پاکستان

'افغان سفیر کی بیٹی کے ساتھ کسی ٹیکسی میں کوئی لڑائی جھگڑا نہیں ہوا'

سفیر کی بیٹی نے تمام ٹیکسی ڈرائیورز کو ادائیگی کی، کسی ٹیکسی میں ان کے ساتھ کوئی دوسرا شخص نہیں بیٹھا، شیخ رشید

وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ تفتیش میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کسی ٹیکسی میں ان کے ساتھ کوئی آدمی نہیں بیٹھا نہ ہی کوئی لڑائی جھگڑا ہوا۔

راولپنڈی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ہم نے اسلام آباد اور راولپنڈی کی 700 سے زائد گھنٹے کی فوٹیج دیکھی، 200 سے زیادہ ٹیکسیوں کی جانچ پڑتال کرنے کے بعد ان چار ٹیکسیوں اور ان کے مالکان تک پہنچے ہیں تاہم ہمیں افسوس ہے کہ ہماری اتنی کوشش کے باوجود وہ خود یہاں سے چلی گئی ہیں البتہ ہم نے مقدمہ کیا ہے اور ریاست پاکستان یہ مقدمہ لڑے گی۔

شیخ رشید نے کہا کہ حکومتِ پاکستان اس کیس سے پیچھے نہیں ہٹے گی حالانکہ ان کی درخواست اور ہماری تفتیش میں زمین آسمان کا فرق ہے کسی ٹیکسی میں کوئی آدمی نہیں بیٹھا اور ہماری تفتیش کے مطابق یہ اغوا کا کیس نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: افغان سفیر کی بیٹی کے اغوا میں ملوث مجرمان کو بے نقاب کرنا چاہتے ہیں، شاہ محمود قریشی

دوسری جانب جیو نیوز کے پروگرام 'آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ' میں تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے کہا ہے کہ افغان سفیر کی بیٹی نے جتنی ٹیکسیوں میں سفر کیا اس میں کسی ٹیکسی کے ڈرائیور نے اس بات کی تصدیق نہیں کی کہ ان کے ساتھ ٹیکسی میں کسی دوسرے شخص نے سوار ہو کر بدتمیزی کی۔

انہوں نے کہا کہ تمام ڈرائیورز نے قرآن پر حلف اٹھا کر بیان دیا ہے اور خاتون چاروں ٹیکسیوں سے خوش اتری ہیں اور انہیں کرایہ بھی ادا کیا بلکہ دامن کوہ تک تھوڑے سے فاصلے کے سفر کے ہی انہوں نے 500 روپے ادا کیے۔

'تمام معلومات ڈیلیٹ کر کے فون ہمیں دیا گیا'

وزیر داخلہ نے کہا کہ کسی سی سی ٹی وی فوٹیج میں وہ زخمی یا پریشان نظر نہیں آئیں، پہلے وہ کہہ رہی تھیں کہ مجھ سے فون لے گئے ہیں لیکن جب فوٹیج میں فون نظر آیا تو کہا کہ فون گھر پر بھول گئی تھی۔

شیخ رشید احمد نے بتایا کہ بعد میں جب سلسلہ نے فون دیا تو اس میں سے تمام ڈیٹا ڈیلیٹ کر کے دیا، انہوں نے جرمنی سے سائبر کرائم میں ڈگری حاصل کی ہوئی ہے جبکہ حکمت نے بھی جرمنی سے تعلیم حاصل کررکھی ہے جو ان کو وہاں سے لے کر گیا۔

مزید پڑھیں: افغان سفیر کی بیٹی اغوا نہیں ہوئی، یہ ‘انٹرنیشنل سازش’ ہے، شیخ رشید

وزیر داخلہ نے بتایا کہ افغان سفیر کی بیٹی پاکستان سے کسی اور ملک جارہی ہیں، انہوں نے فون ہمیں دیا ہے لیکن آئی کلاؤڈ ڈیلیٹ کر کے دیا ہے کیوں کہ وہ انٹرنیٹ کے معاملات کو بہتر سمجھتی ہیں، جو فون ہمیں ملا ہے اس میں کوئی چیز نہیں چھوڑی گئی سب صاف کردیا گیا۔

وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ فون کا فرانزیک کیا جارہا ہے، انہوں نے دامنِ کوہ اور ایف-9 پارک میں انٹرنیٹ بھی استعمال کیا ہے لیکن وہ پہلے فون ہونے کا ہی انکار کررہی تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جو بھی بین الاقوامی دباؤ ہو قوم کو سچ بتانا ہمارا فرض ہے اور سچ یہ ہے تمام افراد کی شناخت ہوچکی ہے، تمام فوٹیجز ہمارے پاس موجود ہیں۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ گھر سے انہوں نے مقدمے کی درخواست دی جس پر سخت ترین دفعات لگا کر ایف آئی آر بھی کاٹ دی لیکن حقیقت یہ ہے کہ کسی ٹیکسی میں ان کے ساتھ کوئی شخص نہیں بیٹھا نہ ہی کوئی لڑائی جھگڑا ہوا۔

'ضرورت پڑنے پر ٹیکسی ڈرائیورز کو میڈیا پر لے آؤں گا'

وفاقی وزیر نے کہا کہ اگر ضرورت پیش آئی تو وزیراعظم کی اجازت سے چاروں ٹیکسی ڈرائیورز کو میڈیا پر لے آؤں گا لیکن ابھی مجھے ایسی بات نہیں کرنی چاہیے ورنہ سب ملبہ مجھ پر ڈال دیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:افغان سفیر کی بیٹی کا معاملہ: 'کَڑیاں ملا رہے ہیں جلد صورتحال دنیا کے سامنے لائیں گے'

انہوں نے کہا کہ سچ یہی ہے کہ تمام روٹس، ڈرائیورز، ٹیکسی مالکان کی شناخت ہوچکی ہے اور کسی ٹیکسی میں کوئی شخص نہیں بیٹھا، ساتھ ہی انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ میرے اس بیان پر افغان وزیر خارجہ میرے خلاف بیان جاری کرسکتے ہیں۔

ہسپتال کی رپورٹ میں تشدد کی تصدیق ہونے سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے واضح جواب دینے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ وہ پہلے علی ہسپتال گئیں پھر ان کے والد انہیں پمز لے گئے، یہ کیس ہمارے پاس آنے سے پہلے ہی میڈیا پر آچکا تھا۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزارت داخلہ نے تحقیقات کر کے معلومات سیکریٹری خارجہ کے حوالے کردی ہے اور اور دفتر خارجہ نے ضروری سمجھا تو وہ عید کے بعد تمام سفارتکاروں کو بلا کر انہیں تمام دستاویزات دکھا سکتے ہیں۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ ہماری تفتیش میں ایک چیز مسنگ تھی کہ یہ راولپنڈی سے دامنِ کوہ کیسے گئیں لیکن اب وہ فوٹیج بھی نکال لی، گاڑی بھی پکڑ لی اور اس کے مالک کو بھی لے آئے ہیں۔

افغان سفیر کی بیٹی کا معاملہ

خیال رہے کہ افغان سفیر نجیب اللہ علیخیل کی بیٹی سلسلہ کو اسلام آباد کے کمرشل علاقے سے مبینہ طور پر نامعلوم افراد نے اغوا کر کے تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔

خاتون کے بیان کے مطابق وہ اسلام آباد کے بلیو ایریا میں قائم ایک بیکری سے ٹیکسی کے ذریعے گھر واپس آرہی تھیں کہ ڈرائیور نے ایک اور شخص کو ٹیکسی میں بٹھا لیا جس نے انہیں زبانی اور جسمانی طور پر بدسلوکی کا نشانہ بنایا۔

مزید پڑھیں: افغان سفیر کی بیٹی پر تشدد، وزیر اعظم کی ملزمان کی فوری گرفتاری کی ہدایت

بعدازاں انہیں سڑک کنارے بے ہوشی کے عالم میں چھوڑ دیا گیا تھا اور ان کی میڈیکل رپورٹ میں بھی جسمانی تشدد کی تصدیق ہوگئی۔

