پاکستان

سینیٹ: علی امین گنڈا پور کے بیان پر اپوزیشن کا شدید احتجاج

وفاقی وزیر نے انتخابی جلسے میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو غدار جبکہ نوازشریف کو ڈاکو قرار دیا تھا۔
|

سینیٹ اجلاس میں اپوزیشن اراکین نے وفاقی وزیر علی امین گنڈا پور کی جانب سے سابق وزرائے اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف کے حوالے سے نامناسب بیان پر شدید احتجاج کیا گیا۔

خیال رہے کہ وفاقی وزیر نے آزاد کشمیر میں انتخابات کے پیش نظر ہونے والے جلسے میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو غدار جبکہ نوازشریف کو ڈاکو قرار دیا تھا۔

چنانچہ آج سینیٹ کے اجلاس میں اپوزیشن اراکین کی جانب سے احتجاج کرتے ہوئے ایوان میں نعرے بازی کی گئی اور چیئرمین کے ڈائس کا گھیراؤ کیا گیا۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا کہ جس وزیر پر مقدمہ درج ہے وہ آزاد کشمیر میں جا کر ماحول آلودہ کر رہے ہیں، یہ ہوتے کون ہیں غداری کا سرٹیفکٹ دینے والے، یہ بات بالکل قابل قبول نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں:قومی اسمبلی اجلاس میں اپوزیشن کا شدید احتجاج

ان کا مزید کہنا تھا کہ جس شخص نے ملک کو ایٹمی پروگرام دیا، 90 ہزار سپاہیوں کو واپس لایا، اس ملک کو یہاں تک پہنچایا اس کو غدار کہا جا رہا ہے، گندی زبان والے وزیر آزاد کشمیر پہنچے ہیں۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ علی امین گنڈا پور نے ذالفقار علی بھٹو اور سابق وزیراعظم نواز شریف اور مریم نواز کے بارے میں جو زبان استعمال کی، ایسا لگ رہا ہے کہ زندانوں سے آوازیں بلند کررہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر انہیں یہ نہ کہا جائے کہ ووٹ چور ہیں تو کیا کہا جائے، ان کا اپنا رویہ دیکھ لیں، ایسے نظام کا حصہ بننے کو ہم شرمناک سمجھتے ہیں۔

اجلاس کے دوران سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے احتجاجاً نعرے لگائے تاہم چیئرمین نے انہیں منع کیا جس پر انہوں نے معذرت کرلی۔

سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے ایسے محسن ہیں جن کی عقل و دانش کی وجہ سے ملک آج یہاں کھڑا ہے اور اگر آج پاکستان جوہری ہتھیار پر اترا رہا ہے تو اسے وہی معرض وجود میں لائے۔

ان کا کہنا تھا کہ آج اگر پاکستان بھارت کو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ سکتا ہے تو اس کے لیے ذوالفقار بھٹو نے پھانسی کے پھندے کو چوما تھا۔

مزید پڑھیں:حکومتی اراکین کے الزامات پر اپوزیشن کا احتجاج، آئینی ترمیم پر آج بھی بحث نہ ہوسکی

ان کا کہنا کہ آج اگر پوری اسلامی دنیا میں پاکستان کے پاس جوہری ہتھیار ہیں تو وہ ذوالفقار علی بھٹو کی وجہ سے ہے، جس شخص نے ہندوستان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا کہ ہم ہزار سال لڑیں گے، گھاس کھائیں گے لیکن ایٹمی پروگرام کے لیے سمجھوتا کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں آج اس شخص کے لیے ایسے الفاظ استعمال کیے جارہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اسلام آباد سے یا راولپنڈی سے محب الوطنی کا سرٹیفکیٹ لینے کی ضرورت نہیں، ہمارا سرٹیفکیٹ ہماری جدو جہد ہے، امریکی سامراج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا ہمارا حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ شخص جو شہد پیتا ہے وہ ذوالفقار علی بھٹو کو یہ لقب اس لیے دے رہا ہے کہ وہ 90 ہزار قیدیوں کو واپس لائے، کیا یہ لقب اس لیے دیا جا رہا ہے کہ اس نے اس ملک کی زمین کو بھارت سے واپس لیا اور اس نے پاکستان کو پاکستانی ہونے کی شناخت کروائی؟

