'پی ٹی آئی نے 2 ارب 20 کروڑ روپے کی غیر قانونی فنڈنگ وصول کی'
اسلام آباد: فارن فنڈنگ کیس میں درخواست گزار اکبر ایس بابر نے دعویٰ کیا ہے کہ حقائق تلاش کرنے والی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو سال 2009 سے 2013 کے درمیان 2 ارب 20 کروڑ روپے کی غیر قانونی فنڈنگ موصول ہوئی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق میڈیا بریفنگ میں رپورٹ پیش کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے منحرف بانی رکن کا کہنا تھا کہ یہ تو محض معمولی سا حصہ ہے کیوں کہ پی ٹی آئی کے 4 ملازمین کے نام پر کھولے گئے اکاؤنٹس کے علاوہ ملک سے باہر پارٹی کے اکاؤنٹس کی تفصیلات نہیں فراہم کی گئیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر مکمل تحقیقات کی جائیں تو پارٹی کو موصول ہونے والی ممنوعہ فنڈنگ سامنے آجائے گی۔
قبل ازیں اکبر ایس بابر نے اپنی قانونی ٹیم کے ہمراہ مذکورہ رپورٹ الیکشن کمیشن پاکستان کے حوالے کی۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی کے مزید غیر اعلانیہ بینک اکاؤنٹس کا انکشاف
یہ رپورٹ الیکشن کمیشن کے 14 اپریل کے فیصلے کی بنیاد پر پی ٹی آئی کی جانب سے ای سی پی میں جمع کروائے گئے ریکارڈ کے جائزے پر مشتمل ہے، پی ٹی آئی کے ریکارڈ کا جائزہ مالیاتی ماہر ارسلان وردگ اور محمد صہیب نے لیا تھا۔
رپورٹ میں پی ٹی آئی کے ریکارڈ کی صداقت پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا گیا کہ جائزے کے لیے فراہم کردہ تمام دستاویزات غیر مصدقہ، غیر دستخط شدہ اور دستاویز غیر مہر شدہ تھیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ دستاویزات نامکمل تھیں اس لیے پی ٹی آئی کے مالی معاملات کی مکمل تصویر پیش نہیں کرتیں۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ الیکشن کمیشن کی اسکروٹنی کمیٹی نے پاکستان اور بیرونِ ملک پی ٹی آئی کے اکاؤنٹس کی بینک اسٹیٹمنٹس طلب کی تھیں، لیکن فراہم نہیں کی گئیں۔
درخواست گزار کی رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی کے رجسٹرڈ یا تسلیم شدہ اداروں/ بین الاقوامی کمپنیوں کی ایک بھی بینک اسٹیٹمنٹ پارٹی نے فراہم نہیں کی۔
مزید پڑھیں: فارن فنڈنگ کیس: پی ٹی آئی کی مالی دستاویزات کا جائزہ مکمل
مزید برآں پی ٹی آئی کے چاروں ملازمین کے ذاتی اکاؤنٹس میں آنے والے فنڈز کی تفصیلات اور ذرائع بھی نہیں بتائے گئے جبکہ دستاویز سے ظاہر ہوتا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اور سیکریٹری جنرل ڈاکٹر عارف علوی نے ملازمین کے اکاؤنٹس میں فنڈنگ کی وصولی کی منظوری دی تھی۔'
رپورٹ میں اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک سے نامعلوم یا ممنوعہ ذرائع سے حاصل کردہ فنڈز کی تفصیلات اور حوالہ جات فراہم کیے گئے ہیں اور کہا گیا کہ پی ٹی آئی نے نہ تو کبھی اپنے تمام بینک اکاؤنٹس ظاہر کیے، نہ ہی اپنے تمام اکاؤنٹس کے اسٹیٹمنٹس فراہم کیں۔
اسکروٹنی کمیٹی نے بینک کی جانب سے فراہم کردہ براہِ راست معلومات پر پی ٹی آئی کے 28 بینک اکاؤنٹس کی فہرست تیار کی تھی، جس میں سے پی ٹی آئی نے متعدد بہانوں پر 5 اکاؤنٹس کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا، 2 بینک اکاؤنٹس کی اسٹیٹمنٹس فراہم نہیں کیں۔
پی ٹی آئی نے 2013 کے آڈٹڈ اکاؤنٹس میں کے اے ایس بی بینک لمیٹڈ، گلبرگ برانچ، لاہور کا ذکر کیا تھا لیکن اس کی اسٹیٹمنٹ جائزے کے لیے فراہم نہیں کی گئی، اس اکاؤنٹ میں 59 کروڑ 88 لاکھ 90 ہزار روپے وصول کیے گئے جبکہ اس اکاؤنٹ سے 8 کروڑ 50 لاکھ روپے ظاہر شدہ بینک اکاؤنٹس میں منتقل کیے گئے۔
یہ بھی پڑھیں: الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کی مالی دستاویزات کے مطالعے کی اجازت دے دی
رپورٹ کے مطابق جائزے کے دوران پی ٹی آئی کے 5 مزید بینک اکاؤنٹس کا انکشاف ہوا جنہیں پارٹی نے ظاہر نہیں کیا تھا اور ان میں ظاہر شدہ اکاؤنٹس سے 16 کروڑ 11 لاکھ روپے منتقل کیے گئے۔
ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ حکمراں جماعت نے الیکشن کمیشن میں اپنے اکاؤنٹس کے سالانہ آڈٹ میں بھی تمام اکاؤنٹس ظاہر نہیں کرے جو قانونی ضرورت ہے۔
دوسری جانب پی ٹی آئی نے رپورٹ مسترد کرتے ہوئے اسے اکبر ایس بابر کے جھوٹ کا پلندہ قرار دیا۔
رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات احمد جاوید کا کہنا تھا کہ پارٹی نے ای سی پی کی اسکروٹنی کمیٹی کو تمام دستاویز فراہم کیں۔