جب کورونا ویکسین سیاست کی نذر ہوگئی
جب بھی ہم پاکستانی اپنے پیاروں کو فون کرتے ہیں تو یہ انتباہی پیغام سننے کو ملتا ہے کہ 'خطرہ ابھی ٹلا ہے، لیکن پوری طرح سے ختم نہیں ہوا'۔ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کے سربراہ اسد عمر کا کہنا ہے کہ کورونا کی چوتھی لہر آنے کو ہے لہٰذا 50 برس سے زائد العمر افراد ہر صورت ویکسین لگوائیں۔
تاہم انتباہوں کے باوجود ایس او پیز کی خلاف ورزیاں بھی زور و شور سے جاری رہیں۔ اس وجہ سے پہلے بھارت میں ڈیلٹا قسم کا پھیلاؤ دیکھنے کو ملا اور پھر پاکستانیوں پر بین الاقوامی سفر پر پابندیوں کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔ صوبہ سندھ نے وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے بلاتاخیر ایک بار پھر پابندیوں کا نفاذ کردیا۔
اب اگرچہ بہت سوں پر غیر ذمہ دارانہ رویے کا الزام دھرنا تو آسان ہے لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ پاکستان کو کورونا وائرس کے خلاف جاری جنگ میں متعدد چیلنجوں کا سامنا ہے۔ ایک طرف جہاں دنیا کے مختلف حصوں میں حالات معمول کی طرف لوٹ رہے ہیں وہیں عالمی منڈی میں دستیاب محدود ویکسین کے حصول کے لیے کوشاں اور ویکسین نہ لگوانے کے رجحان سے نبردآزما پاکستان جیسے ممالک میں حالات کی بحالی کے امکانات کم ہی نظر آتے ہیں۔
دنیا میں اب تک ساڑھے 3 ارب کورونا ویکسین کی خوراکیں لگائی جاچکی ہیں۔ روزانہ 3 کروڑ سے زائد افراد کو ویکسین لگائی جا رہی ہے جن میں 12 برس تک کے بچے بھی شامل ہیں، جبکہ 3 برس تک کے بچوں کے لیے بھی اب مخصوص اقسام کی ویکسین کو منظور کیا جاچکا ہے۔
مگر دنیا کی اس کامیابی کی کہانی میں کئی جھول بھی ہیں۔ ویکسین کی عالمی طلب رسد کے مقابلے میں بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے جبکہ تقسیم کا نظام بھی نہایت غیر مساوی ہے، کیونکہ زیادہ آمدن والے ممالک کم آمدن والے ممالک کے مقابلے میں 30 گنا زیادہ تیزی سے اپنے عوام کو ویکسین لگا رہے ہیں۔ چنانچہ جہاں امیر ممالک کسی حد تک معمول کے حالات کی طرف لوٹ رہے ہیں وہیں غریب ممالک مشکلات کا شکار ہیں اور خود کو (اکثر و بیشتر حقیقتاً) باقی دنیا سے منقطع پاتے ہیں۔
عالمی کامیابی کی کہانی
مگر سنانے کو صرف بُری خبریں نہیں ہیں، بلکہ بہت ساری اچھی خبریں بھی ہیں۔ ویکسین کا ہونا سائنس اور انسانی کوششوں کی ایک بڑی کامیابی سے کیا کم ہے۔
ایک سال پہلے تک شعبہ طب سے وابستہ افراد، عالمی ادارہ صحت کے ماہرین اور عالمی پالیسی ساز اس شش و پنج کا شکار تھے کہ کورونا کی مؤثر ویکسین دریافت ہوگی بھی یا نہیں۔ حتیٰ کہ مثبت سوچ رکھنے والے بھی یہ مان چکے تھے کہ دنیا تباہی کے دہانے پر ہے کیونکہ تاریخی اعتبار سے دیکھیں تو کسی بھی ویکسین کا منڈی تک پہنچنے کا اوسط عرصہ 7 برس رہا ہے۔ ان حالات میں کورونا وائرس کا موازنہ 5 کروڑ انسانی جانوں کو نگلنے والے اسپینش فلو سے کیا جانے لگا۔ ساتھ ہی ساتھ مجموعی عالمی پیداوار میں اگلے کئی برسوں تک سکڑاؤ برقرار رہنے کی پیش گوئیاں کی گئیں۔
