بھارت نواز کشمیری رہنماؤں سے مودی کی ملاقات متوقع، آرٹیکل 370 پر حمایت کی کوشش کا امکان
بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی مقبوضہ کشمیر میں بھارت نواز کشمیری رہنماؤں سے ملاقات کریں گے، جس میں مقبوضہ وادی کے اندر سیاسی عمل کو دوبارہ فعال کرنے پر بات چیت متوقع ہے۔
ان کی ملاقات کو مقبوضہ کشمیر سے متعلق سخت گیر پالیسی کے تناظر میں ایک بڑی پسپائی تصور کیا جارہا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بھارت کی جانب سے اگست 2019 میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد سے نئی دہلی اور مقبوضہ کشمیر کے اہم سیاسی رہنماؤں کے درمیان یہ پہلی ملاقات ہوگی، جسے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے دونوں اطراف گہری نظروں سے دیکھا جارہا ہے۔
مزید پڑھیں: بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی، صدارتی فرمان جاری
اجلاس میں مدعو کیے جانے والے رہنماؤں میں مقبوضہ کشمیر کے سابق وزرائے اعلیٰ فاروق عبد اللہ اور عمر عبداللہ (نیشنل کانفرنس)، غلام نبی آزاد (کانگریس) اور محبوبہ مفتی (پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی) شامل ہیں جنہیں بھارتی حکام نے 5 اگست 2019 کے یکطرفہ اقدام کے بعد حراست میں لے لیا تھا۔
اس اجلاس میں شامل ہونے والے دیگر افراد میں تارا چند، مظفر حسین بیگ، نرمل سنگھ، کوویندر گپتا، یوسف تاریگامی، الطاف بخاری، سجاد لون، جی اے میر، رویڈنر رائنا اور بھیم سنگھ بھی شامل ہیں۔
آل پارٹیز حریت کانفرنس (اے پی ایچ سی) اس ملاقات کا حصہ نہیں ہے۔
اسلام آباد کی جانب سے اس ملاقات کو 5 اگست کے اقدام کو قانونی حیثیت دینے کی کوشش کے طور پر دیکھا جارہا ہے جسے مقبوضہ جموں و کشمیر میں غیرمعمولی تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: بھارتی آئین کا آرٹیکل 370 اور 35اے کیا ہے؟
اس حوالے سے کہا جارہا ہے کہ نریندر مودی اور کشمیری رہنماؤں کے مابین ملاقات کا کوئی ایجنڈا نہیں ہوگا اور وہ مقبوضہ کشمیر کی مجموعی صورتحال پر تبادلہ خیال کریں گے۔
لیکن ذرائع نے بتایا کہ مذاکرات مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہونے والے ریاستی انتخابات، انتخابی حلقوں کی حد بندی اور ایک اور آئینی ترمیم کے ذریعے خطے کو بطور ریاست تسلیم کرنے سے متعلق ہیں۔
بی جے پی کی حکومت حلقہ بندیوں کے ذریعے آئندہ ریاستی انتخاب میں کم سے کم 7 ہندو اکثریتی حلقوں میں کامیابی کے لیے کوشش کر رہی ہے۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ خطے کو ریاست کا درجہ حاصل ہے اور بھارتی آئین کے تحت مقبوضہ علاقہ فی الحال ایک 'یونین ٹیریٹری' ہے جہاں قانون ساز اسمبلی ہو گی۔
پاکستان نے بیک ڈور رابطوں کے ذریعے بھارت کو دوطرفہ تعلقات میں آگے بڑھنے کے لیے 5 اگست کے اقدام کو واپس لینے پر زور دیا ہے، لہٰذا یہاں اہم سوال یہ ہے کہ اگر محض ریاست کی بحالی سے پاکستان اور مقبوضہ کشمیر کے عوام مطمئن ہوں گے تو بظاہر اس کا جواب نفی میں ہے۔
مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر: 'بھارتی فورسز کی فائرنگ سے مزید 3 کشمیری شہید'
اگرچہ اجلاس کے بارے میں اسلام آباد کی جانب سے تاحال کوئی باضابطہ بیان سامنے نہیں آیا لیکن انٹرویوز کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی کے بغیر پاکستان کو کوئی دوسرا راستہ قبول نہیں ہوگا۔
اسلام آباد کی خواہش ہے کہ دہلی 5 اگست کے اپنے اقدامات پر نظرثانی کرے اور آرٹیکل 370 اور 35 اے کو بحال کرے۔
تاہم یہ دیکھنا قدرے دلچسپ ہوگا کہ بھارت نواز کشمیری سیاستدان، بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے اس ممکنہ اقدام کا کیا جواب دیں گے۔
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی محبوبہ مفتی کے علاوہ دیگر تمام کشمیری رہنماؤں نے بھارتی حکام سے انفرادی ملاقات میں مقبوضہ کشمیر کی خود مختاری کے معاملے میں لچک کا اظہار کیا تھا۔
تاہم منگل کے روز 'پیپلز الائنس فار گپکر ڈیکلیریشن' کے اجلاس میں تمام جماعتوں نے بھارتی وزیر اعظم سے ملاقات پر آمادگی کا اظہار کرتے ہوئے مشترکہ مؤقف برقرار رکھنے پر اتفاق کیا تھا۔
مزید پڑھیں: ’بدقسمتی سے ہمارا سب سے بڑا خوف سچ ثابت ہوگیا‘
ماضی میں ان جماعتوں نے ریاست کی شناخت، خود مختاری اور خصوصی حیثیت کی بحالی کے لیے اجتماعی طور پر جدوجہد کرنے کا عزم ظاہر کیا تھا۔
دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا یہ رہنما اعلامیے میں کیے گئے اپنے وعدوں کی پاسداری کرتے ہیں یا اپنے انفرادی سیاسی تحفظات پر عمل پیرا ہوتے ہیں اور خود مختاری کے بغیر ریاست کو قبول کرتے ہیں۔