افغان سفیر کی بیٹی کا معاملہ: 'کَڑیاں ملا رہے ہیں جلد صورتحال دنیا کے سامنے لائیں گے'
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے کہا ہے کہ سیف سٹی کیمروں اور فوٹیجز کی مدد سے افغان سفیر کی بیٹی کی نقل و حرکت کی معلومات اکٹھی کی گئی ہیں اور صرف ایک کڑی ملنا باقی ہے جس کے بعد یہ گتھی سلجھ جائے گی۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے شیخ رشید نے کہا کہ افغان سفیر کی بیٹی گھر سے پیدل نکل کر مارکیٹ پہنچیں جہاں سے ٹیکسی لے کر وہ خریداری کے لیے کھڈا مارکیٹ اتریں۔
انہوں نے بتایا کہ یہ معلومات ہمیں سیف سٹی کے کیمروں اور ویڈیوز کے ذریعے ملی ہے، کھڈا مارکیٹ سے خاتون نے ایک اور ٹیکسی لی جو ہماری فوٹیج کے مطابق راولپنڈی جاتے ہوئے دیکھی گئی۔
انہوں نے کہا کہ راولپنڈی میں خاتون کو جس شاپنگ مال کے باہر ٹیکسی نے اتارا اس کی بھی فوٹیج موجود ہے، بعدازاں دامن کوہ سے انہوں نے تیسری ٹیکسی لی اور ہمارے پاس اسی چیز کا گیپ ہے کہ یہ راولپنڈی سے دامنِ کوہ کیسے پہنچیں۔
یہ بھی پڑھیں:افغان سفیر کی بیٹی پر تشدد، وزیر اعظم کی ملزمان کی فوری گرفتاری کی ہدایت
شیخ رشید نے کہا کہ دامنِ کوہ سے تیسری ٹیکسی کے ڈرائیور سے بھی پوچھ گچھ کی گئی ہے جس کے فون سے انہوں نے افغان سفارتی اہلکار کو فون کیا تھا۔
وزیر داخلہ کے مطابق خاتون اسلام آباد کے سیکٹر ایف-6 سے پہلے گھر جاسکتی تھیں لیکن انہون نے ایف-9 جانے کو ترجیح دی۔
انہوں نے بتایا کہ رات 2 بجے ہمیں مقدمے کے اندراج کی تحریری درخواست موصول ہوئی ہے اور اس سلسلے میں ہم دفتر خارجہ سے مکمل رابطے میں تھے۔
انہوں نے بتایا کہ واقعے کا مقدمہ پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 365، 354، 506 اور 34 کے تحت درج کرلیا گیا ہے۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ جیسے جیسے وہ ہم سے تعاون کررہے ہیں اس کیس کی کڑیاں کھل رہی ہیں لیکن ہماری فوٹیج کے مطابق افغان سفیر کی بیٹی کا کھڈا مارکیٹ سے راولپنڈی جانا اور شاپنگ مال پر اترنا بھی تفتیش میں شامل ہے۔
مزید پڑھیں:'افغانستان میں عدم استحکام سے پاکستان میں دہشت گردوں کی باقیات فعال ہونے کا خدشہ ہے'
انہوں نے کہا کہ اب مسئلہ صرف یہ ہے کہ ہم یہ تفتیش کررہے ہیں کہ وہ راولپنڈی سے دامن کوہ کیسے آئیں، ہم راولپنڈی کی فوٹیجز کا جائزہ لے رہے ہیں اگر شام تک یہ گتھی بھی سلجھ گئی تو اس کیس کی ساری کڑیاں مل جائیں گی۔
'بھارتی میڈیا نے بین الاقوامی میڈیا کو گمراہ کیا ہے'
وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ اس کے بعد ہم بین الاقوامی میڈیا، جسے بھارت نے گمراہ کیا ہوا ہے، اسے حقیقت کے قریب لے جانے میں کامیاب ہوجائیں گے اور ساری صورتحال دنیا کے سامنے رکھیں گے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ اس خطے میں ہماری اہمیت بہت بڑھ چکی ہے، عمران خان کی حکومت کی خارجہ پالیسی کی مقبولیت ہر جگہ ہے ایسے میں بھارت ہمارے خلاف پروپیگنڈے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے رہا۔
داسو منصوبے کے حوالے سے وزیر داخلہ نے کہا کہ وزارت داخلہ ان 15 چینی عہدیداروں کی میزبانی کررہے ہے جو کل ہیلی کاپٹر کے ذریعے جائے وقوع پر گئے، پاک فوج اور تمام ادارے اس تفتیش میں زبردست محنت کررہے ہیں'۔
ان کا کہنا تھا کہ داسو واقعے کی تحقیقات مشترکہ طور پر کی جارہی ہیں جس میں ان کے 15 افراد شامل ہیں جبکہ ہماری ایجنسی کے بھی افراد شامل ہیں'۔
یہ بھی پڑھیں: 15 چینی عہدیدار داسو واقعے کی تحقیقات کا حصہ ہیں، شیخ رشید
انہوں نے کہا کہ چینی عہدیداروں کی میزبانی پر وزارت داخلہ اور پاکستانی ایجنسیز کے اچھے تعاون پر کل واٹس ایپ پر ستائش کی گئی ہے لیکن انہوں نے صرف ایک بات کی ہے کہ ہمارا بیانیہ اور آپ کا بیانیہ ایک ہونا چاہیے۔
'چینی جانتے ہیں ہم اپنی بساط سے بڑھ کر ذمہ داری نبھا رہے ہیں'
