اس دریافت سے ممکنہ وضاحت ہوتی ہے کہ آخر کووڈ کے متعدد مریضوں کو دماغی و اعصابی مسائل کا سامنا کیوں ہوتا ہے۔
یہ مسائل کووڈ 19 کی سنگین شدت کا سامنا کرنے والے مریضوں میں زیادہ عام ہوتے ہیں اور علامات کا تسلسل بیماری کو شکست دینے کے کئی ماہ تک برقرار رہتا ہے، جس کے لیے لانگ کووڈ کی اصطلاح بھی استعمال ہوتی ہے۔
اسٹینفورڈ کے پروفیسر ٹونی وائز کورے نے بتایا کہ کووڈ 19 کے باعث ہسپتال میں زیرعلاج رہنے والے ایک تہائی مریضوں کی جانب سے سوچنے میں مشکلات، بھولنا، توجہ مرکوز کرنے اور ڈپریشن جیسی علامات کو رپورٹ کیا جاتا ہے۔
محققین نے کووڈ 19 سے ہلاک ہونے والے 8 افراد کے دماغی ٹشوز کا موازنہ 14 افراد سے کیا گیا جو دیگر وجوہات نتیجے میں دنیا سے چل بسے تھے۔
محققین دماغی ٹشوز میں کورونا وائرس کے آثار دریاافت نہیں کرسکے، تاہم انہوں نے کووڈ 19 کے باعث ہلاک ہونے والے مریضوں کے دماغ میں ورم کا باعث بننے والی مالیکیولر مارکرز دریافت کیا، حالانکہ ان مریضوں نے کسی قسم کی ذہنی و دماغی تنزلی کو رپورٹ نہیں کیا تھا۔
خون اور دماغ کے درمیان موجود رکاوٹ ایسے خلیات کا مرکز ہوتی ہے جو مضبوطی سے ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں۔
پہلے خیال کیا جاتا تھا کہ یہ رکاوٹ دماغ سے باہر موجود مخصوص خلیات اور مالیکیولز کو ہی دماغ مٰں داخل ہونے کی اجات دیتی ہے۔
مگر محققین کے اس گروپ اور دیگر ماہرین نے سابقہ تحقیقی کام میں ثابت کیا تھا کہ دماغ سے باہر موجود کچھ عناصر اس رکاوٹ کو سگنل بھیج کر ورم کے ردعمل کو دماغ کو متحرک کرتے ہیں۔
تحقیق میں کووڈ 19 کے مریضوں کے دماغ میں سیکڑوں جینز کی سطح کے تحرک کو دریافت کیا گیا جبکہ کنٹرول گروپ میں ایسا نہیں تھا۔
محققین نے بتایا کہ ان میں سے بیشتر جینز ورم سے منسلک ہوتے ہیں جبکہ انہوں نے دماغ کے فیصلہ سازی، یادداشت اور منطق کے لیے اہم حصے میں بھی نیورونز میں مسائل کی علامات کو دیکھا۔
یہ نیورونز عموماً 2 اقسام کے ہوتے ہیں جو پیچیدہ سرکٹس کو تشکیل دے کر دماغی افعال کو ممکن بناتے ہیں۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے کے مریضوں میں مالیکیولر تبدیلیاں آتی ہیں جو ان نیورونزز کے سنگلنگ نظام کو دبا دیتی ہے۔
اس عدم توازن سے دماغی مسائل اور تنزلی جیسے عوارض کو الزائمر اور پارکنسن امراض میں دیکھا گیا ہے اور اب کووڈ کے مریضوں میں اسے دریافت کیا گیا۔