ایک اندازے کے مطابق ہر 10 میں سے ایک یا 3 میں سے ایک مریض کو کووڈ 19 کو شکست دینے کے بعد لانگ کووڈ کا سامنا ہوتا ہے۔
تاہم اب پہلی بار طبی ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ کووڈ کے کن مریضوں میں کووڈ کی طویل المعیاد علامات کا خطرہ زیادہ ہوسکتا ہے۔
درحقیقت جن افراد کو کو کووڈ 19 کا شکار ہونے کے بعد پہلے ہفتے کے دوران 5 سے زیادہ علامات کا سامنا ہوتا ہےن، ان میں لانگ کووڈ کا خطرہ بھی بہت زیادہ ہوتا ہے، چاہے عمر یا جنس جو بھی ہو۔
یہ بات برطانیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں دریافت کی گئی۔
برمنگھم یونیورسٹی کی اس تحقیق میں لانگ کووڈ کی علامات کی موجودگی، پیچیدگیوں اور روک تھام کے حوالے سے اب تک ہونے والی تحقیقاتی رپورٹس کا تجزیہ کیا گیا۔
تحقیق میں لانگ کووڈ کی علامات کی 2 اقسام کی شناخت کی گئی جن میں سے ایک تھکاوٹ، سردرد اور بالائی نظام تنفس کی شکایات اور دوسری بخار اور ہاضمے سے متعلق علامات پر مشتمل تھی۔
محققین نے بتایا کہ ایسے شواہد موجود ہیں جن سے عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ کی ابتدائی شدت بعد میں معیارزندگی پر اثرانداز ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ لانگ کووڈ کے شکار افراد کو ایسا لگتا ہے کہ انہیں فراموش کردیا گیا ہے جبکہ انہیں طبی سہولیات بھی زیادہ میسر نہیں ہوتیں۔
تحقیقاتی رپورٹس کے تجزیے میں دریافت ہوا کہ ایک تہائی سے زیادہ افراد نے ابتدائی بیماری کے 8 ہفتوں سے زیادہ عرصے بعد بھی بیماری کے احساس یا بدترین حالت کو رپورٹ کیا۔
محققین کے مطابقلانگ کووڈ کے حیاتیاتی یا مدافعتی میکنزمز نہیں اور یہ بھی معلوم نہیں کہ مخصوص افراد میں ان علامات کے اثرات کا خطرہ کیوں ہوتا ہے، اسی وجہ سے علاج بھی محدود ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ضروری ہے کہ ان مسائل کی روک تھام کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ دیگر کورونا وائرسز جیسے سارس اور مرس کی وبا کے دوران بھی ہسپتال سے ڈسچارج ہونے کے 6 مہینوں کے بعد بھی لگ بھگ 25 فیصد مریضوں کو طویل المعیاد علامات کا سامنا ہوا تھا۔