لاہور یونیورسٹی ’پرپوزل’ کی ویڈیو وائرل ہونے کے 4 ماہ بعد طالب علم کا بیان سامنے آگیا
یونیورسٹی آف لاہور (یو او ایل) کی حدود میں دیگر طلبہ کے سامنے طالب علم اور ساتھی طالبہ کی پروپوز کرنے کی ویڈیو انٹرنیٹ پر وائرل ہونے کے 4 ماہ بعد اس ویڈیو میں موجود طالب علم شہریار نے کہا ہے کہ انہیں بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ ویڈیو وائرل ہوجائے گی اور اس حد تک تنقید کا سامنا کرنے پڑے گا۔
خیال رہے کہ رواں برس 12 مارچ کو یونیورسٹی آف لاہور نےجامعہ کی حدود میں دیگر طلبہ کے سامنے طالب علم اور ساتھی طالبہ کی ایک دوسرے کو پروپوز کرنے کی ویڈیو انٹرنیٹ پر وائرل ہونے کے بعد دونوں کو یونیورسٹی سے بے دخل کردیا تھا۔
معاملہ کچھ یوں تھا کہ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں دیگر طلبہ کی موجودگی میں ایک طالبہ کو فلمی انداز میں لڑکے کو پھول پیش کرتے ہوئے، طالب علم سے محبت کا اظہار کرتے اور پھر دونوں کو گلے ملتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: یونیورسٹی آف لاہور نے 'پروپوز' کرنے کی ویڈیو وائرل ہونے پر طلبہ کو نکال دیا
اس موقع پر موجود دیگر طلبہ کی جانب سے شور بھی کیا گیا تھا جو ویڈیو میں واضح ہے، تاہم یہ ویڈیو دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی اور سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے اس ویڈیو پر منقسم رائے کا اظہار کیا گیا تھا۔
بعدازاں وفاقی وزیر فواد چوہدری، معاون خصوصی برائے سیاسی روابط ڈاکٹر شہباز گِل، پاکستان پیپلزپارٹی کی رہنما شرمیلا فاروقی اور بختاور بھٹو سمیت مختلف سیاسی شخصیات نے طلبہ کو یونیورسٹی سے نکالنے کی مخالفت بھی کی تھی۔
مذکورہ واقعے کو 4 ماہ کا عرصہ گزرنے کے بعد یوٹیوب چینل پاک ڈاٹ ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں شہریار رانا نے کہا کہ شہریار نے کہا کہ اس دن جو ویڈیو وائرل ہوئی یہ سب میرے لیے سرپرائز تھا اور مجھے بتایا گیا تھا کہ برتھ ڈے پارٹی ہے تو میں جب وہاں گیا تو مجھے پرپوز کیا گیا، مجھے کافی خوشی ہوئی اور ویڈیوز دیکھ کر مجھے بھی ایسا ہی لگا کہ جیسے کوئی فلمی سین ہے لیکن اس کے بعد جو ہوا وہ آپ کے سامنے ہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب میں نے یونیورسٹی کے گروپ پر اپنی ویڈیوز دیکھیں، اس پر جو میمز اور ٹک ٹاک بنیں مجھے تو یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ یہ میں ہوں۔
ویڈیو وائرل ہونے کے بعد گھروالوں اور رشتہ داروں کو جواب دینے سے متعلق انہوں نے کہا کہ اس کے بعد سب کچھ بہت مشکل سے ہینڈل کیا، وہ ایک بہت مشکل وقت تھا۔
شہریار نے کہا کہ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ میرا تعلق ایک پسماندہ علاقے سے ہے، سرگودھا کے ساتھ میرا علاقہ کوٹ مومن واقع ہے اور میرے والدین یا اہلخانہ کو میڈیا کے بارے میں زیادہ معلوم نہیں ہے اور جب اس معاملے پر شدید تنقید کی گئی تو وہ بہت پریشان ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ میرے والدہ نے وہ ویڈیو دیکھی تھی جو اس واقعے پر بنائی گئی تھی کہ ’یہ ہم ہیں، یہ ہماری یونیورسٹی ہے اور یہ ہمیں نکالا جارہا ہے‘، انہوں نے پہلے پرپوزل والی ویڈیو نہیں دیکھی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: طلبہ کو نکالنے کا معاملہ: یونیورسٹی انتظامیہ اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے، فواد چوہدری