مگر آج ہمارے پاس 15 باضابطہ طور پر منظور شدہ ویکسین دستیاب ہیں جبکہ درجنوں ویکسین پر کام جاری ہے۔ اگرچہ ویکسین کی قسم کے اعتبار سے ان کے مؤثر ہونے کی شرح 50 سے 95 فیصد تک ہے مگر تمام ویکیسین تشویشناک مرض اور موت سے بچاؤ میں مؤثر ثابت ہوئی ہیں۔ یہ بات ڈیلٹا سمیت وائرس کے تمام مشہور اقسام پر صادق آتی ہے۔
جہاں ویکسین لگوانے کی شرح زیادہ ہے وہاں کورونا وائرس کے کیسوں، ہسپتالوں میں مریضوں کی بڑھتی تعداد اور اموات کا سلسلہ یا تو رُک گیا ہے یا پھر اس میں کمی آئی ہے۔ اگرچہ کچھ ایسے علاقوں میں بھی وبائی پھوٹ کی اطلاعات ملی ہیں جہاں اکثر آبادی ویکسین لگوا چکی ہے مگر وہاں بھی ثبوت واضح ہے۔ نئے کیسوں میں زیادہ سے زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہے جنہوں نے ویکسین نہیں لگوائی۔
مثلاً، سیشیلز (Seychelles) میں حالیہ کورونا کی وبائی پھوٹ کے بعد پتا چلا کہ وائرس سے متاثر ہونے والوں میں 65 فیصد ایسے افراد شامل تھے جنہوں نے ویکسین نہیں لگوائی تھی۔ برطانیہ میں 68 فیصد سے زائد بالغان پہلی خوراک لگوا چکے ہیں، وہاں ہسپتالوں میں داخل مریضوں کی تعداد میں کمی واقع ہو رہی ہے، وہ بھی ایسے وقت میں جب کورونا کیسوں میں ڈیلٹا قسم کی شرح بڑھتی جا رہی ہے۔
وبائی امراض کے ماہرین کا ماننا ہے کہ ہم نے گزشتہ برس وائرس سے ہونے والے جس مرض کو دیکھا ہے یا جسے جھیلا ہے، اب یہ وائرس اس مرض کا سبب نہیں بنے گا کیونکہ کئی سارے لوگ ویکسین لگوانے یا پچھلے انفیکشن کے ذریعے محفوظ ہوجائیں گے اور بیماری بالآخر ایک عام نزلہ زکام کی صورت اختیار کرلے گی۔
سنگاپور کی اکثر آبادی ویکسین یافتہ ہوچکی ہے اس لیے حکام نے معمول کی زندگی کے احساس کو بحال کرنے کے لیے روزانہ کے کورونا کیسوں کو رپورٹ نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
جرمنی نے مطالبہ کیا ہے کہ معاشرتی اور صحت عامہ کے تناظر میں جس طرح وائرس پر غور و فکر کیا جاتا ہے اس پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ جرمن وزیرِ صحت ژینس اشپاہن (Jens Spahn) کے مطابق 'آبادی کے جن گروہوں کو سب سے زیادہ خطرہ ہے، انہیں چونکہ ویکسین لگائی جاچکی ہے اس لیے اگر کوئی ناگہانی ہوتی ہے تو بھی اس کا ہمارے نظامِ صحت پر بہت زیادہ بوجھ نہیں پڑے گا'۔
ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ویکسین محفوظ ہیں۔ 2020ء کے آواخر سے اب تک امریکا میں 33 کروڑ خوراکیں لگائی جاچکی ہیں۔ اس دوران جن افراد نے کورونا ویکسین لگوائی ہوئی تھی ان میں 5 ہزار سے بھی کم افراد (0.0015 فیصد) کی موت واقع ہوئی ہے۔ امریکن سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول (سی ڈی سی) اور فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) کے ڈاکٹروں نے ہر ایک موت کے کیس کا جائزہ لیا ہے۔ مریض کی دستیاب کلینکل معلومات کا جائزہ لینے پر ویکسین کسی طور پر بھی موت کا موجب ثابت نہیں ہوئی ۔
