاضوں کا ہر ممکن حد تک پاس رکھتے ہوئے بلاخوف و خطر انسانی زندگیوں کو تصاویر میں نمایاں کرنے کی بھرپور کوشش کرتا تھا۔

جامعہ میں حقیقی اور بھارت و دیگر ملکوں میں ایک تصوراتی کمیونٹی سے اس کا مضبوط تعلق ہی تھا جس نے اسے رسک سے بھرپور اسائمنٹ لینے کی ہمت دی۔ مسلمان دہشتگردی اور مسلمانوں پر ظلم و ستم کی بحث اس کے کام اور سوچ میں سرایت کرگئی تھی۔ اس کی جرأت دراصل ایک جستجو تھی جو اسے فرقہ ورانہ تشدد کے مسئلے کے قلب پر اترنے سے بھی نہیں روک سکتی تھی، یہ نہیں پتا کہ وہ اس قلب پر اترا یا نہیں۔

ہماری آخری ملاقات مارچ 2020ء میں دہلی فسادات کے بعد ہوئی تھی۔ میں چند ہفتوں کے لیے وہاں آئی ہوئی تھی اور وہ دائیں بازو کے ناختم ہونے والے آن لائن ٹرولز کے بعد خود کو 'زیادہ نمایاں کرنے سے گریزاں' تھا۔ اس نے مجھے بتایا تھا کہ کس طرح اس نے ہندتوا کے مشتعل گروہ کے ہاتھوں تشدد سے قریب المرگ ہونے والے آدمی کی تصویر کھینچی تھی۔ اس کام میں فریب کاری کا سہارا لیا گیا، یعنی جب دانش نے خود کو مشتعل گروہ کے ہمدرد صحافی کے طور پر ظاہر کرنے کی کوشش کی تب ان لوگوں نے اس مار کٹائی میں اسے بھی اپنے ساتھ شامل ہونے کے لیے کہا۔

جب اس نے وہاں تصاویر لینا شروع کیں تو مشتعل گروہ کو دانش پر شک ہوگیا، کیونکہ وہ ایسا نہیں چاہتے تھے۔ پھر انہوں نے دانش سے تصویری شناختی کارڈ کا مطالبہ کیا لیکن اس کے ایک ہندو ساتھی نے بیچ میں آکر اسے اس چنگل سے نکالا اور پھر انہیں بھاگ کر اس صورتحال سے باہر نکلنا پڑا۔

میں یہ جان کر حیران تھی کہ 1990ء کی دہائی سے بھارت میں شروع ہونے والے جن فسادات کے واقعات کی دھیمے انداز میں دی جانے والی خبروں کو گزشتہ 3 دہائیوں سے سنتے ہوئے ہم بڑے ہوئے ہیں وہ کس طرح میرے دوست کے جسم تک بھی پہنچ گئی تھیں۔ میں جانتی تھی کہ ایسے جسم کے ہونے کا مطلب یہ بنتا تھا کہ اب وہاں کوئی بھی یاد نفرت کی غیر واضح سرحدوں سے آزاد نہیں رہ سکتی تھی۔ دانش نے انہیں عکس بند کرنے کا کام بطور فریضہ انجام دینے کی جدوجہد جاری رکھی۔

اس نے مجھے بتایا کہ اگر سی اے اے لاگو ہوا تو اس سے ہم متاثر نہیں ہوں گے۔ اس نے کہا کہ 'جامعہ میں صرف اس رکشے والے کے پاس ہی وہ کاغذات نہیں ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ اس کے اباؤ اجداد کہاں سے آئے اور کہاں چلے گئے'۔

میں قریب ایک سال سے اس کی صحت اور خیر و عافیت کے لیے پریشان رہنے لگی تھی اور ہمارے پیغامات میں پہلے جیسا سیاسی تیکھاپن نہیں رہا تھا۔ میں اس کے ساتھ ایک ماں، ایک بہن اور سیاسی طور پر ایک بے غرض دوست جیسا برتاؤ کرنے لگی تھی۔ 2019ء میں سری لنکا میں اس کی مختصر وقت کے لیے گرفتاری کے بعد اس سے قربت رکھنے والے لوگ رپورٹنگ کے دوران اس کی نپے تلے انداز میں خطرہ مول لینے کی عادت سے فکرمند رہتے تھے۔

