پاکستان

افغانستان میں ہر گروپ سے ہمارا رابطہ ہے، مشیر قومی سلامتی

افغانستان میں سیاسی استحکام نہیں ہوا تو خانہ جنگی اور خطے میں بدامنی پھیلنے کا خطرہ ہے، معید یوسف

وزیراعظم کے مشیر قومی سلامتی معید یوسف نے کہا ہے کہ ہمارا افغانستان کے ہر گروپ سے رابطہ اور بات چیت ہورہی ہے جبکہ ہماری معیشت مزید افغان مہاجرین کو نہیں سنبھال سکتی۔

سرکاری خبرایجنسی اے پی پی کی رپورٹ کے مطابق مشیرقومی سلامتی معید یوسف نے نجی ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ افغانستان میں امن اور سیاسی استحکام افغانستان اور خطے کے مفاد میں ہے، اگر افغانستان میں سیاسی استحکام نہیں ہوا تو اس سے خانہ جنگی اور خطے میں بدامنی پھیلنے کا خطرہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں:لاہور بم دھماکے کا ماسٹر مائنڈ بھارتی شہری، تعلق 'را' سے ہے، معید یوسف

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان آخری دن تک کوششیں کرتا رہے گا کہ افغان حکومت، طالبان اور باقی سیاسی قوتیں آپس میں مل بیٹھ کر کسی نہ کسی طریقے سے معاملات طے کریں۔

انہوں نے کہا کہ دنیا پاکستان کو فری فار آل نہ سمجھے، ہماری معاشی صورت حال ایسی نہیں ہے کہ مزید افغان مہاجرین کو سنبھال سکے، اس وقت ضروری ہے کہ دنیا اپنی پوزیشن لے۔

معید یوسف کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان کا افغان مسئلے پر تسلسل کے ساتھ مؤقف رہا ہے کہ اس مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں، اب دنیا بھی اس نکتے پر آ گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سیاسی استحکام میں افغانستان کا فائدہ ہے اور خطے میں امن رہے گا، اگر خانہ جنگی ہوئی تو معاملات مزید خرابی کی طرف جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں سیاسی حل کے لیے صرف زبانی نہیں بلکہ عملی طور پر کام کر رہا ہے۔

معید یوسف نے کہا کہ ہمارا افغانستان کے ہر گروپ کے ساتھ رابطہ ہے اور بات چیت ہو رہی ہے، اگر پاکستان کردار ادا نہ کرتا تو کبھی بھی دوحہ مذاکرات کا سلسلہ نہیں چل سکتا تھا۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا سے خلا پیدا ہو رہا ہے، سیاسی مفاہمت سے ہی وہ خلا پر ہونا ہے ورنہ معاملات بہت خراب ہوں گے۔

مشیر قومی سلامتی نے کہا کہ پاکستان نے افغانستان میں امن و استحکام کے لیے جتنی کوشش کی اس کی مثال نہیں ملتی لیکن اس کے باوجود افغان حکام کی طرف پاکستان کے خلاف بیانات بدقسمتی ہے۔

مزید پڑھیں: افغانستان میں امن پاکستان، چین کے ساتھ قریبی تعلقات سے منسلک ہے، وزیر خارجہ

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے لیے افغانستان میں کوئی فیورٹ نہیں، ہماری پالیسی واضح ہے کہ افغانستان میں کسی نہ کسی طریقے سے سیاسی حل نکلے، چاہتے ہیں کہ امریکا مکمل انخلا سے قبل افغانستان میں امن عمل کو آگے بڑھانے کے لیے ذمہ دارانہ کردار ادا کرے ورنہ وہاں پر 90 کی تاریخ دہرائے جانے کا خدشہ ہے۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ امریکا کہتا ہے افغانستان کی معاشی امداد کرتے رہیں گے۔

معید یوسف کا کہنا تھا کہ امریکی فوج کے انخلا کے بعد اس وقت افغانستان میں طالبان کا اثر ورسوخ بڑھتا جا رہا ہے، کئی علاقوں میں جرگے کے ذریعے معاملات طے کیے جا رہے ہیں اور زیادہ تر افغان فوجی ہتھیار ڈال رہے ہیں۔

انہوں نے ایک اور سوال پر کہا کہ دنیا پاکستان کو فری فار آل نہ سمجھے، ہماری معاشی صورت حال اس وقت ایسی نہیں ہے کہ مزید افغان مہاجرین کو سنبھال سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ مہاجرین کو افغانستان میں رکھنے کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے ایچ سی آر سے بات کر رہے ہیں، اس وقت ضروری ہے کہ دنیا اپنی پوزیشن لے۔

مشیر قومی سلامتی نے کہا کہ افغان مسئلے پر خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ مل کر بہت سی چیزیں کرنی ہیں اور ہم سب کے ساتھ رابطے میں ہیں، اگر افغانستان میں بدامنی ہوئی تو اس صورت میں پاکستان اپنی سرزمین کے دفاع کے لیے پوری طرح سے تیار ہے۔

سابق صدر ممنون حسین کراچی میں انتقال کر گئے

ایک چوتھائی کووڈ مریضوں کو طویل المعیاد علامات کا سامنا ہوسکتا ہے، تحقیق

پاکستان سے ٹی20 کیلئے تجربہ کار انگلش اسکواڈ کا اعلان