یہ ثبوت خون کے لوتھڑے بننے سے متعلق مچائے گئے شور کو بھی جھٹلانے کے لیے کافی ہے۔ ایسے واقعات 10 لاکھ میں سے بمشکل ایک شخص کے ساتھ پیش آتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں تو کسی پر آسمانی بجلی گرنے کے امکانات (ساڑھے 7 لاکھ میں سے ایک شخص) زیادہ ہوتے ہیں۔
مگر سائنس اور انسانی کوششوں کی اس تاریخی فتح کے بیچ مارکیٹوں، اخلاقیات اور عالمی اجتماعی عمل کی تاریخی ناکامیاں سر اٹھانے لگی ہیں۔
غریب ملک کہاں جائیں؟
ویکسین کی پیداوار میں زبردست اضافے کی وجہ سے امیر ملکوں کے پاس 2021ء کے آخری 6 ماہ میں بڑی تعداد میں اضافی ویکسین موجود ہوں گی۔ بروکنگز انسٹیٹیوٹ کے اندازے کے مطابق سال کے آخر تک امریکا کے پاس ایک ارب سے زائد خوراکیں موجود ہوں گی۔ یاد رہے کہ یہاں اس ملک کی بات ہو رہی ہے جہاں ہر شہری کو بوسٹر ٹیکہ بھی لگایا جاتا ہے۔
ڈیوک گلوبل ہیلتھ انوویشن سینٹر کے تخمینے کے مطابق یورپی یونین کے پاس 50 کروڑ سے زائد اضافی خوراکیں جبکہ برطانیہ اور کینیڈا میں بالترتیب 16 کروڑ 50 لاکھ اور 15 کروڑ 60 لاکھ اضافی خوراکیں موجود ہوں گی۔
اگرچہ دنیا میں آدھے سے زائد بلند اور اعلیٰ متوسط آمدن کے حامل ممالک اپنی اپنی آبادی کے کم از کم 20 فیصد حصے کو مکمل طور پر ویکسین کی خوراکیں لگواچکے ہیں مگر عالمی بینک کی جانب سے دنیا کے جن 79 ممالک کو کم یا ادنیٰ متوسط آمدن کا حامل قرار دیا گیا ہے ان میں سے صرف 3 ملک اتنی تعداد میں اپنی اپنی آبادی کو ویکسین لگواسکے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر ویکسین کی تقسیم میں اس عدم برابری کو 'تباہ کن اخلاقی ناکامی' قرار دیتے ہیں۔
اخلاقی تقاضے تو ایک طرف، اس کے کئی سنجیدہ اقتصادی اور عملی تحفظات بھی پائے جاتے ہیں۔ معمول کی زندگی کی طرف لوٹنے کا واحد راستہ ویکسینیشن ہے۔ جب تک دنیا اس عمل کی منصوبہ بندی نہیں کرتی اور اس میں تیزی نہیں لاتی تب تک ہمیں وقفے وقفے سے لاک ڈاؤن، سلو ڈاؤن اور دیگر اقسام کی پابندیوں کا سامنا کرتے رہنا ہوگا، جس کے بدترین اثرات دنیا کے مختلف ملکوں میں روزگار اور آمدنیوں پر مرتب ہوں گے۔
مربوط اور ایک دوسرے پر منحصر اس دنیا میں جہاں تھوڑی غفلت سے وائرس پھیلنا شروع ہوجاتا ہے، وہاں کوئی بھی شخص اس وقت تک محفوظ نہیں ہوسکتا جب تک ہر ایک شخص محفوظ نہ ہو۔ انٹرنیشنل چیمبر آف کامرس کے اندازے کے مطابق ویکسین کی تقسیم میں عدم برابری برقرار رہی تو دنیا کو اقتصادی اعتبار سے 9.2 کھرب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑسکتا ہے، جبکہ حالات بدترین ہوئے تو امیر ملکوں کو اس نقصان کا آدھا بوجھ اٹھانا پڑسکتا ہے۔
انسانی زندگیوں اور روزگار کے تناظر میں دیکھیں تو ویکسین لگانے کے عمل میں عدم مساوات کا مسئلہ عالمی منظرنامے پر ویکسین کی پیداوار، تقسیم اور قبولیت پر جاری سیاست کے باعث مزید پیچیدہ ہوتا جارہا ہے۔