گزشتہ ماہ جب اس نے بتایا کہ اس کی اگلی منزل افغانستان ہے تو مجھے پریشانی کے بجائے راحت پہنچی کیونکہ بھارت میں کورونا کی کوریج اور حسبِ معمول آن لائن نفرت نے اسے ذاتی طور پر بڑی حد تک کرب میں مبتلا کردیا تھا۔

میں نے اسے پیغام لکھ بھیجا کہ، 'افغانستان میں زیادہ ایڈونچر کرنے کی ضرورت نہیں ہے‘۔

اس نے ہنستے چہرے کی ایموجی کے ساتھ جواب میں لکھا، 'دیکھتے ہیں، افغانستان تو خود ایک ایڈونچر ہے‘۔

2 دن پہلے جب میں نے ہم وی (Humvee) پر عکس بند کردہ اس کی ویڈیوز کو واٹس ایپ پر دیکھا تو یہ سوچ کر دبی ہنسی چھوٹی کہ وہ ضرور اس پورے ایکشن، ہلتے ڈلتے کیمرا ورک اور اپنی اسٹار (جو وہ تھا) نما موجودگی سے خوب محظوظ ہوتا ہوگا۔

دانش چونکہ خود ایک شوقین بائیکر تھا اس لیے اسے چلتی گاڑیوں کی عکس بندی کرنا پسند تھا۔ یہ وائرل ویڈیوز اب ویسی دھندلی نظر نہیں آتیں جیسی 2005ء کی وائرل ویڈیوز دکھائی دیتی تھیں اور کم از کم میں تو ان تصاویر کی صداقت کے بارے میں کوئی بحث نہیں کرنا چاہوں گی کیونکہ وہ تشدد کو خود ہی عکس بند کر رہا تھا۔ میں ان ویڈیوز کے جواب میں جانوروں کے شکلوں والی ایموجیز بھیجتی رہی تاکہ اپنی پریشانی کو پُرمزاح علامات کا لبادہ پہنا سکوں۔ ساتھ ہی یہ نصف پریشانی بھی ستاتی رہی کہ وہ کسی منظر کو عکس بند کرنے کے لیے کہیں طالبان سے خطرہ مول نہ لے بیٹھے۔

مگر وہ پہلے ہی ٹوئٹر پر سب کچھ شیئر کر رہا تھا۔ یوں جس پلیٹ فارم پر اس کے لیے کبھی نفرت امڈ آئی تھی اسی پر وہ اب زبردست داد و ستائش وصول کر رہا تھا۔

دانش کی ایک ایسی دوست ہونے کے ناطے مجھے اپنے دوست کو کھونے کا دکھ تاحیات رہے گا جس نے مسلمان اقلیت اور اکثریت کے سیاق و سباق کے تجرباتی رجحانات کے بارے میں اس کے تجسس کو شدت سے محسوس کیا اور اس میں شراکت دار بھی بنی رہی۔

کچھ ماہ قبل جب اس سے بات چیت ہورہی تھی تب اس نے پوچھا کہ مجھے کس چیز نے اتنا مصروف کیا ہوا ہے، میں نے جب جواباً کہا، 'رائٹنگ' تو اس نے اپنے حسبِ معمول پُرمزاح انداز میں میری بات جھٹلاتے ہوئے کہا 'ابے کتنا لکھو گی تم!'

مجھے افسوس ہے کہ میں اسے یہ نہ بتاسکی کہ میں بھی اس کی تابناکی اور تجسس سے کافی متاثر تھی اور جامعہ میں اس کے ساتھ ملاقات نے مجھے ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ دیا تھا۔

محبوب دوست دعا ہے کہ تمہیں جوارِ رحمت میں جگہ ملے۔ حق کی لڑائی جاری رہے گی۔


یہ مضمون ابتدائی طور پر دی وائر نے شائع کیا اور بعدازاں 25 جولائی 2021ء کو ڈان اخبار کے ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔

سلمیٰ صدیق

سلمیٰ صدیق لکھاری اور برلن میں واقع ہمبولٹ یونیورسٹی میں محقق ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