شہریار نے کہا کہ میرے والدین پریشان تھے کہ اس کا کیریئر خراب ہورہا ہے، اب یہ کیسے آگے داخلہ لے کر ڈگری پوری کرے گا، کر بھی پائے گا یا نہیں یا لوگ اتنی تنقید اور نفرت کا اظہار کررہے ہیں تو کہیں کچھ ہو نا جائے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ میرے والدین بہت زیادہ دباؤ کا شکار تھے اور جب وہ پریشرائزڈ تھے تو ظاہر سی بات ہے میں نے بھی دباؤ کا شکار ہونا تھا، وہ بہت مشکل وقت تھا الحمداللہ اب وہ وقت گزرچکا ہے۔
یونیورسٹی سے نکالے جانے سے متعلق شہریار نے کہا کہ وہ ویڈیو جتنی زیادہ وائرل ہوگئی تھی تو ایسے میں کوئی بھی یونیورسٹی ہوتی تو وہ یہی کارروائی کرتی جو اس وقت کی گئی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ یونیورسٹی نے اپنا فرض ادا کیا تھا اور ہمیں دفتر بلایا تھا، اب ویڈیو وائرل ہونے کے بعد صورتحال کچھ ایسی تھی کہ میں وہاں نہیں جاسکا اور واپس گھر چلا گیا، 4 سے 5 بجے تک میرا انتظار کیا گیا تھا مگر جب ہم نہیں گئے تو یونیورسٹی کو مجبوراً یہ فیصلہ کرنا پڑا تھا۔
شہریار نے مزید کہا کہ میں یونیورسٹی انتظامیہ کا مشکور ہوں کہ اسی معاملے پر دوبارہ ایک کمیٹی بیٹھی تھی، انہوں نے معاملے پر نظرثانی کرکے مجھے یونیورسٹی آنے اور اپنی تعلیم جاری رکھنے کی اجازت دی کیونکہ کچھ لوگوں کی جانب سے کہا گیا تھا کہ ہمیں یونیورسٹی سے نہیں نکالنا چاہیے تھا۔
مذکورہ معاملے پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہماری جو جنریشن ہے ان کے دل میں کوئی بھی بات آتی ہے چاہے وہ اچھی ہو یا بری وہ کرجاتے ہیں، یہ آزاد خیالی ہے، اگر ہم یہی چیز چھپ کر کرتے تو ٹھیک تھا اب سب کے سامنے کرلیا تو ہم برے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ لوگوں کی ذہنیت کا کچھ کہہ نہیں سکتے پل میں تولہ پل میں ماشہ ہوتی ہے، لوگوں نے جس نفرت کا اظہار کیا اس سے ہمیں بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور لڑکی کے لیے ہمارا معاشرہ ویسے ہی بہت سخت ہے، انہیں بخشا ہی نہیں جاتا لڑکے کے لیے تو کہہ دیا جاتا ہے کہ بیٹا خیر ہے۔
وائرل ویڈیو میں موجود لڑکی سے شادی کی خبروں پر شہریار نے کہا کہ میں موبائل دیکھ رہا تھا تو میرے سامنے میری شادی کی خبر آئی میں خود بھی بہت حیران ہوا کہ میری شادی ہوگئی اور مجھے معلوم ہی نہیں۔
شادی سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ میں نے غلطی کی کہ گھروالوں سے پوچھے بغیر پرپوزل قبول کیا اور وہ پوری دنیا میں وائرل ہوگیا۔
مزید پڑھیں: یونیورسٹی آف لاہور نے 'پروپوز' کرنے پر طلبہ کو جامعہ سے بے دخل کر دیا
انہوں نے کہا کہ مجھے بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ یہ وائرل ہوجائے گا، آپ کو بھی پتا ہے کہ لاہور میں کتنے پرپوزل سینز ہوتے ہیں، یونیورسٹیز میں کتنے ہوتے ہیں مگر جب یونیورسٹی گروپ میں ویڈیو آئی تب بھی میرے ذہن میں یہی تھا کہ ویڈیو گروپ میں ہی رہے گی باہر نہیں جائے گی۔
شہریار نے کہا کہ اس پرپوزل ویڈیو کو جب عورت مارچ سے جوڑا گیا تو پھر ہمیں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا جبکہ اس ویڈیو کو اس سے نہیں جوڑنا چاہیے تھا۔
انہوں نے کہا کہ اب گھر والے کہتے ہیں کہ ڈگری مکمل کرو، کیریئر بناؤ اس کے بعد جو دل کرے کرو، میری تعلیم مکمل ہونے میں 2 سال رہتے ہیں اس کے بعد ہی شادی ہونی ہوگی تو ہوگی۔
انٹرویو کے اختتام پر پیغام دیتے ہوئے شہریار نے کہا کہ میں یہی کہوں گا کہ عوامی سطح پر پرپوز نہ کریں کیونکہ لوگ اسے کوئی اور رخ دے دیتے ہیں۔