ویکسین کی سیاست
عالمی وبا کے آغاز پر ایسی بہت سی باتیں ہو رہی تھیں کہ دنیا 'مل کر اس وبا کا سامنا کرے گی'۔ مگر ویکسین کی آمد کے ساتھ ہی عالمی 'ٰیکجہتی' کی باتیں دھری کی دھری رہ گئیں۔
چین، روس اور مغرب پر اپنی 'نرم طاقت' دکھانے اور اثر و رسوخ و جذبہ خیر سگالی کی دوڑ میں ایک دوسرے کو پچھاڑنے کے لیے ویکسین کا استعمال کرنے کا الزام عائد کیا جاسکتا ہے۔
مثال کے طور پر چین نے جن 72 ممالک کو خوراکیں دینے کا وعدہ کیا ہے ان میں سے 2 کو چھوڑ کر باقی وہ ممالک شامل ہیں جو بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا حصہ ہیں۔ عالمی سطح پر انفرااسٹرکچر پر مشتمل اس منصوبے کا مقصد چینی اثر و رسوخ کو بڑھانا، سرمایہ کاری کے نئے مواقع پیدا کرنا اور منصوبے میں شامل تمام ملکوں میں اقتصادی اور تجارتی تعاون کو مضبوط بنانا ہے۔
مگر ایک طرف جہاں مغرب نے اپنی آبادیوں کے لیے ویکسین کی خوراکوں کو ذخیرہ کیا وہیں چین نے ویکسین دیگر ممالک کو بھیجنا شروع کیں۔ رواں ماہ چینی وزیرِ خارجہ نے اعلان کیا کہ ان کا ملک اب تک 80 سے زائد ممالک کو 50 کروڑ کورونا ویکسین کی خوراکیں بھیج چکا ہے۔ اس مشن نے ایسے وقت میں مغرب کی غیر مناسب کوششوں کو آشکار کیا جب چین اور کئی بڑی جمہوریتوں کے مابین تناؤ کی صورتحال اپنے عروج پر تھی۔
چین دراصل ہانگ کانگ اور زنجیانگ میں جبر کے بعد خود پر ہونے والی تنقید کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی اقتصادی، سائنسی اور طبّی کامیابیوں اور اپنی ثقافت و زبان کے ذریعے خود کو اعلیٰ دکھا کر اپنے بارے میں مثبت آرا پیدا کرنے کی کوشش بھی کر رہا ہے۔
روس بھی ویکسین کی جلد برآمد سے بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ روس نے مشرقی یورپ اور بالکن کو ویکسین کی فراہمی یا اس کی مشترکہ طور پر پیداوار کی پیش کش بھی کر ڈالی اور یوں اپنی نرم طاقت کا پیغام بھی دے دیا، جس سے دنیا کی توجہ یورپی یونین کی ناکامیوں اور یورپی یونین کی توسیعی اور ہم سایہ پالیسیوں میں شامل ملکوں کی روسی مدد کی طرف مبذول ہوئی۔
اب مغرب بھی 'جی 7' کے ذریعے 2021ء کے آخر تک غریب ممالک کو تقریباً ایک ارب سے زائد خوراکیں فراہم کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے 'ویکسین سفارتکاری' کی اس دوڑ میں شامل ہو رہا ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے دنیا کو 'ڈوریوں سے آزاد' ویکسین لگانے میں مدد کرنے کا عہد کیا ہے۔ تاہم مغربی میڈیا کی جانب سے چینی ویکسینوں کی افادیت پر سوال کھڑا کرنے کی مہمات چلانے کی وجہ سے یہ سیاست ایک خطرناک موڑ لینے لگی ہے۔ چین کی وزارت خارجہ نے ان مہمات کو 'تعصب کی بنیاد پر بدنام کرنے' کی کوششیں قرار دیا ہے۔
