پلاننگ کمیشن نے نیشنل لاجسٹک سیل سے اپنے ہاتھ اٹھا لیے
اسلام آباد: پلاننگ کمیشن نے نیشنل لاجسٹک سیل (این ایل سی) کو 'لگام ڈالنے' کے لیے اپنی کمزوری کا اظہار کرتے ہوئے تجویز دی ہے کہ کابینہ ڈویژن اسے وزارت مواصلات کے ماتحت کردے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سیکریٹری پلاننگ کمیشن حامد یعقوب شیخ نے حال ہی میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کو بتایا کہ این ایل سی ان کی وزارت کے کنٹرول سے باہر ہے اور 'وہ محکمہ جاتی اکاؤنٹس کمیٹی (ڈی اے سی) کے اجلاسوں میں آڈٹ سے متعلق پیراز فراہم نہیں کرتے'۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے کہا کہ ڈی اے سی کے اجلاس میں تقریباً تمام آڈٹ پیراز کو چھوڑ دیا گیا اور این ایل سی، اس کے آڈیٹر اور پلاننگ کمیشن کے سیکریٹری کو محکمہ جاتی اکاؤنٹس کمیٹی کے آئندہ اجلاس میں اس کا جائزہ لینے کی ہدایت کی۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور میٹرو ٹرین، پلاننگ کمیشن کے اعتراضات
سیکریٹری یعقوب شیخ کا نقطہ نظر یہ تھا کہ چونکہ پلاننگ کمیشن کی نیشنل لاجسٹک سیل سے کوئی مطابقت نہیں ہے اس لیے اسے وزارت مواصلات سے منسلک شعبہ ہونا چاہیے۔
ان کے مطابق پلاننگ کمیشن نے اس سلسلے میں وزارت دفاع سے رابطہ کیا ہے۔
یعقوب شیخ کا کہنا تھا کہ اربوں روپے کی مالی بے ضابطگیوں کے بارے میں بتانے والے آڈٹ پیراز پر این ایل سی انتظامیہ اپنے مؤقف کی وضاحت کرنے میں ناکام رہی۔
آڈیٹرز کے مطابق این ایل سی نے کبھی پروکیورمنٹ (خریداری) کے اصولوں پر عمل نہیں کیا اور نہ ہی عوامی پیسے کا تحفظ کیا۔
اس پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین رانا تنویر نے کہا کہ پروکیورمنٹ قواعد میں ترمیم کی جانی چاہیے تھی تاکہ مسلح افواج کے تجارتی ادارے 'مشکل علاقوں' میں بغیر کسی مقابلے کے منصوبے شروع کر سکیں۔
مزید پڑھیں: پلاننگ کمیشن نے فنڈز کے اجرا کی رفتار تیز کردی
آڈیٹرز نے نشاندہی کہ نیشنل لاجسٹک سیل نے ایک ارب 7 کروڑ روپے کی لاگت سے سرجانی ٹاؤن سے صدر تک کے گرین لائن بس ریپڈٹ ٹرانزٹ سسٹم پر کام کرنے کے لیے کراچی انفرا اسٹرکچر ڈیولپمنٹ کمپنی سے معاہدہ کیا تھا۔
آڈٹ پیراز کے مطابق این ایل سی نے بغیر کسی اخبار میں پبلک نوٹس چھپوائے صرف کوٹیشن کی بنیاد پر 96 کروڑ 90 لاکھ روپے کی لاگت پر عمودی نقل و حرکت-ایسکلیٹر کا کام ایم ایس ونڈ روز کنسلٹنسی کو دے دیا۔
آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا کہ 'انتظامیہ نے شفافیت پر سمجھوتہ کرتے ہوئے متوقع بولی دہندگان کو بولی کے عمل میں شرکت کا موقع نہ دے کر مسابقتی قیمت کا فائدہ اٹھانے اور دیگر کو منصفانہ موقع دینے سے محروم رکھا۔
ایک دوسرے آڈٹ پیرا میں آڈیٹر جنرل نے کہا کہ این ایل سی نے متعدد ذیلی ٹھیکیداروں کو 17 کروڑ 80 لاکھ روپے کی اضافی ادائیگی کی۔
یہ بھی پڑھیں: پبلک اکاؤنٹس کمیٹی، ٹھیکیداروں کے سامنے 'بے بس'
ادارے کے چیف مالی افسر نے پی اے سی کو بتایا کہ ان آڈٹ پیراز پر انکوائری کی گئی اور 2 عہدیداروں چوہدری فضل تارڑ اور لیفٹیننٹ جنرل بشیر یٰسین کو ان کی ملازمت سے برطرف کردیا گیا۔
تاہم کمرشل آڈٹ کے ڈائریکٹر جنرل نے کمیٹی کو بتایا کہ این ایل سی نے یہ معلومات انہیں ڈی اے سی کے اجلاس میں نہیں بتائیں۔
این ایل سی کے ایک عہدیدار نے کہا کہ آڈیٹرز نے یہ پیرا ایک خفیہ دستاویز پر بنائے، ساتھ ہی اسے رازداری کی خلاف ورزی قرار دیا۔
آڈیٹرز نے نشاندہی کی کہ این ایل سی نے ایک نجی کمپنی کو 'غیر ضروری فوائد' پہنچائے اور کمپنی کی تعمیراتی کاروبار میں کوئی مہارت نہ ہونے کے باوجود اسے 12 کروڑ روپے مالیت کے منصوبے کا ٹھیکا دیا۔
مزید پڑھیں: اربوں روپے کی بے ضابطگیوں کے 116 آڈٹ اعتراضات 'پی اے سی' کی منظوری کے بغیر کلیئر
این ایل سی نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ منصوبہ ایک مشکل علاقے میں تھا جہاں ایک جونیئر کمیشنڈ افسر شہید بھی ہوا۔
این ایل سی عہدیدار کے مطابق چونکہ بڑی نجی کمپنیاں اس علاقے میں منصوبہ تعمیر کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہی تھیں اس لیے اسے ناتجربہ کار کمپنی کو دیا گیا۔
پی اے سی چیئرمین نے پاک ۔ چین اقتصادی راہداری (سی پیک) سے متعلق پیرا سمیت ایک جیسے آڈٹ پیراز پر بحث کو ملتوی کردیا اور کہا کہ وہ متعقلہ حکام کو قواعد میں ترمیم کا کہیں گے تاکہ این ایل سی اور اس جیسے ادارے بغیر کسی خدشے کے منصوبوں پر عملدرآمد کر سکیں۔