اس واقعے کی تحقیقات سے آگاہ کرتے ہوئے وزیر داخلہ نے کہا کہ اغوا کار کی بیٹی نے مبینہ طور پر اپنے اغوا کے بارے میں جو کچھ بتایا وہ پولیس کو دیے گئے ان کے بیان سے مختلف تھا۔

انہوں نے کہا کہ اس بات کے شواہد ہیں کہ خاتون مبینہ اغوا سے قبل راولپنڈی اور دامن کوہ گئیں حالانکہ انہوں نے اس بات سے انکار کیا تھا۔

دوسری جانب وزیر اعظم عمران خان نے وزیر داخلہ کو ہدایت کی تھی کہ افغان سفیر کی بیٹی کے اغوا میں ملوث افراد کو پکڑنے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں۔

یہ معاملہ سامنے آنے کے بعد افغانستان نے اپنے سفیر اور سینئر سفارتی اہلکاروں کو واپس بلالیا تھا جبکہ پاکستان نے بھی کابل میں موجود اپنے سفیر کو مشاورت کے لیے طلب کرلیا تھا۔

افغان سفیر کی بیٹی کا پولیس کو دیا گیا بیان

افغان سفیر کی بیٹی نے پولیس کو دیے گئے اپنے بیان میں کہا تھا کہ وہ گھر سے نکل کر 2 منٹ چلنے کے بعد انہیں ایک ٹیکسی نظر آئی جس میں وہ بیٹھ گئی اور ڈرائیور سے ایسی جگہ چلنے کو کہا جہاں سے وہ اپنے بھائی کے لیے تحفہ خرید سکیں جس پر ڈرائیور نے انہیں کہا کہ وہ ایسی دکان جانتا ہے اور وہاں لے جاسکتا ہے جس پر میں راضی ہوگئی۔

خاتون نے بتایا کہ تحفہ خریدنے کے بعد وہ گھر جانے کے لیے کسی ٹیکسی کے انتظار میں کھڑی تھیں کہ ایک ٹیکسی آ کر رکی جس میں وہ سوار ہوگئیں۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان نے پاکستان سے اپنا سفیر، سینئر سفارت کاروں کو واپس بلا لیا

ان کے مطابق 5 منٹ بعد ڈرائیور نے ٹیکسی روکی اور ایک اور شخص ٹیکسی میں بیٹھ گیا جس پر میں نے شکایت کی اور ڈرائیور کو یاد دلایا کہ ٹیکسی میں نے بُک کری ہے تو اس نے دوسرے شخص کو کیوں بٹھایا۔

جس پر اس دوسرے شخص نے اپنا چہرہ میری طرف کیا اور چلایا کہ 'اپنا منہ بند رکھو، تم ایک کمیونسٹ کی بیٹی ہو، ہم اسے نہیں چھوڑیں گے اور کسی روز پکڑ لیں گے'۔

سلسلہ کے مطابق یہ بولتے ہوئے اس شخص نے مجھے پیچھے دھکیلا اور مارنا شروع کردیا میں خوفزدہ ہو کر بے ہوش ہوگئی جب ہوش آیا تو اپنے آپ کو ایک گرد آلود مقام پر پایا تاہم میں سڑک دیکھ سکتی تھی۔

بیان میں انہوں نے کہا کہ پہلے مجھے سمجھ نہیں آیا کہ کہاں جاؤں کیوں کہ گھر پر ملازمین تھے اور میں اس حالت میں ان کے سامنے جانا نہیں چاہتی تھی جس پر میں نے ایک دوسری ٹیکسی کی جو مجھے پارک لے گئی، وہاں سے میں نے اپنے والد کے دوست کو کال کی جنہوں نے مجھے گھر پہنچایا۔

شہزادہ ہیری زندگی کے تلخ واقعات پر کتاب لکھنے میں مصروف

نماز عید کے دوران افغان صدارتی محل کے قریب راکٹ حملہ

ایس ای سی پی کی کمپنیوں کو 31 اگست تک ملازمین کی ویکسینیشن یقینی بنانے کی ہدایت