سابق چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ سیاست ہوتی ہے لیکن ایسے کچھ رہنما ہوتے ہیں جو اپنے طرزِ عمل سے ثابت کرتے ہیں اور اپنی جانیں دے دیتے ہیں لیکن اصولوں پر سودا نہیں کرتے، امریکی سامراج کے ساتھ بھٹو سمجھوتا کر سکتا تھا لیکن نہیں کیا۔

وہ شخص جس نے فلسطین کے لیے پاکستانی فضائیہ کی خدمات فراہم کی اس شخص کے لیے آپ یہ الفاظ استعمال کریں گے۔

جس نے لاہور میں تمام مسلمان ممالک کے سربراہان کو اکٹھا کیا اور کہا کہ پاکستان کی فوج پورے عالم اسلام کی فوج ہے کیا اس لیے آپ سے غدار کے لقب سے یاد کریں گے؟

یہ بھی پڑھیں:پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ایف اے ٹی ایف سے متعلق تین بل منظور، اپوزیشن کا احتجاج

رضا ربانی کا کہنا تھا کہ اگر اسی طرح کی سیاست ہوگی، اسی طرح کی گفتگو ہوگی تو یہاں پر کوئی محفوظ نہیں رہے گا، اگر ایسی سیاست کریں گے کہ سابق وزرائے اعظم کو چوروں اور ڈاکوں سے یاد کریں گے تو ہماری زبان بھی کھلے گی اور مناسب نہیں ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ یہ جس طرز کی سیاست کی جانب ہم جارہے ہیں، جس میں ایک دوسرے کی عزت اور پگڑی کو اچھالنا ہے یہ تباہی کی جانب لے کر جائے گی۔

سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ پاکستان میں ایسے واقعات ہوتے ہیں جس کہ وجہ سے ہمیں عزیز ہم وطنوں سننا پڑتا ہے،کیا آج ہم اسی روش پر ایک بار پھر تو نہیں نکل رہے۔

انہوں نے کہا کہ ان کا تو کچھ نہیں یہ تو ملک چھوڑ کر چلے جائیں گے، لاہور قلعہ اور اٹک قلعہ ہمارے نصیب میں ہوگا، پھانسی کے پھندے ہمارے نصیب میں ہوں گے۔

یہاں کوئی دودھ کا دھلا نہیں، شہزاد وسیم

بعدازاں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے قائد ایوان ڈاکٹر شہزاد وسیم نے ایوان میں بات کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن جلسوں میں کی گئی بات پر یہاں بات کی گئی جبکہ آپ ویڈیو کلپس نکال کر دیکھ لیں ان کی پارٹیز کے ٹاپ لیڈرز بھی یہی باتیں کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جو زبان ان کی قیادت نے آزاد کشمیر جلسوں میں استعمال کی کی اس پر انہیں معافی مانگنی چاہیے ۔

شہزاد وسیم کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بڑے تلخ واقعات ہوئے ہیں ،اس ایوان میں وہ جماعتیں بیٹھی ہیں جنھوں نے محسن پاکستان قائد اعظم کو کافر پاکستان کہا تھا ، وہ ایوان میں کھڑے ہو کر معافی مانگیں ۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس ملک کے 1970 میں دو ٹکرے ہوئے، تب کہا گیا کہ جو وہاں جائے گا اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی، کیا اس ملک میں دلائی کیمپ نہیں بنے، کیا یہ ملک کی حقیقت نہیں ۔

