’جی ڈی پی میں ہاؤس فنانسنگ کا حصہ صرف ایک فیصد ہے‘
جنید احمد: ہم 2006ء میں بینک کے قیام سے ہی رہن (مارگیج) کے شعبے میں کام کر رہے ہیں۔ اور ان (2009-2008) سالوں میں بھی ہم اس شعبے میں موجود رہے کہ جب یہ کام بہت محدود ہوگیا تھا۔ ہمارا نجی شعبے کی مالیات کا کل حجم 180 ارب 8 کروڑ روپے ہے اور اس میں ہاؤسنگ فنانس کا حصہ 7.76 فیصد ہے جو کہ تقریباً 14 ارب روپے بنتا ہے۔
کاظم عالم: کم آمدن والے افراد کے لیے حکومت کی کم مارک اپ سبسڈی اسکیم کے حوالے سے ڈی آئی بی کا پورٹ فولیو کتنا ہے؟
جنید احمد: اس اسکیم کے آغاز سے ہمیں ایک ارب 70 کروڑ مالیت کی (کُل 292) درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔ اب تک اس اسکیم کے تحت ہم 9 کروڑ 24 لاکھ روپے تقسیم کرچکے ہیں۔ یہاں رہائشی یونٹ کی دستیابی ایک چیلنج ہے۔ ہمیں ادائیگی سے قبل قانونی دستاویزات، ملکیت اور دیگر دستاویزات کی جانچ پڑتال کرنی ہوتی ہے۔ میرے خیال میں اس ضمن میں پنجاب نے اچھا کام کیا ہے کیونکہ لاہور ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) کی زمین پر سستی رہائشی اسکیموں میں ملکیت بالکل واضح ہے۔ جنوبی حصے میں ایسا نہیں ہے۔ ہم نے سندھ حکومت سے درخواست کی ہے کہ کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (کے ڈی اے) کی زمین کا کچھ حصہ سستے گھروں کے منصوبے کے لیے مختص کردیا جائے۔ ہمارے پاس 8 سے 10 درمیانے درجے کے ڈیویلپر موجود ہیں جنہیں اس بات کی ضمانت دی جاچکی ہے کہ اگر وہ بتائے گئے اصولوں کے مطابق رہائشی منصوبے تعمیر کرنا چاہیں تو ہم صارف کی مالی معاونت کرنے کو تیار ہیں۔ اس طرح انہیں بھی اس بات کا اطمینان ہوگا کہ ان کے رہائشی یونٹ فروخت ہوجائیں گے کیونکہ ڈی آئی بی کے پاس پہلے سے ایسے ممکنہ خریدار موجود ہیں جن کے لیے مالی معاونت کی منظوری بھی دی جاچکی ہے۔
کاظم عالم: ہاؤسنگ فنانس کے معاملے میں اسلامی بینک روایتی بینکوں سے آگے کیسے ہیں؟
جنید احمد: یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ پاکستان میں ہاؤسنگ فنانس کا کل حجم تقریباً 110 ارب روپے ہے جو کہ بہت ہی کم ہے، بلکہ بینکنگ کے شعبے کی کل فنانسنگ جو کہ 18 کھرب روپے کی ہے کہ سامنے تو یہ سمندر میں قطرے کے برابر ہے۔ اس 110 روپے کا بھی 55 فیصد سے زیادہ حصہ اسلامی بینکوں یا پھر روایتی بینکوں کی اسلامک ونڈو کے ذریعے فنانس ہوتا ہے۔ اسلامی بینکوں کے لیے سرمایہ کاری کے مواقع ڈھونڈنا مشکل ہوتا ہے۔ روایتی بینکوں کی طرح ہم پاکستان انویسٹمنٹ بونڈز (پی آئی بیز) میں سرمایہ کاری نہیں کرسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ روایتی بینک ہاوسنگ فنانس کو اپنے پورٹفولیو میں کم ہی شامل کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہاؤسنگ فنانس کا کام کرنے کے لیے بہت زیادہ افرادی قوت درکار ہوتی ہے۔ آپ کو بیک اینڈ اور فرنٹ اینڈ اسٹاف کی ضرورت ہوتی ہے ساتھ ہی آپ کو بڑی بڑی فنانسنگ، پروسیسنگ اور کلکشن ٹیموں کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ اسلامی بینک یہ سب اس وجہ سے کرتے ہیں کہ ان کے پاس سرمایہ کاری کے دیگر مواقع نہیں ہوتے۔
کاظم عالم: کیا آپ رہن کی ہوئی چیز کی ضبطی کے موجودہ قانون اور اس کے نفاذ سے مطمئن ہیں؟
جنید احمد: یہاں عدالتوں میں کئی مقدمات زیر التوا ہیں۔ اگرچہ عدالت عظمیٰ نے فنانشل انسٹیٹیوشنز (ریکوری آف فنانس) آرڈیننس 2001ء کے سیکشن 15 جو کہ رہن کی گئی چیز کی ضبطی سے متعلق ہے میں بینکوں کے حق میں فیصلہ دیا ہے مگر کچھ صارفین نے بینکنگ کورٹ سے اسٹے آرڈر لے رکھا ہے۔ اس وجہ سے بینک صارف کے ڈیفالٹ کرنے باوجود رہن کی گئی جائیداد کو ضبط نہیں کرسکتا۔ یہ ایک بڑا چیلنج ہے۔ اس قسم کے انتظامی مسائل کی وجہ سے ہی ہمارے جی ڈی پی میں ہاؤسنگ فنانس کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہوتا ہے۔
کاظم عالم: کیا ہاوسنگ فنانس کے حوالے سے بینکوں میں نیا جوش قواعد و ضوابط کے دباؤ کا براہ راست نتیجہ ہے اور اگر حکومت سبسڈی مارک اپ اسکیموں کو ختم یا کم کردیتی ہے تو کیا موجودہ رفتار پر ہاؤسنگ فنانس کا سلسلہ جاری رہے گا؟
جنید احمد: میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ بینکوں میں جوش و خروش بڑھ گیا ہے اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان فنانسنگ کے اس شعبے کی مدد کے لیے پالیسیوں اور طریقہ کار کو آسان بنانے کے ذریعے بینکوں کی مسلسل حمایت کررہا ہے۔ دوسری جانب بینکوں کے لیے یہ ایک ایسا شعبہ ہے جو انٹر بینک شرح سے 3 سے 4 فیصد زیادہ فراہم کرتا ہے اور یہ فنانسنگ محفوظ بھی ہے۔ ہم اس شعبے میں 15 سال سے زائد عرصے سے ہیں اس کے باوجود ہمارے نان پر فارمنگ فنانسنگ لونز (این پی ایلز) ہماری کل فنانسنگ کا صرف 4 فیصد ہیں۔ یہ شرح کم اس وجہ سے ہے کہ ہماری ریکوری ٹیم بہت مستعدی سے کام کرتی ہیں۔ میرے نزدیک تو یہ 4 فیصد بھی بہت زیادہ ہے۔ اگر سیکشن 15 کا درست انداز میں نفاذ ہو تو یہ شرح مزید کم ہوجائے گی۔ لوگوں کو معلوم ہوگا کہ اگر انہوں نے قرضہ واپس نہ کیا تو بینک ان کی جائیداد ضبط کرلے گا۔
کاظم عالم: آپ کم مالیت کی ہاؤس فنانسنگ میں ہونے والے اضافے سے نمٹنے کے لیے اپنی صلاحیت کو بڑھانے کے لیے کیا اقدامات کررہے ہیں؟