دوسری جانب بھی جوابی کارروائی کی جا رہی ہے۔ یورپی کونسل کے صدر چارلس نے حال ہی میں لکھا کہ، 'روس اور چین اقدار میں ہمارے مقابل نہیں ہیں، ہمیں خود کو ان دونوں ملکوں کے ہاتھوں گمراہ ہونے سے بچانا ہوگا کیونکہ یہ دونوں دیگر ممالک کو بہت ہی محدود تعداد میں ویکسین فراہم کرتے ہیں جبکہ اس کی تشہیر بہت زیادہ کرتے ہیں‘۔
دوسری طرف روس نے مغرب پر سیاسی وجوہات کی بنا پر اسپٹنک (Sputnik V) ویکسین کو منظوری نہ دینے کا الزام لگایا ہے۔ اگرچہ شعبہ صحت کے ماہرین اور عالمی ادارہ صحت نے عوامی سطح پر حقیقی عالمی اعداد و شمار کی بنیاد پر چینی اور روسی ویکسینوں کو مؤثر قرار دے دیا ہے مگر اس وقت سب سے زیادہ دستیاب ویکسینوں سے متعلق شکوک و شبہات ویکسین نہ لگوانے کے رجحان کو بڑھانے کا سبب بن سکتے ہیں اور یوں عالمی وبا کے خاتمے کی کوششوں کو زک پہنچ سکتی ہے۔
اب جہاں دنیا کے کچھ ممالک چینی ویکسین کو تسلیم نہیں کرتے وہیں چین مغربی ویکسین کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں، لہٰذا ویکسین پاسپورٹ کے استعمال اور اس پر جاری سیاست سے عالمی اقتصادی مسائل کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
یورپی یونین اس حد تک آگے بڑھ گیا کہ بھارت میں بننے والی ایسٹرازینکا کو اپنے خطے میں سفری مقاصد کے لیے موزوں قرار دینے سے ہی انکار کردیا۔
اقوامِ متحدہ کی کانفرنس برائے تجارت و ترقی کے مطابق دنیا کی اکثر آبادی کو ویکسین لگانے کے باوجود رواں برس صرف سیاحتی شعبے کو 1.7 کھرب ڈالر سے 2.4 کھرب ڈالر کے نقصان کا خدشہ ہے۔ واضح رہے کہ یہ تخمینہ فرانس، جرمنی، برطانیہ اور امریکا جیسے ممالک میں سفری سلسلے کی متوقع مکمل بحالی کو مدنظر رکھتے ہوئے لگایا گیا ہے۔
اگرچہ ویکسین کی پیداوار اور تقسیم میں مساوات اور اجتماعی عمل میں بے شمار ناکامیاں ہیں لیکن انہیں حل کرنے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔
آگے بڑھنا ہوگا
موڈرنا کے سی ای او اسٹیفن بینسل نے مستقبل میں نئی وباؤں کو جنم دینے کی صلاحیت رکھنے والے وائرسوں کی عالمی سطح پر مؤثر نگرانی کا نظام مرتب دینے کے لیے 'نیور اگین' نامی پروگرام متعارف کروایا ہے۔ اس پروگرام کے تحت دنیا کے مختلف حصوں میں mRNA ویکسین فیکٹریوں کو قائم بھی کیا جاسکے گا۔
اس پروگرام کے پیچھے یہ خیال کارفرما ہے کہ ویکسین کی پیداواری صلاحیت کی کمی کے باعث چونکہ دنیا میں مشکلات پیدا ہوتی ہیں اس لیے لوگوں کی زندگیوں اور روزگار کو زیادہ نقصان پہنچنے سے بچایا جائے۔ mRNA کی ٹیکنالوجی سے ویکسینوں کی تیاری سالوں کے بجائے گھنٹوں میں ممکن ہوسکتی ہے، جس کی ایک مثال موڈرنا ویکسین ہے، جسے محض 48 گھنٹوں کے اندر وائرس جینوم کو ترتیب دے کر تیار کیا گیا تھا۔
ویکسین کی عام فراہمی میں سب سے بڑی رکاوٹ محدود پیداواری صلاحیت ہے۔ مذکورہ پروگرام سرکاری و نجی شراکت داریوں کے ذریعے پیداواری صلاحیت کو بڑھانے کا ارادہ رکھتا ہے تاکہ کسی بھی موقعے پر پوری دنیا کی طلب کو پورا کیا جاسکے۔ اگرچہ یہ طویل المدت حل ہے لیکن امید سے خالی نہیں۔