وزیر داخلہ نے کہا کہ کل جو اس بات کو اتنا اچھالا گیا کہ داسو میں کام بند ہوگیا ہے تو رات گئے کمپنی نے بیان جاری کر کے بتادیا کہ پاکستانی وہاں کام کررہے ہیں اور کام بھی جاری رہے گا جبکہ سی پیک اور ڈیمز کے منصوبوں پر کوئی حرف نہیں آنے دیا جائے گا۔
شیخ رشید احمد نے کہا کہ چین کی حکومت بخوبی سمجھتی ہے کہ ہم اپنی بساط سے بڑھ کر اپنی ذمہ داری ادا کررہے ہیں اور چین نے پاکستان کی ایجنسیوں کی تفتیش اور وزارت داخلہ کی میزبانی پر شکریہ ادا کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ چین نے صرف ایک بات کی ہے کہ ایک جیسا بیان جاری کیا جائے جس پر ہم نے ان سے کہا ہے کہ آپ وزارت داخلہ سے مل کر بیان جاری کریں کیوں کہ یہ وزارت داخلہ کا کام نہیں۔
افغان سفیر کی بیٹی کے واقعے کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ یہ واقعہ 16 تاریخ کو پیش آیا لیکن کل ساڑھے 8 بجے انہوں نے اس کی اطلاع دی۔
مزید پڑھیں: افغانستان کے مسئلے پر پاکستان، امریکا سمیت چار ملکی نیا اتحاد تشکیل
انہوں نے کہا کہ پولیس افغان سفیر کی بیٹی کی تفتیش کررہی ہے ان کی درخواست پر واقعے کا مقدمہ درج کیا جارہا ہے، ہم افغان سفارتخانے کے ساتھ رابطے میں ہیں جو تعاون کررہا ہے۔
'48 سے 72 گھنٹوں میں افغان سفیر کی بیٹی کا کیس پایہ تکمیل تک پہنچ جائے گا'
ان کا کہنا تھا کہ ہماری پولیس، دفتر خارجہ اور ادارے وزیراعظم کی ہدایت پر جلد از جلد ملزمان کی گرفتاری کے لیے کوششیں کررہے ہیں، تفتیش کل سے پرسوں تک میں مکمل ہوجانے کے بعد میڈیا کو دوبارہ اعتماد میں لیا جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم کی ہدایت تھی کہ کیس کو 48 گھنٹوں میں منطقی انجام تک پہنچایا جائے اگر 48 گھنٹوں میں نہ ہوا تو 72 گھنٹوں میں یہ ضرور پایہ تکمیل تک پہنچ جائے گا۔
ایک سوال کے جواب میں شیخ رشید نے کہا کہ اس وقت 1900 کیمرے موجود ہیں لیکن وزیراعظم سے مزید 1500 کیمرے مہیا کرنے کی درخواست کی گئی ہے جس کے لیے فنڈز سی ڈی اے چیئرمین فراہم کریں گے۔
چمن بارڈر کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ پاکستان کی طرف صورتحال بالکل ٹھیک ہے، افغانستان کی صورتحال وہ جانیں ان کا کام جانے، پاکستان اپنی سرزمین کو افغانستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گا اور نہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گرد کے لیے استعمال ہونے کی توقع رکھتا ہے۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ راولپنڈی اور اسلام آباد پولیس کا ایک جوائنٹ وینچر بنانے پر کام کررہے ہیں۔
افغان سفیر کی بیٹی کا اغوا
خیال رہے کہ افغان سفیر کی بیٹی کے اغوا کے بعد تشدد کا معاملہ گزشتہ روز سامنے آیا تھا۔
جب افغان وزارت خارجہ کی جانب سے آج جاری بیان میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ پاکستان میں افغان سفیر نجیب اللہ علی خیل کی صاحبزادی سلسلہ علی خیل کو دارالحکومت اسلام آباد میں نامعلوم افراد نے اغوا کرنے کے بعد کئی گھنٹے تک تشدد کا نشانہ بنایا۔
جس کے بعد پاکستان کے دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں افغان سفیر کی بیٹی پر اسلام آباد میں تشدد کی تصدیق کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ اس پریشان کن واقعے کی اطلاع کے فوری بعد اسلام آباد پولیس نے تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ سفیر اور ان کے اہل خانہ کی سیکیورٹی کو بہتر بنا دیا گیا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے اور گرفتاری کی کوشش کر رہے ہیں۔
بعدازاں وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے بھی معاملے پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان نے انہیں ہدایت کی ہے کہ افغان سفیر کی بیٹی کے اغوا میں ملوث افراد کو پکڑنے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ وزیر اعظم نے انہیں یہ بھی کہا کہ اسلام آباد پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کو ترجیحی بنیادوں پر حقائق منظر عام پر لانے اور 48 گھنٹوں کے اندر ملزموں کو گرفتار کرنے کی ہدایت کی جائے۔