پیٹرولیم ڈویژن، نیب کو لگام ڈالنے کا خواہاں
اسلام آباد: پیٹرولیم ڈویژن نے بتایا کہ پیٹرولیم سیکٹر کا گردشی قرض 12 کھرب روپے تک پہنچ گیا ہے، ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ قومی احتساب بیورو (نیب) کا 'ظالمانہ اقدام' معیشت کے لیے بھاری قیمت کا باعث بن رہا ہے اور ملک کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لیے اسے لگام ڈالنے کی ضرورت ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سیکریٹری پیٹرولیم ڈاکٹر ارشد محمود نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پیٹرولیم کے سامنے بیان دیتے ہوئے کہا کہ نیب نے سرکاری افسران کو فیصلے لینے پر معزول کردیا ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ملک اس طرح نہیں چلائے جاتے بلکہ اس کے لیے اقدامات اور جوش و جذبے کی ضرورت ہوتی ہے، ہم یہ تجویز دے رہے ہیں کہ کمرشل معاملات کا جائزہ نیب کے بجائے کوئی کمرشل فورم لے'۔
کچھ مثالیں بتاتے ہوئے سیکریٹری نے کہا کہ نیب کے خوف کی وجہ سے حکومت ایل این جی ٹرمینلز پر 200 ملین مکعب روزانہ کی اضافی صلاحیت استعمال نہیں کر سکی۔
یہ بھی پڑھیں: نیب کے خوف سے بیوروکریسی فیصلے کرنے سے گریزاں ہے، تابش گوہر
انہوں نے بتایا کہ 'یہ گیس 12 سو میگاواٹ بجلی پیدا کر سکتی ہے لیکن ہم اسے استعمال نہیں کر سکتے'، ایک حل کے طور پر حکومت کسی نجی کمپنی مثلاً کے۔الیکٹرک کو سرپلس صلاحیت استعمال کرنے کی سہولت دے سکتی ہے اور کسی حکومتی ضمانت کے بغیر معاہدہ کر سکتی ہے، میں اس سلسلے میں مناسب تندہی سے کام لے رہا ہوں'۔
ارشد محمود کا مزید کہنا تھا کہ بجلی بنانے والی کچھ کمپنیوں نے بجلی پیدا کی اور اسے سرکاری کمپنیوں کو فروخت کردیا اور نیب نے یہ معاملہ بھانپ لیا جس سے اس لائن میں موجود دیگر 40 فریقین کاروبار کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہوئے، نیب نے ایک افسر کو بلایا جسے مسلسل چکر لگانے پڑے جبکہ دیگر نے فیصلہ لینا چھوڑ دیا۔
انہوں نے کہا کہ سرمایہ کار تلملا رہے ہیں، لسٹڈ کمپنیوں کا پبلک پروکیورمنٹ قواعد سے کیا لینا دینا ہے؟ لیکن وہ بھی مداخلت کی وجہ سے نیب سے خوفزدہ ہیں۔
سیکریٹری پیٹرولیم نے کہا کہ محدود وسائل کی وجہ سے پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن (پی این ایس سی) کو استعمال شدہ بحری جہاز کی ضرورت تھی جس کی پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی (پی پی پی آر اے) کے تحت اجازت نہیں ہے اور کوئی بھی غیر معمولی اقدام نیب انکوائریز کو دعوت دے سکتا ہے۔
مزید پڑھیں: بیوروکریٹس نیب کا خوف دل میں لائے بغیر کام کریں، وزیراعظم
زیادہ تر سینیٹرز نے اس بات سے اتفاق کیا کہ احتساب کا ادارہ ملک کے کاروباری ماحول اور معیشت کو حاصل ہونے والے فوائد سے زیادہ نقصان پہنچا رہا ہے۔
انہوں نے سیکریٹری پیٹرولیم سے کوئی راستہ نکالنے کے لیے تجاویز پیش کرنے کا کہا کہ جو وہ اس مسئلے کے حل کے لیے پارلیمنٹ میں پیش کرنے کو تیار ہیں۔
سینیٹر ڈاکٹر سعدیہ عباسی نے کہا کہ اس طرح کے فیصلے حکومتوں کو لینے پڑتے ہیں لیکن یہ واضح ہے کہ نیب نے حکمرانی اور حکومت کے کام کو متاثر کیا اور اس سے کاروبار خراب ہوئے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں بہت سے ایسے افسران بیٹھے ہیں جنہیں وعدہ معاف گواہ بنایا گیا ہے۔
سیکریٹری نے کمیٹی کو بتایا کہ پیٹرولیم کمپنیوں کی قابل وصول رقم 11 کھرب 78 ارب روپے سے بڑھ چکی ہے اور انہیں وزیر خزانہ نے تصفیے کا منصوبہ بنانے کا ذمہ دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: 'کورونا وائرس پھیلانے کے سوا نیب پر ہر قسم کا الزام لگایا جاچکا ہے'
اس میں بہت سے اداروں کے پاس آئل اینڈ گیس ڈیولپمنٹ کمپنی لمیٹڈ (او جی ڈی سی ایل) کے 4 کھرب روپے، پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) کے 3 کھرب 57 ارب روپے، ریفائنریز کے 57 ارب روپے، ٹیکسز کی مد میں 78 ارب روپے اور پی ایچ پی ایل کے ایک کھرب 32 ارب روپے شامل ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ زیادہ تر انٹرنیشنل ایکسپلوریشن اینڈ ڈیولپمنٹ کمپنیاں متعدد وجوہات کی بنا پر ملک چھوڑ کر جاچکی ہیں جس میں پالیسی وجوہات، سیکیورٹی اور دیگر عالمی پہلو شامل ہیں۔
انہوں نے کمیٹی کو بتایا کہ وہ ممالک جہاں 2 ڈی اور 3 ڈی سرویز سرکاری اخراجات سے فراہم کیے جاتے ہیں وہ بڑی دریافتیں کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
علاوہ ازیں سوئی سدرن اور نادرن گیس کمپنیوں کے مینیجنگ ڈائریکٹرز نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ گیس کے ذخائر کم ہو رہے ہیں اور اب وہ گیس درآمد کر رہے ہیں جو ایک بڑا چیلنج ہے۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ ایس این جی پی ایل کا یو ایف جی نقصان 9 فیصد جبکہ ایس ایس جی سی کا 14 فیصد ہے، تاہم وہ اسے مزید کم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
سال 2017 میں کرک گیس فیلڈ میں 37 فیصد نقصانات کا سامنا تھا جسے کم کر کے 8 فیصد کردیا گیا۔
پیٹرولیم سیکریٹری نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ وائٹ پائپ لائن منصوبہ جلد مکمل ہوجائے گا اور یکم ستمبر سے یہ پیٹرول اور ہائی اسپیڈ ڈیزل کی فراہمی شروع کردے گا۔
کمیٹی کو یہ بھی بتایا گیا کہ ریفائنری قائم کرنے پر 10 سے 15 ارب ڈالر کی لاگت آتی ہے جبکہ پاکستان میں موجود ریفائنریز کی اپگریڈیشن کے لیے ساڑھے 3 ارب ڈالر درکار ہوں گے جس میں 70 فیصد رقم ریفائنریز ادا کریں گی اور بقیہ 30 فیصد بجٹ 22-2021 میں اٹھائے گئے پالیسی اقدامات سے فراہم کیے جائیں گے۔