قربانی کے جانوروں کا ایک مکالمہ
گلی میں دن بھر جاری رہنے والی چہل پہل دم توڑ چکی تھی۔ اب نہ کہیں جانوروں کو بھگاتے بچوں اور لڑکوں کا شور تھا، نہ ان کے پیروں کی زمین کو تھپتھپانے کی آوازیں، نہ جانوروں کے زیورات کی جھنکار اور نہ ہی ان کے گلوں میں پڑی گھنٹی کی ٹن ٹن کا شور۔ 'کتنے کا لیا؟' کے بار بار ہونے والے سوال اور اس کے جواب کی بھنبھناہٹ بھی معدوم ہوچکی تھی۔
سب گھروں پر جاکر سوگئے تھے۔ بس وہ اپنے اپنے کھونٹے سے بندھے جاگ رہے تھے۔
ان میں 3 گائیں تھی، ایک بیل، ایک اونٹ، 2 بکرے اور ایک بھیڑ۔
اچانک کونے میں زنجیر سے جکڑا بکرا زور سے چلایا 'میں ں ں ں ں'
'ارے چُپ کر، جب مجھے ذرا نیند آئے ’میں، میں‘ کرکے جگا دیتا ہے۔ ہر وقت ’میں، میں، میں‘ کرتا رہتا ہے، جانوروں کا سیاسی رہنما کہیں کا'، بکرے کے قریب بندھی گائے اونگھتے اونگھتے چونک کر جاگی اور بکرے کو ڈانٹنے لگی۔
پڑھیے: اس بار بقرعید یوں منائیں
'واہ گائے آنٹی! اب میں ظلم پر احتجاج بھی نہ کروں۔ پاکستانی سمجھا ہوا ہے کیا۔'
'یہ آنٹی کِسے کہہ رہا ہے بے! ابھی تو میری شادی بھی نہیں ہوئی۔'
'سچی؟'، گائے کی بات سن کر بیل پاس ہی سے بولا۔
'چھچھورے، مرد کہیں کے، ابھی قربان ہوجانا ہے مگر اپنی حرکتوں سے باز نہ آنا!'
'صحیح کہتی ہو، اب تو بس یہی دعا ہے کہ میرے اور تمہارے کباب ایک ہی معدے میں پہنچیں، ہمارے سری پائے ایک ہی برتن میں پکیں، اور ہماری کھالیں ایک ہی سیاسی جماعت کو جائیں'، بیل کی محبت بھری گفتگو نے گائے کو بھی جذباتی کردیا۔
'ہاہاہا ارے بی بی گائے! تم دونوں کی کھالیں تو یکجا نہیں ہوسکتیں، تمہیں خرید کر لانے والا جماعت اسلامی کا ہے اور بیل انکل کا مالک ایم کیوایم کا'، بکرے نے ان دونوں کو توجہ دلائی۔
'شاعر نے صحیح کہا تھا چھوٹی ہے ذات بکرے کی'، بیل نے جل کر بکرے کو جواب دیا۔
'ہی ہی ہی، مگر دل کو لگتی ہے نا بات بکرے کی، ویسے شاعر نے ’بکرے‘ نہیں ’بکری‘ کہا تھا۔'
'میں گھما کے دم لگاؤں گی، بڑا اترا رہا ہے شاعر کی ذرا سی تعریف پر، ارے ستائش تو ہم گایوں کی ہوئی ہے۔ رب کا شکر ادا کر بھائی جس نے ہماری جیسی گائے بنائی۔'
پڑھیے: جب ہم ذبح ہوں گے، جانے کہاں ہوں گے
'ارے بھولی گائے، کیوں شاعر کی تعریف پر اترائے، ذرا غور تو کر اس نے ’ہماری گائے‘ کہا ہے، گویا تو اور تیری ساری سہولیات انسانوں کے لیے وقف ہیں اور اس کا بھی شکر ادا کیا ہے کہ تیرے کوئی نخرے نہیں، دانا دنکا، بھوسی، چوکر کھالیتی ہے سب خوش ہوکر اور پھر تازہ، سفید اور میٹھا دودھ دیتی ہے۔ کُل ملاکر بات یہ ہوئی کہ تو انسانوں کے لیے کراچی ہے۔ پگلی! یہ شاعر لوگ تو اپنی باتوں سے محبوبہ کو بے وقوف بنادیتے ہیں، تو تو پھر گائے ٹھہری'، اونٹ کسی کروٹ بیٹھنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے بولا۔