دنیا میں عام سطح پر ویکسین لگانے کے عمل سے متعلق ایک اور امید افزا بات یہ سامنے آئی ہے کہ جیسے جیسے پیداوار بڑھتی جائے گی ویسے ویسے ویکسین کی کمی اور ان کے مہنگے داموں کے مسائل بھی آئندہ ماہ میں کم ہوجائیں گے۔
اگلے 12 ماہ کے دوران کورونا وائرس کی ویکسین کی عالمی پیداوار ایک اندازے کے مطابق سالانہ 17 ارب سے زائد خوراکوں تک جاپہنچے گی۔ اب جبکہ 3 ارب سے زائد خوراکوں کو لگایا جاچکا ہے، اور (دو خوراکوں کی طبّی تجویز کو مدِنظر رکھیں تو) خوراکوں کی زیادہ سے زیادہ مجموعی عالمی طلب 14 ارب تک پہنچے گی، یعنی آنے والے مہینوں میں طلب سے کہیں زیادہ اضافی ویکسینیں دستیاب ہوں گی۔ اگر ہم بوسٹر خوراکوں کی طلب کو بھی شامل کریں تو بھی دنیا میں ویکسین کا اضافی ذخیرہ دستیاب ہوگا۔
اب جبکہ وائرس کا بے قابو پھیلاؤ نئے اقسام کو بھی جنم دینے لگا ہے، بھاری اقتصادی نقصان پہنچا رہا ہے اور ہماری اجتماعی اخلاقیات کے شعور کو جھنجھوڑ رہا ہے ایسے میں ضروری ہے کہ دنیا مشترکہ کوششوں سے ویکسین کی وسیع بنیادوں پر دستیابی کو یقینی بنائے تاکہ دنیا کا کوئی شخص ویکسین لگوانے سے نہ رہ جائے۔
Covax, Coalition for Epidemic Preparedness اور عالمی ادارہ صحت جیسے عالمی سطح کے منصوبوں کو مستحکم بنانے کی ضرورت ہے تاکہ عالمی وبا کو مات دینے کے ساتھ ساتھ مستقبل کی وباؤں سے دنیا کو محفوظ بنایا جاسکے۔ کیونکہ یاد رہے کہ اگر ایک شخص بھی غیر محفوظ رہا تو کوئی بھی محفوظ نہیں ہوگا۔
پاکستان میں ویکسین لگانے کی حکمتِ عملی کیا ہونی چاہیے؟
ڈیوک گلوبل انوویشن سینٹر نے اپنے حالیہ سروے میں پاکستان کو ویکسین کے حصول کے اعتبار سے درجہ بند ملکوں کی فہرست میں آخری 3 ممالک میں شامل کیا۔ دیگر کئی ممالک کی طرح پاکستان تاخیر سے آرڈر کرنے کے سبب اب تنگ حال عالمی منڈی سے خوراکوں کی کھیپ حاصل کرنے میں مسائل کا سامنا کر رہا ہے۔
آبادی کو ویکسین لگوانے کی دوڑ میں پاکستان خطے کے دیگر ممالک سے بھی پیچھے ہے۔ جہاں بنگلہ دیش اور بھارت بالترتیب اپنی آبادی کے 3 اور 5 فیصد حصے کو مکمل ویکسین لگا چکے ہیں وہیں پاکستان اب تک اپنی آبادی کے 2 فیصد حصے کی ویکسینیشن کرسکا ہے۔
ویکسین منگوانے میں سست روی کی ایک اہم وجہ حکومتی اداروں کی جانب سے ممکنہ خطرات کے باعث آرڈرز دینے میں ہچکچاہٹ ہے، شاید اس کے پیچھے ایک حد تک مستقبل میں بدعنوانی کے الزامات کے ذریعے سیاسی طور پر نشانہ بنائے جانے کا ڈر، کورونا کے پھیلاؤ اور اموات کی کم شرح، اور ابتدائی طور پر جی اے وی آئی/ عالمی ادارہ صحت کے ان وعدوں پر انحصار کارفرما ہوسکتا ہے جو پورے نہ ہوسکے۔
لیکن شکر ہے کہ حالیہ ہفتوں میں پاکستان نے جولائی تک متوقع اضافی 2 کروڑ خوراکوں کے ساتھ ویکسین کے حصول اور اسے لگانے کے عمل کو تیزی سے بڑھانا شروع کردیا ہے اور حال ہی میں ویکسین لگوانے کی روزانہ کی شرح 5 لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔
معقول حکمتِ عملی اپنانی ہوگی