اپوزیشن کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ کہتے ہیں ہمارا جینا مرنا یہیں ہے آج ایک امریکا میں بینچ پر بیٹھے ہوئے تصویر چھپی ہے، ایک دوائی لینے گیا تھا اور واپس نہیں آیا، یہاں کوئی دودھ کا دھلا نہیں۔

حکومت کا معذور افراد کو کرایوں میں 50 فیصد رعایت دینے کا فیصلہ

وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے سینیٹ میں آگاہ کیا کہ حکومت نے معذور افراد کو ہوائی سفراور ریلوے کے ٹکٹس میں 50 فیصد رعایت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر معذور افراد کے کارڈ پر وہیل چیئر کا نشان ہے تو اسے رعایت ملے گی، بعض معذور افراد جلد اپنا عام والا کارڈ بنوا لیتے ہیں تاہم سہولت فراہم کرنے کے لیے معذور افراد کا ڈیٹا اکٹھا کیا جا رہا ہے۔

ملالہ کی تصویر ہٹا کر نئی نسل کو کیا پیغام دے رہے ہیں، شیری رحمٰن

سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا کہ ملالہ یوسف زئی کو گولی لگی، انھوں نے انتہا پسندوں کا مقابلہ کیا، خبر آئی ہے کہ پنجاب ٹیکسٹ بورڈ نے وہ کتاب بین کر دی ہے جس میں ملالہ یوسف زئی کی تصویر ہے وہ ہیروز میں شمار کیوں کی گئی ہے، ایسے ہی محترمہ بے نظیر کی تصویر بھی ہٹائی گئی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ آپ نئی نسل کو کیا پیغام دے رہے ہیں؟ ایک طرف اپ کہتے ہیں ہم پروگریسو سوسائٹی ہیں دوسری جانب کیا پیغام دیا جارہا ہے کہ آپ انتہا پسندی سے نہ لڑیں۔

انہوں نے کہا کہ جن ہیروز کو ہماری دنیا سراہ رہی ہے، پاکستان کا ٹیکسٹ بورڈ کہتا ہے کہ وہ ہیرو نہیں ہے ،اپ اسامہ بن لادن کو شہید کہتے ہیں،دہشت گردوں کو سر کا تاج بنا رہے ہیں ،اپ ملالہ اور بے بظیر جیسی خواتین کو اپنا ہیرو نہیں سمجھیں گے تو اللہ آپ کا حافظ ہے۔

جس پر جواب دیتے ہوئے سینیٹر اعجاز چوہدری نے بتایا کہ ملالہ کی تصویر کی کتاب آکسفورڈ نے چھاپی ہے، کتاب کا پنجاب بک بورڈ سے کوئی تعلق نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کتاب کی اشاعت کے لیے کسی سے این او سی نہیں لیا گیا، حکومت پنجاب کی اس معاملے میں کوئی ذمہ داری نہیں، ملالہ یوسفزئی پر زیادہ بات نہیں کرنا چاہتا، ملالہ کے حالیہ خیالات جو سامنے آئے وہ لوگوں کے لیے سوال کا سبب ہیں۔

خواتین کی املاک کے حقوق کے تحفظ کا بل منظور

علاوہ ازیں آج کے اجلاس میں سینیٹ نے خواتین کی املاک کے حقوق کے تحفظ کا بل(ترمیمی) 2021 بھی منظور کیا۔

مذکورہ بل وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی شبلی فراز نے وزیر قانون کی جانب سے پیش کیا تھا جسے ایوان نے متفقہ طور پر منظور کرلیا۔

’بد سلوکی‘ کا نشانہ بننے والی نادیہ حسین کی مبینہ ملازمہ سامنے آگئیں

کیسز میں اضافہ: سندھ میں انڈور ڈائننگ، اسکولز، تفریحی پارکس بند کرنے کا فیصلہ

طالبان کا چمن سے ملحقہ افغان سرحد پر قبضہ کرنے کا دعویٰ