'صحیح کہہ رہے ہو بھیا، ان موئے شاعروں نے ہم گایوں کو اُلّو بنایا ہے، ایک شاعر نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا تم مرے پاس ’ہوتی ہو گَیّا‘، جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا اور جون ایلیا نے ہمارے لیے کہا تھا ’گائے گائے‘ بس اب یہی ہو کیا، تم سے مل کر بہت خوشی ہو کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ انہیں ہمارے شباب نہیں ہمارے کباب سے پیار ہوتا ہے' گائے نے سرد آہ بھر کر کہا۔
'چلو تمہاری جھوٹ موٹ تعریف تو ہوئی، اس بے چاری بھیڑ کو دیکھو، اسے کسی نے ذرا بھی نہ سراہا، اور یہ اتنی معصوم ہے کہ جب انسان نے اس سے پوچھا،
Baa, baa, black sheep
?Have you any wool
اس نے جھٹ سے خود کو Yes sir, yes sir
Three bags full کہہ کر پیش کردیا۔'
اونٹ نے اپنی لمبی گردن کا رُخ گائے اور بکرے کے درمیان بیٹھی بھیڑ کی طرف کرتے ہوئے کہا۔
'یہ تو ہے، انسان نے میری ذرا قدر نہ کی، مگر ایک بات ہے، میں پاکستانیوں میں بہت مقبول ہوں'۔
'وہ کیسے؟'، بکرا ممیایا۔
پڑھیے: کیا آپ کی گائے برانڈڈ ہے؟
'پوری قوم بھیڑ چال چلتی ہے، بھیڑیے میری کھال پہن کر سیاست میں آتے ہیں، اور سرکاری اداروں میں کسی اور جانور کو ملازمت نہیں ملتی لیکن کالی بھیڑیں بھری ہوئی ہیں۔'
'خود تو تمہاری کھال پہنتے ہیں، لیکن دوسروں کو بکرا بنادیتے ہیں۔ ہم بکروں نے جب بھی سنا کہ فلاں وزیر کو حکمرانوں نے بکرا بنا دیا تو بڑی خوشی ہوتی ہے کہ ایک وزیر ہماری برادری میں شامل ہوگیا، لیکن جب بکرا بنانے کا مطلب سمجھ میں آیا تو ساری خوشی کافور ہوگئی۔'
'شکر ہے تمہاری سمجھ میں یہ بات آگئی یعنی ’بکرے‘ ہمارے عہد کے چالاک ہوگئے۔ یہ جان کر تمہیں بہت غصہ آیا ہوگا کہ جس وزیر کی بھینٹ چڑھانا ہو اسے بکرا ہی بنایا جاتا ہے، گائے، بیل یا بھیڑ نہیں بنایا جاتا'، جگالی کرتی گائے نے بکرے کی بات پر تبصرہ کیا۔
'غصہ تو مجھے تب آتا ہے جب امی جان کو کوئی کچھ کہتا ہے۔'
'تمہاری امی کو کس نے کیا کہہ دیا؟'، اونٹ نے بڑی شفقت سے بکرے کو دیکھتے ہوئے کہا۔
'ارے بات بات پر دھمکی دیتے ہیں بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔'
'تمہیں دھمکی دیتے ہیں اور مجھے ’اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی‘ جیسے طعنے۔'
'آپ نے بھی ان کے ساتھ صحیح کیا، بَدّو کے خیمے میں رفتہ رفتہ گھس کر قبضہ کرلیا تھا۔'
پڑھیے: جذبہءِ قربانی کا تقاضا
بیل نے سر اٹھا کر اونٹ کو رشک بھری نظروں سے دیکھا۔
'ہائے کیا یاد دلا دیا۔ یہ اس دور کی بات ہے جب بَدّو خیموں میں رہتے اور ہماری پشت پر سوار ہوتے تھے۔ ان کے ہاں تیل کیا نکلا خیمے اور اونٹ ان کی زندگی سے نکل گئے۔ اب ہم ان سے کبھی بھلادینے کا شکوہ کریں تو جواب ملتا ہے، ہم تو فلسطینیوں کو بھول گئے تم کیا چیز ہو'، اونٹ نے دُکھی لہجے میں اپنی بپتا سنائی۔
'چلو یہ دل جلانے والی باتیں چھوڑو، کوئی اور ذکر چھیڑو، اپنے اپنے خریدار کے بارے میں کچھ بتاؤ'، گائے نے بیزار ہوکر مشورہ دیا۔
'میرا خریدار ایک اسکول ماسٹر ہے۔ جب کسی نے مجھے دیکھ کر کہا ’اتنا کمزور بکرا! یہ بکرا ہے کہ حکمرانوں کا وعدہ، سیاستدانوں کا کردار یا کسی مشہور اداکارہ کی انگریزی۔‘