موجودہ حالات اور مستقبل میں ویکسین کے حصول میں آنے والی رکاوٹوں کے پیش نظر پاکستان کو ایک ایسی حکمتِ عملی اپنانی ہوگی جس کی مدد سے ویکسینیشن کے وسائل کو زیادہ سے زیادہ مؤثر بنایا جاسکے۔
حکمتِ عملی میں وائرس کے پھیلاؤ سے جڑے تمام پہلوؤں کو ملحفوظ خاطر رکھا جائے، جہاں شواہد واضح ہوں۔ 45 برس سے زائد العمر افراد کو وائرس کا شکار ہونے کے بعد ہسپتال داخل کرنے یا ان کی موت واقع ہونے کا خدشہ سب سے زیادہ ہوتا ہے، اور یہ رسک اس سے بڑھتی عمر والے افراد میں بڑھتا چلا جاتا ہے۔
دنیا میں کورونا سے ہونے والی اموات کے اعتبار سے امریکا، برازیل اور بھارت صف اول کے 3 ممالک میں شامل ہیں۔ امریکا میں 95 فیصد، برازیل میں 85 فیصد اور بھارت میں 88 فیصد 45 برس اور اس سے زائد العمر افراد موت کا شکار ہوئے۔ پاکستان میں 90 فیصد 45 برس اور اس سے زائد العمر افراد مارے جاچکے ہیں۔ ان مایوس کن اعداد و شمار سے ان کورونا کیسوں کی تعداد کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے جنہیں ہسپتال میں رکھنا ضروری ہوجائے گا۔
یہاں یہ کہنا مقصود نہیں کہ نوجوان آبادی وائرس کی زد میں نہیں آسکتی یا آبادی کا کچھ حصہ تشویشناک حالت کا شکار نہیں ہوگا، البتہ اعداد و شمار کی روشنی میں دیکھیں تو 45 برس سے کم عمر افراد میں تشویشناک حالت اور اموات کا خطرہ بہت ہی کم پایا جاتا ہے۔
مزید برآں، اس وبا سے بُری طرح متاثر ہونے والا شعبہ تعلیم کا ہے جس کے باعث بڑے پیمانے پر سماجی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ چنانچہ طلبہ اور اساتذہ کو لازمی طور پر ترجیح دی جائے۔
6 نکاتی حکمت عملی:
پہلا
جن بڑے شہروں میں مرض کا پھیلاؤ بہت زیادہ ہے وہاں 45 برس سے زائد العمر افراد، پرائمری پاس طلبہ، اساتذہ اور شعبہ صحت سے وابستہ افراد پر توجہ مرکوز کی جائے۔
45 سے زائد العمر افراد کی مجموعی تقریباً 3 کروڑ 50 لاکھ آبادی میں سے 2 کروڑ 50 لاکھ سے بھی کم افراد شہری علاقوں میں مقیم ہیں۔
سیکنڈری اور اس سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کی تعداد 2 کروڑ سے بھی کم بنتی ہے۔ اساتذہ اور شعبہ صحت کےکارکنان کی مجموعی تعداد 50 لاکھ سے بھی کم ہے۔ یعنی ملک میں 5 کروڑ افراد ایسے ہیں جنہیں ویکسین لگانا ضروری ہے۔
فی دن 7 لاکھ 50 ہزار ویکسین لگانے سے 100 دنوں کے اندر اندر مذکورہ تعداد میں لوگوں کی مکمل ویکسینیشن ممکن بنائی جاسکتی ہے۔
آپ کو بتاتے چلیں کہ بھارت روزانہ 40 لاکھ اور چین روزانہ 2 کروڑ افراد کو ویکسین لگا رہا ہے۔ ایک ویکسین پر تقریباً 15 ڈالرز کا خرچہ ہوتا ہے اس لحاظ سے پہلے مرحلے کے لیے 75 کروڑ ڈالرز سے بھی کم رقم مطلوب ہوگی۔ اس رقم کا نصف حصہ عالمی بینک جیسے عالمی اداروں سے حاصل کیا جاسکتا ہے جبکہ بقیہ حصے کا بندوبست داخلی سطح پر رقوم کے نئے اختصاص کے ذریعے ممکن بنایا جائے۔ یوں ہمیں جی اے وی آئی / عالمی ادارہ صحت کی امدادوں پر تکیہ نہیں کرنا ہوگا۔
دوسرا
