بلوچ رہنما کو عسکریت پسندوں کے ساتھ بات چیت کے حکومتی منصوبے پر تحفظات
بلوچ رہنماؤں نے بلوچستان میں عسکریت پسندوں کے ساتھ بات چیت کے حکومت کے منصوبے سے متعلق اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا کرنے کا فیصلہ صرف فوجی قیادت کے پاس ہے۔
جمعرات کی شب ڈان نیوز ٹی وی کے شو 'لائیو وِد عادل شاہ زیب' میں بات کرتے ہوئے بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل (بی این پی - ایم) کے سربراہ سردار اختر مینگل نے کہا کہ وہ وزیر اعظم کے حالیہ بیان سے پریشانی کا شکار ہیں جہاں انہوں نے کہا تھا کہ وہ صوبے کے ’عسکریت پسندوں سے بات چیت‘ کرنے پر غور کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’اگر میں غلط نہیں ہوں تو، انہوں نے کہا کہ انہوں نے صرف اس کے بارے میں سوچا ہے، فیصلہ نہیں کیا ہے اور کسی شخص کے خیالات کسی بھی وقت تبدیل ہوسکتے ہیں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ملکی حکمران اکثر اپنے فیصلوں کو تبدیل کرتے ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ حکومت سنجیدہ ہے، یہ مذاکرات (مکالمہ) نہیں ہیں بلکہ یہ مذاکرات (ایک مذاق) ہیں‘۔
مزید پڑھیں: 'بلوچستان میں عسکریت پسندوں سے بات کرنے کا سوچ رہا ہوں'
اختر مینگل کا کہنا تھا کہ اس صوبے کے عوام 1947 سے اس ’مذاق‘ کا سامنا کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کے پاس عسکریت پسندوں سے مذاکرات کرنے کا اختیار نہیں ہے، ’اس خطے میں دو علاقے ایسے ہیں جس کے اسٹیبلشمنٹ نے اختیارات اپنے پاس رکھے ہیں، ایک مقبوضہ کشمیر اور دوسرا بلوچستان۔
ان کا کہنا تھا کہ ’کسی بھی سیاسی حکومت کو بلوچستان کے مسائل حل کرنے کا اختیار نہیں، زمینی حقائق کو قبول کرنے کی ضرورت ہے‘۔
سردار اختر مینگل نے سوال کیا کہ ’کیا اسٹیبلشمنٹ نے کبھی بھی اس پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ بلوچستان کے عوام کے ساتھ کیا ہوا؟‘
انہوں نے لاپتا افراد کے معاملے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ حکومت لوگوں کو درپیش مشکلات کو دور کریں۔
یہ بھی پڑھیں: بلوچستان کابینہ میں اختلافات شدت اختیار کرگئے، وزیر سے قلمدان واپس لے لیا گیا
ان کا کہنا تھا کہ ’اس مقصد کے لیے آپ کو لندن یا سوئٹزرلینڈ کے ٹکٹ کی ضرورت نہیں ہوگی‘۔
اختر مینگل نے کہا کہ ان کی پارٹی کی جانب سے وزیر اعظم کو پیش کردہ 6 نکاتی ایجنڈے پر کام کرنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’تاہم جب ہم ان سے ملتے تھے تو وہ کہتے تھے کہ جاؤ جاکر آرمی چیف یا انٹر سروسز انٹلیجنس کے ڈائریکٹر جنرل سے بات کرو، ان کی بات اور ان کے اقدامات سے یہ بات واضح ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ، بلوچستان کا مسئلہ حل نہیں کرنا چاہتی‘۔
انہوں نے کہا کہ ’ان کے ہاتھوں میں سونے کی چڑیا ہے وہ اسے کبھی جانے نہیں دیں گے‘۔
نیشنل پارٹی کے رہنما ڈاکٹر عبدالمالک نے سابق فوجی حکمران جنرل (ر) پرویز مشرف کو صوبے میں عسکریت پسندی کی موجودہ لہر کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا کہ صوبہ پچھلے 15 سالوں سے جل رہا ہے۔
عبد المالک نے کہا کہ ان کی پارٹی نے ہمیشہ بلوچ عسکریت پسندوں کے ساتھ بات چیت کی وکالت کی ہے۔
مزید پڑھیں: بلوچستان آج اس نہج تک کیسے پہنچا؟
انہوں نے کہا کہ ’میں آپ کو صاف صاف بتاتا ہوں کہ سیاسی قیادت کے پاس اس کا حل نہیں ہے، اس کا حل فوجی قیادت کے پاس ہے‘۔
فوج اور حکومت میں کوئی فرق نہیں، فواد چوہدری
تاہم وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے ان دونوں سیاستدانوں کے دعووں کو مسترد کردیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’بعض طبقات میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ کہنا کہ حکومت اور فوج الگ ہیں (تاہم) موجودہ حکومت میں ایسا کچھ نہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم مختلف نقطہ نظر کو سننے کے بعد فیصلے کرتے ہیں۔
وزیر اطلاعات نے اختر مینگل پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’جب انہیں (اختر مینگل) بجٹ کے لیے یا مفادات کے لیے رقم کی ضرورت ہوتی ہے تو، انہیں اسٹیبلشمنٹ سے نہیں حکومت سے بات کرنی ہوگی‘۔
تاہم فواد چوہدری نے اس بات پر اعتراف کیا کہ ایک نقطہ نظر یہ موجود ہے کہ بلوچ شدت پسندوں سے ہر گز بات نہیں کرنی چاہیے، ہم اسے دیکھیں گے، ہم دیکھیں گے کہ ہم کس سے بات کر سکتے ہیں اور کس سے نہیں کر سکتے ہیں‘۔
مزید پڑھیں: بلوچستان حکومت کے مقدمہ واپس لینے پر اپوزیشن اراکین کا دھرنا ختم
انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نے پہلے اعلان کیا تھا کہ وہ صوبے میں عسکریت پسندوں سے بات کرنے کا سوچ رہے ہیں پھر انہوں نے شاہ زین بگٹی کو بلوچستان میں مفاہمت اور ہم آہنگی سے متعلق اپنا خصوصی معاون مقرر کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’تیسرے مرحلے میں ہم یہ طے کریں گے کہ ہم کس گروپس سے بات کر سکتے ہیں اور کن کن گروپس سے ہم بات نہیں کرسکتے ہیں، پھر ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ کس چیز کے بارے میں بات کی جاسکتی ہے اور ساتھ ہی ریاست کو کیا مراعات دی جاسکتی ہیں یا نہیں دی جاسکتی ہیں‘۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ بھارت سے منسلک گروپس کو پہلے ہی اس عمل سے خارج کردیا گیا ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ بھارت سے منسلک ہونے اور بھارت کے استعمال میں ہونے میں فرق ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ ’ان لوگوں کے ساتھ بات چیت کرنا مشکل ہو گا جنہوں نے پاکستان میں دہشت گردی کے لیے بھارت سے پیسے لیا، وہ لوگ جن کو (کسی نے) استعمال کیا تھا، وہ ایک الگ مسئلہ ہے‘۔