ماسٹر صاحب نے جواب دیا، ’ارے یہ بھی بڑی مشکل سے ملا، بچوں کی ضد تھی اس لیے کمیٹی ڈال کرلیا ہے‘۔
’مجھے چارا کھلانے کے چکر میں بے چارہ ماسٹر اور اس کے گھر والے خود 4 دن سے دال روٹی پر گزارا کررہے ہیں۔'
'مجھے بیوپاری سے کسی بھاؤ تاؤ کے بغیر جھٹ پٹ خرید لیا گیا، میرے خریدار نے میرے ساتھ 2 گائے اور بھی خریدیں۔ بعد میں پتا چلا اس کی 3 بیویاں ہیں۔ میں حیران تھی کہ یہ کیسا خریدار ہے جس نے میری قیمت کم کرانے کے لیے ذرا بھی بحث نہیں کی۔ جب وہ مجھے اپنے گھر لے کر پہنچا تو کوٹھی پر لگی تختی دیکھ کر معلوم ہوا کہ وہ رکن اسمبلی ہے۔ میں اس کی پہلی بیوی کی دوسری گائے ہوں۔ وہ اپنے شوہر سے کہہ رہی تھی، 'اس میں اگر ان دونوں کی گایوں سے کم گوشت نکلا تو اچھا نہیں ہوگا'۔ ان دونوں گایوں کا تو اندازہ نہیں لیکن اس خاتون میں مجھ سے زیادہ ہی گوشت ہوگا، اتنا کہ رکن اسمبلی بعض اوقات دھوکا کھا جاتا ہے۔ ابھی کل ہی کی بات ہے عجیب سی حالت میں لڑکھڑاتا ہوا آیا، بیوی کے سامنے چارا ڈالا اور میرے پاس آکر کہنے لگا، ’ڈارلنگ! چلو تمہیں شاپنگ کرا لاؤں‘۔ اگلے دن اس کی بیوی نے مجھے یہاں گلی میں بندھوا دیا، ورنہ میں آرام سے کوٹھی کے لان میں بندھی تھی۔'
پڑھیے: گائے بھی منہ میں زبان رکھتی ہے
'میرا تو کوئی خریدار ہے ہی نہیں۔ مجھے میرے مالک نے ایک سرکاری افسر کو تحفے میں دے دیا۔ افسر نے ایک ہاتھ میں میری رَسّی تھامی اور دوسرے ہاتھ سے ایک فائل دستخط کرکے میرے مالک کے حوالے کردی۔ افسر مجھے دیکھتے ہی کہنے لگا، ’کیا زبردست بیل ہے، بہت گوشت نکلے گا، آدھا بھی غریبوں میں بانٹ دیا تو کتنا ثواب ملے گا!'
'میرا خریدار ایک صحافی ہے'، اونٹ نے بولنا شروع کیا۔
'وہ جو ادھر فلیٹ میں رہتا ہے'، بکرے نے اس کی بات کاٹ دی۔
'ارے نہیں، وہ کنگلا میرے دام کیا دے گا، اس کی تو تنخواہ ہی اتنی ہے گویا اونٹ کے منہ میں زیرہ۔ مجھے ایک چینل کے اینکر نے خریدا ہے۔ مجھے گھر لے جاکر اس نے اپنی بیوی سے کہا، ’میں نے بلڈر فیاض سے پلاٹ مانگا تھا، انہوں نے کہا وہ تو میں نے تمہارے چینل کے مالک کو دے دیا، تم یہ لفافہ لے لو، لفافے میں موجود رقم سے میں نے یہ اونٹ اور نئی کار لے لی۔ وہ بڑا مشہور اینکر ہے، اپنے ہر پروگرام میں حکمرانوں اور سیاست دانوں کی بدعنوانیوں کا پردہ چاک کرتا ہے'، اونٹ نے فخر سے بتایا۔
'گویا تم سب میں سے حلال صرف میں ہی ہوں گا، باقی سب'، اسکول ماسٹر کے خریدے ہوئے بکرے نے اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، اور سب نے سر جھکالیے۔
عثمان جامعی شاعر، قلم کار، مزاح نگار، بلاگر، صحافی ہیں۔ آپ کی تین کتابیں شائع ہوچکی ہیں، جن میں فکاہیہ مضامین کا مجموعہ ’کہے بغیر‘، شعری مجموعہ ’میں بس ایک دیوار‘ اور کراچی کے حوالے سے ناول ’سرسید، سینتالیس، سیکٹرانچارج‘ شامل ہیں۔ آپ اس وقت ایک اخبار میں بطور ’سنڈے میگزین‘ انچارج ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