نقطہ نظر

پاکستانی چمڑے کی صنعت آخر مسلسل بحران کی زد میں کیوں ہے؟

مصنوعی چمڑے کو اصل چمڑے کے مقابلے میں بہتر تو قرار دیا جارہا ہے مگر پیٹرولیم مصنوعات سے تیار ہونے والا چمڑا زیادہ زہریلا ہوسکتا ہے

پاکستان میں عیدِ قرباں نہ صرف ایک مذہبی تہوار ہے بلکہ اس کے ذریعے اربوں روپے کی معاشی سرگرمی بھی پیدا ہوتی ہے۔ گاؤں دیہات میں لوگ خصوصی طور پر عید الاضحیٰ کے لیے جانور پالتے ہیں اور انہیں شہروں میں فروخت کرکے سال کی اچھی آمدن حاصل کرتے ہیں، یوں شہروں سے کثیر سرمایہ دیہی معیشت میں منتقل ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ قربانی کے جانوروں کی کھالیں بھی ایک الگ معاشی سرگرمی کو فروغ دیتی ہیں۔

انسان نے زمانہ قدیم سے ہی جانور کی کھال کو اپنے استعمال میں لانا شروع کردیا تھا۔ قدیم دور میں تو کھالیں پہناوؤں اور جوتوں کا لازمی جزو تصور کی جاتی تھیں لیکن دورِ حاضر میں یہ اسٹیٹس سمبل کے طور پر مختلف لگژری مصنوعات میں استعمال کی جاتی ہیں۔

قربانی سے حاصل ہونے والی کھالیں پاکستان میں چمڑا اور اس کی ویلیو ایڈڈ صنعت کے لیے اہم ہیں۔ اسی وجہ سے چمڑے کی صنعت پاکستان کی ٹیکسٹائل کے بعد دوسری بڑی برآمدی صنعت ہے، جس کی بڑی وجہ قربانی کے جانوروں سے ملنے والا چمڑا یا کھال ہے۔

پاکستان ٹینرز ایسوسی ایشن کے مطابق مجموعی سالانہ طلب کا 40 سے 45 فیصد حصہ عیدِ قرباں پر حاصل ہوتا ہے اور کھال اپنے معیار کے لحاظ سے بھی عام دنوں میں ملنے والی کھال سے بہتر ہوتی ہے کیونکہ قربانی کے لیے فربہ اور خوبصورت جانور پسند کیا جاتا ہے اور فربہ ہونے کی وجہ سے کھال کا سائز بھی بہتر ہوتا ہے۔

عام دنوں میں بکرے کی کھال 4 سے ساڑھے 4 مربع فٹ کی ہوتی ہے جبکہ عید قرباں پر بکرے کی کھال کا سائز 8 سے 12 مربع فٹ تک ہوتا ہے جبکہ گائیں اور بیل کی کھال عام دنوں میں 25 سے 27 مربع فٹ اور قربانی کے جانوروں کی کھالوں کا سائز 40 سے 50 مربع فٹ ہوتا ہے۔

تاہم متعدد وجوہات کی بنا پر پاکستان کی دوسری بڑی برآمدی صنعت بحران کی زد میں ہے۔ پاکستان ٹینرز ایسوسی ایشن کے مطابق ان کی 800 میں سے 70 فیصد ٹینریز بند پڑی ہیں جبکہ باقی ٹینریز بھی اپنی آخری سانسیں لے رہی ہیں۔ پاکستان کی چمڑا سازی کی صنعت نہ صرف مقامی حالات بلکہ بدلتے عالمی منظرنامے کی وجہ سے بھی مشکلات کا شکار ہے۔

دنیا بھر میں پاکستان چمڑا پیدا کرنے والے صف اوّل کے 5 ممالک میں شمار ہوتا تھا لیکن اب 10ویں نمبر سے بھی نیچے چلا گیا ہے۔ پاکستان میں زیادہ تر وہ افراد چمڑے کے کاروبار سے منسلک ہیں جو نسل درنسل یہی کام کرتے چلے آ رہے ہیں اور وہ ملبوسات اور دیگر اشیا تک خود بناتے ہیں۔ خاندانی کاروبار ہونے کی وجہ سے جدیدیت اور نئی ٹیکنالوجی کا رجحان کم ہی دکھائی دیتا ہے۔