جنید احمد: ہم جن 68 شہروں میں کام کرتے ہیں وہاں ہم نے صارفین کی ساکھ کو جانچنے کا کام آؤٹ سورس کردیا ہے یوں افرادی قوت کا حصول کوئی مسئلہ نہیں رہا۔ ہمارے پاس ایک بیک اینڈ آفس ہے جو درخواستوں کی منظوری دیتا ہے۔ ہم کئی چیزوں کو پرکھتے ہیں، درخواست گزار کا نام کریڈٹ بیورو اور نیشنل ڈیٹابیس رجسٹریشن اتھارٹی سے گزارتے ہیں۔ آٹومیشن نے اس تمام عمل کو بہت آسان کردیا ہے یہ بات درست ہے کہ گزشتہ کچھ مہینوں میں طلب بڑھنے کی وجہ سے ہم پر دباؤ پڑرہا ہے لیکن ہم سیلز، کریڈٹ ویریفیکیشن، کلکشن اور قانونی یونٹ کے سمیت اس شعبے میں اپنے طویل تجربے کے باعث ہمارے پاس اس سے نمٹنے کی صلاحیت موجود ہے۔
کاظم عالم: آپ کم آمدن والے افراد کے لیے ہاوسنگ فنانس کے لیے کون سی انکم پراکسی استعمال کرتے ہیں؟
جنید احمد: ہم اسٹیٹ بینک کی ہدایت کے مطابق ایکسپینس بیسڈ پراکسی استعمال کرتے ہیں۔ یہ ایک تکنیکی عمل ہے۔ ہم کچھ اخراجات جیسے کہ اسکول کی فیسوں پر کچھ ملٹی پلائر استعمال کرتے ہیں تاکہ درخواست کی آمدن کی سطح کا تعین کرسکیں۔ بینک اس طرح کی کئی پراکسی استعمال کرتا ہے۔ اس وقت ہمارے اکثر درخواست گزار باقاعدہ پے سلپ فراہم کرتے ہیں لیکن جیسے جیسے ہم اپنا دائرہ کا بڑھائیں گے ویسے ویسے درخواست گزاروں کی ساکھ کا تعین کرنے کے لیے مزید پراکسیز استعمال کریں گے۔
کاظم عالم: کیا پاکستان مارگیج ری فنانس کمپنی (پی ایم آر سی) کم شرح پر لکویڈیٹی کے حصول میں مدد کرتی ہے؟
جنید احمد: ہم نے پی ایم آر سی کے ساتھ 3 ارب روپے مالیت کا معاہدہ کیا ہے۔ اس سے ہمیں کم اور متوسط طبقے کے ہاؤسنگ فنانس کے لیے مستقل اور کم شرح پر لکویڈیٹی حاصل ہوجاتی ہے۔
کاظم عالم: کیا نیا پاکستان ہاؤسنگ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی وجہ سے آپ کے ہاؤسنگ پورٹ فولیو میں اضافہ ہوگا؟
جنید احمد: یہ اس وقت ہوگا جب نیا پاکستان ہاؤسنگ ڈیولپمنٹ اتھارٹی تمام چیزوں کو ہاؤسنگ مارکیٹ میں لے کر آئے گی، اسے چاہیے کہ زمین کی نشاندہی کرے اور ڈیویلپرز کو منظوری دے۔
کاظم عالم: دیگر ممالک خاص طور پر متحدہ عرب امارت میں بینک آف پلان فنانسنگ کی بھی پیشکش کرتے ہیں۔ کیا ڈی آئی بی پاکستان میں اسے متعارف کروائے گا؟
جنید احمد: دبئی میں ڈی آئی بی ہوم فنانسنگ میں ایک بڑا نام ہے اور یہ آف پلان فنانسنگ بھی فراہم کرتا ہے۔ ہم پاکستان میں بڑے تعمیراتی اداروں کے ساتھ رابطے میں ہیں اور امید ہے کہ ہم ضروری منظوری کے بعد جلد ہی اسے پاکستان میں بھی متعارف کروادیں گے۔
کاظم عالم ڈان کے اسٹاف ممبر ہیں۔kazim.alam@dawn.com*