ایک خوراک پر مشتمل ویکسین کا زیادہ سے زیادہ حصول ممکن بنانا ہوگا اور دنیا کے مختلف علاقوں سے ویکسین کے حصول کی غرض سے سفارتی کوششوں کو تیز کرنا ہوگا۔
اس کے علاوہ مقامی سطح پر fill and finish کی صلاحیت کو بڑھانا بھی ضروری ہے جس سے لاگت میں کمی آئے گی اور ویکسین کی کھیپ میں زبردست اضافہ بھی ہوگا۔ اس کام کے لیے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ (این آئی ایچ)، ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ)، وزارتِ صحت اور بوٹلنگ صلاحیت اور مہارت کی حامل مقامی دوا ساز کمپنیوں کے مابین نجی و سرکاری شراکت داریاں قائم کرنی ہوگی۔
تیسرا
میڈیا پلیٹ فارمز پر عوامی آگاہی اور مارکیٹنگ کی مہم چلائی جائے۔ میڈیا مہم کے ذریعے ویکسین لگوانے میں ہچکچاہٹ اور بالخصوص سوشل میڈیا پر ویکسین سے متعلق بے بنیاد سازشی نظریات کے مسئلے کو حل کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ساتھ شراکت داریاں قائم کرنی ہوں گی۔
چوتھا
ویکسین لگوانے کی ترغیب دینے کے لیے جن مختلف عمروں کے افراد کو ترجیحی بنیادوں پر ویکسین لگانے کا عمل انجام دیا جا رہا ہو انہیں بے نظیر انکم سپورٹ/ احساس پروگرام اور نادرا کے ذریعے براہِ راست رقم منتقل کی جائے۔ جن افراد کو ترجیحی بنیادوں پر ویکسین لگانے کی تجویز پیش کی گئی ہے ان میں سے اگر ہر ایک کو 500 روپے ادا کیے جائیں تو حکومت کی جیب سے 25 ارب سے بھی کم رقم خرچ ہوگی۔ ویکسین لگانے کی مالی ترغیب کے لیے قرعہ اندازی کی اسکیمیں بھی متعارف کروائی جاسکتی ہیں۔
پانچواں
ویکسین پاسپورٹ کو اندرون اور بیرون ملک سفر، (موبائل فون کے لوڈ سمیت) یوٹیلٹی بلوں، جائیداد اور گاڑی کی خریداری، امتحانات، شادی کی تقریبات، ہوٹلوں اور ان ڈور ڈائننگ کے لیے لازمی قرار دیا جائے۔ خلاف ورزی کرنے پر لوگوں اور بالخصوص ان سروسز کے منتظمین یا ان سروسز سے کمانے والے افراد کو بھاری جرمانوں اور قومی شناخت کارڈ کی بندش کی صورت میں سزا دی جائے۔
چھٹا
چونکہ یہ بتایا جاتا ہے کہ چند ویکسینیں صرف 12 ماہ تک مؤثر ثابت ہوسکتی ہیں اس لیے ویکسین بوسٹر پروگرام کے لیے منصوبہ بندی اور اس کی تیاری بھی ضروری ہے۔
مذکورہ بالا حکمتِ عملی کے چند نکات پر حکومت پہلے ہی عمل پیرا ہے اور پاکستان نے اب تک زندگیوں اور آمدن کے درمیان توازن برقرار رکھتے ہوئے اپنے ہم سایوں کے مقابلے میں کافی بہتر انداز میں عالمی وبا کا مقابلہ کیا ہے۔ مگر چونکہ چوتھی لہر کا خطرہ سر پر منڈلانے لگا ہے ایسے میں ہمیں خطرہ مول لینے کے بجائے جلد از جلد اپنی آبادی کو ویکسین یافتہ بنانا ہوگا۔
یہ مضمون 18 جولائی 2021ء کو ڈان اخبار کے ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔
لکھاری اقتصادی ماہر اور انٹرپرنیور ہیں۔،
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: savailhussain@ ان سے ای امیل پر بھی رابطہ کیا جاسکتا ہے: shussain@opm53.hbs.edu
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