پاکستان میں چمڑے کی بنی مصنوعات کی کھپت بہت کم ہے اور مقامی سطح پر پیدا ہونے والا 95 فیصد چمڑا اور اس سے بنی مصنوعات کو برآمد کردیا جاتا ہے۔ 2014ء میں چمڑے کی مصنوعات کا برآمدات میں حصہ 5.1 فیصد تھا جو 2019ء میں گھٹ کر 3.7 فیصد تک رہ گیا ہے۔ 90ء کی دہائی میں چمڑے کی مصنوعات کی برآمدات 10 فیصد سے زائد تھیں۔

مالی سال 20ء-2019ء میں چمڑے کی مجموعی برآمدات میں کمی دیکھی گئی تھی اور چمڑے کی صنعت کی مجوعی برآمدات 84 کروڑ ڈالر سے کم ہوکر 76 کروڑ ڈالر پر آگئی۔ اس وقت چمڑے اور اس کی مصنوعات کی سالانہ تجارت کا حجم 400 ارب ڈالر ہے۔

پاکستان سے صاف شدہ چمڑا خام صورت میں اٹلی، چین، ویتنام، ہانگ کانگ، بنگلہ دیش، کوریا، اسپین، انڈونیشیا، کمبوڈیا اور جرمنی برآمد کیا جاتا ہے۔ وہاں اس کی مزید پراسیسنگ کے بعد مختلف مہنگی اور پُرتعیش اشیا تیار کی جاتی ہیں۔ پاکستان سے چمڑے کے ملبوسات، دستانے اور جوتے امریکا، جرمنی، برطانیہ، کینیڈا، ہالینڈ، فرانس، اسپین، بیلجیم اور اٹلی کی مارکیٹوں میں فروخت کیے جاتے ہیں۔ چمڑے کی مصنوعات کی شلیف لائف کاٹن اور دیگر مصنوعی اشیا کے مقابلے میں کم ہوتی ہے۔ اگر چمڑے کی کوئی شے تیاری کے چند ہفتوں میں فروخت نہ ہو تو اس کی شیلف لائف ختم ہوجاتی ہے اور اسے تلف کردیا جاتا ہے۔

کورونا کی عالمی وبا کے باعث یہ دوسرا سال ہے کہ دنیا کو اپنی جان بچانے کے لالے پڑے ہیں۔ مارکیٹیں بند پڑی ہیں۔ کچھ خطوں میں فضائی سفر پر پابندیاں عائد ہیں ایسے میں چمڑے کی مصنوعات کی طلب میں تو کمی ہونا ہی تھی۔

عالمی وبا کی وجہ سے تجارتی سامان کی نقل و حرکت بھی کئی گنا مہنگی ہوگئی ہے۔ بحری جہاز پر فی کلو گرام چارجز 100 سے 150 روپے تھے جو اب بڑھ کر تقریباً ایک ہزار روپے ہوگئے ہیں جبکہ فضائی فریٹ چارجز 2 ڈالر سے بڑھ کر 5 سے 6 ڈالر سے بھی تجاوز کرچکے ہیں۔

اس صورتحال سے صرف پاکستان ہی نہیں بھارت بھی بُری طرح متاثر ہوا ہے۔ بھارت میں چمڑے کی برآمدات میں 28 فیصد سے بھی زائد کی گراوٹ دیکھی جارہی ہے اور یہ ساڑھے 5 ارب ڈالر سے کم ہوکر گزشتہ سال 3.3 ارب ڈالر ہوگئی تھی۔

پاکستان میں چمڑے کی صنعت مخصوص علاقوں میں قائم ہے۔ پنجاب میں سیالکوٹ اور اطراف کے علاقوں میں اس کے یونٹس قائم ہیں جبکہ سندھ میں کراچی کھال کو چمڑے میں تبدیل کرنے والے ٹینریز کا مرکز ہے۔ مگر پاکستان کا ایک اہم ترین مسئلہ یہ بھی ہے کہ یہاں زیادہ تر چھوٹی ٹینریز موجود ہیں، جو زیادہ مفید ثابت نہیں ہوتیں۔ پاکستان ٹینریز ایسوسی ایشن کے مطابق ملک کی 800 ٹینریز کو اس وقت صرف ایک کروڑ 30 لاکھ کھالیں ملتی ہیں جبکہ سال 2015ء میں یہ تعداد 4 کروڑ 74 لاکھ کے قریب تھی۔

دنیا میں خام چمڑے کی پیداوار میں فرانس اہم مقام رکھتا ہے۔ اگرچہ فرانس میں محض کُل 45 ٹینریز ہیں لیکن وہ اتنی بڑی سطح پر کام کررہی ہیں جس کی بدولت 40 کروڑ یورو کی کھالیں تیار کی جاتی ہیں۔ لہٰذا پاکستانی صنعتوں کی اکانومی آف اسکیل کی کمی (یا یوں کہیے کہ بڑی صنعتوں کی عدم موجودگی) سب سے بڑا مسئلہ ہے جس سے پیداواری لاگت میں کافی زیادہ اضافہ ہوجاتا ہے۔

پاکستان میں پیداواری لاگت بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ چمڑے کی پراسیسنگ اور مخصوص معیار پر ڈھالنے کے لیے بڑے پیمانے پر کیمیکلز کی ضرورت ہوتی ہے۔ ڈالر کے مقابلے روپے کی قدر میں کمی اور حکومت کی جانب سے کیمیکلز پر عائد ڈیوٹیز نے چمڑے کی پیداواری لاگت بہت زیادہ بڑھا دی اور رہی سہی کسر بجلی اور گیس کے بڑھتے نرخوں اور ٹیکسوں نے پوری کردی ہے۔

ملک میں ٹینریز کے بند ہونے کی ایک اہم وجہ خام مال کی عدم دستیابی بھی ہے۔ گزشتہ 3 سال سے پاکستان میں قربانیوں میں مسلسل کمی دیکھی جارہی ہے۔ 2018ء میں 30 لاکھ بڑے جانور قربان ہوئے تھے جبکہ 20ء-2019ء میں یہ قربانی 5 لاکھ کے فرق کے ساتھ 25 لاکھ رہ گئی تھی۔ بکروں کی بات کی جائے تو ان کی تعداد 50 لاکھ سے کم ہوکر 35 لاکھ تک رہ گئی تھی۔ عوام کا کہنا ہے کہ قربانی ایک دینی فریضہ ہے اسے یا تو بکرا ذبح کرکے یا پھر گائیں بیل میں شراکت داری کے ذریعے بھی ادا کیا جاسکتا ہے، سو مالی مشکلات اور مہنگائی کی وجہ سے بہتر ہے کہ گائیں میں حصہ ڈال لیا جائے۔

دنیا بھر میں ماحولیات کے رضاکار جانوروں کے چمڑے سے پیدا ہونے والی ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے اس کے بائیکاٹ کی مہم چلارہے ہیں۔ عالمی سطح پر جانوروں کے چمڑے کی صنعت کو ڈرٹی انڈسٹری میں شمار کیا جانے لگا ہے اور اس پر اسی قسم کی قدغنیں لگائی جانے لگی ہیں جیسا کہ دیگر ڈرٹی صنعتوں پر لگائی گئی ہیں۔

کھال کی صفائی کے لیے کیمیکلز اور پانی کا بے دریغ استعمال ہوتا ہے۔ ہزار کلو گرام کھال کو صاف کرنے کے لیے 50 ہزار کلو گرام پانی درکار ہوتا ہے، ایک ہزار کلو گرام میں سے صرف 200 کلو گرام صاف چمڑا ہی دستیاب ہوتا ہے جبکہ چمڑے سے الگ ہونے والے پروٹین کے علاوہ بھاری کثافتوں پر مشتمل کیمیکلز فضلے کی صورت میں خارج ہوتے ہیں۔

دنیا بھر میں بڑے برانڈز ان جگہوں سے چمڑا خریدتے ہیں جہاں ماحول دوست طریقہ کار اپنایا جاتا ہے۔ کراچی میں ٹینرز سے نکلنے والا فضلہ ملیر ندی میں چھوڑ دیا جاتا ہے جو براہِ راست سمندر میں داخل ہوجاتا ہے۔ حکومت اب تک واٹر کمیشن کی ہدایت کے مطابق فضلہ صاف کرنے کا پلانٹ لگانے میں ناکام نظر آتی ہے۔

دوسری جانب ماحولیاتی آلودگی کے تناظر میں مصنوعی چمڑے کو اصل چمڑے کے مقابلے میں بہتر تو قرار دیا جارہا ہے مگر پیٹرولیم مصنوعات سے تیار ہونے والا چمڑا زیادہ زہریلا ہوسکتا ہے۔ عالمی سطح پر تیزی سے مقبول ہونے والے مصنوعی چمڑے کی مارکیٹ 75 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے اور یہ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ آئندہ چند برسوں میں 150 ارب ڈالر سے تجاوز کرسکتی ہے۔

چمڑے کی صنعت بحران کا شکار ہوگی تو کون جانور کی کھال مہنگے داموں پر خریدے گا؟ 2012ء میں قربانی کے جانور کی جو کھال 5 ہزار روپے تک پہنچ گئی تھی اس کی موجودہ قیمت ایک ہزار سے 500 روپے رہ گئی ہے۔ چنانچہ عیدِ قرباں پر کھالیں جمع کرکے اپنے اخراجات پورے کرنے والے مختلف فلاحی و مذہبی ادارے بھی مشکلات کا شکار ہوچکے ہیں۔

کھالوں کی قیمت میں کمی کی وجہ سے فلاحی اداروں میں کھالیں جمع کرنے کا رجحان بھی کم ہوتا جارہا ہے۔ حکومتی ایس او پیز کی وجہ سے بھی اب گھر گھر جاکر قربانی کی کھالیں جمع نہیں کی جارہی ہیں۔

کراچی کے رہائشی خالد احمد کا کہنا تھا کہ سال در سال ہونے والی مہنگائی کی وجہ سے ان کی قربانی پہلے کے مقابلے محدود ہوچکی ہے۔ پہلے کھالیں لینے کے لیے فلاحی اداروں کے رضاکاروں کی لائن لگی ہوتی تھیں۔ وہ جانوروں کی کھالیں متعدد اداروں میں تقسیم کردیتے تھے مگر اب یہ حال ہے کہ فون کرکے بھی بلاتے رہو تو جواب یہی دیتے ہیں کہ بھائی قریبی مرکز پر پہنچا دیں۔

علاوہ ازیں، عالمی وبا کی وجہ سے قربانی کی کھالوں کو جمع کرنے کا نیٹ ورک جو چند سال پہلے تک بہت مضبوط تھا اب کمزور ہوچکا ہے۔ اس کمزور ہوتے نیٹ ورک کی وجہ سے قربانی کی کھالوں کا جو زیاں 20 سے 25 فیصد تک تھا اب 30 سے 35 فیصد تک بڑھ چکا ہے۔

عالمی اور مقامی سطح پر پیدا ہونے والی مشکلات کو حل کرنے اور اس صنعت کو جدید تقاضوں پر استوار کرنے کے ساتھ ساتھ ماحول دوست بھی بنانا ہوگا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل میں مصنوعی چمڑے کی جگہ اصل چمڑے کی طلب میں اضافہ متوقع ہے لہٰذا چند سال تک چمڑے کی صنعت کو بحال رکھنے کی بھرپور کوشش کرنا ہوگی۔

چمڑے سے بنی مصنوعات کے معیار پر بھی توجہ دینے کے ساتھ ملک میں چمڑے کی پراسیسنگ، کٹنگ، سلائی اور دیگر شعبہ جات میں بہتری لاکر گاڑیوں کے کور، مہنگے ہینڈ بیگز، بریف کیسز اور دیگر ویلیو ایڈڈ مصنوعات تیار کرنے کی صلاحیت کو پیدا کرنا ہوگا۔

پھر یہ بات بھی یاد رہے کہ اگر یہ صنعت ختم ہوئی تو عیدِ قرباں پر آلائیشوں کی طرح کھالوں کو بھی دفن کرنا پڑے گا۔

راجہ کامران

راجہ کامران نیو ٹی وی سے وابستہ سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ آپ کا ٹوئٹر ہینڈل rajajournalist@ ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