پاکستان

اسلام آباد کی طرف مارچ کرنے والے جانی خیل قبائلیوں اور پولیس کے درمیان جھڑپیں

جانی خیل قبیلے کے افراد بزرگ کے قاتلوں کی عدم گرفتاری کے خلاف اسلام آباد کی طرف مارچ کررہے تھے۔
|

صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں تین ہفتہ قبل قتل کیے گئے قبائلی برزگ کے قاتلوں کی عدم گرفتاری کے خلاف اسلام آباد کی طرف مارچ کرنے والے جانی خیل قبیلے کے افراد اور پولیس کے درمیان پُرتشدد جھڑپیں ہوئیں۔

قبائلی رہنما ملک نصیب خان کی ہلاکت پر جانی خیل قبیلے کے افراد گزشتہ تین ہفتوں سے اس علاقے میں دھرنا دے رہے ہیں، تین ہفتے قبل اس علاقے میں مسلح افراد نے انہیں فائرنگ کر کے قتل کردیا تھا اور قاتلوں کی عدم گرفتاری پر مظاہرین نے آج اسلام آباد کی طرف مارچ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

مزید پڑھیں: جانی خیل مظاہرین کا نوجوانوں کی لاشوں کے ساتھ اسلام آباد کی جانب مارچ

مظاہرین کے مطابق اس دوران مظاہرے میں شریک ایک فرد بھی مارا گیا البتہ بنوں پولیس نے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارے پاس احتجاج کے دوران کسی نوجوان کی ہلاکت کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔

مظاہرین میں شریک ایک فرد لاتف وزیر نے فون پر ڈان ڈاٹ کام سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ پُرامن مظاہرین وفاقی دارالحکومت کی طرف مارچ کے ارادے سے جانی خیل کے علاقے سے سات کلومیٹر آگے بڑھے ہی تھے کہ پولیس نے ان کا راستہ روک لیا اور مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کرتے ہوئے لاٹھی چارج کیا جو دونوں فریقین میں تصادم کا سبب بنا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ مظاہرین میں شریک جانی خیل کا رہائشی واحد خان پولیس کارروائی کے دوران جان سے ہاتھ دھو بیٹھا جبکہ جھڑپ میں متعدد دیگر مظاہرین بھی زخمی ہوئے، احتجاج کے دوران پولیس کی ایک گاڑی کو بھی نقصان پہنچا۔

اس سے قبل مقامی انتظامیہ نے جانی خیل قبیلے کے عمائدین کو اس احتجاج کو ختم اور مقتول قبائلی رہنما ملک نصیب خان کی تدفین کے لیے راضی کرنے کی کوشش کی تھی لیکن ان کی یہ کوششیں رائیگاں گئیں۔

یہ بھی پڑھیں: چار لڑکوں کی ہلاکت کا معاملہ، جانی خیل قبیلے کا احتجاج ختم کرنے سے انکار

مظاہرین میں سے ایک نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ وزیر اعلیٰ نے دو ماہ قبل قبائلیوں کو یقین دلایا تھا کہ چار نوجوانوں کے قاتلوں کو گرفتار کیا جائے گا جن کی گولیوں سے چھلنی لاشیں مارچ میں ملی تھیں لیکن ابھی تک کسی کو گرفتار نہیں کیا جا سکا۔

جانی خیل میں جب 13 سے 17 سال کی عمر کے چار نوجوانوں کی لاشیں ملی تھیں تو اس وقت بھی مظاہرے پھوٹ پڑے تھے اور مقامی افراد انصاف کے حصول اور قاتلوں کی گرفتاری کے لیے سڑکوں پر نکل آئے تھے۔

ان لڑکوں کو اغوا کر لیا گیا تھا اور تین ہفتے بعد ان کی لاشیں ایک کھیت سے برآمد ہوئی تھیں۔

ہلاک شدگان کی شناخت احمد اللہ، محمد رحیم، رجمہ اللہ اور مطیع اللہ کے نام سے ہوئی تھی۔

مزید پڑھیں: چار لڑکوں کی ہلاکت کا معاملہ: حکومت اور جانی خیل قبیلے کے مابین مذاکرات کامیاب

متوفی کے ایک رشتہ دار نے بتایا کہ لڑکے تقریباً 3 ہفتے قبل پرندوں کے شکار پر گئے تھے لیکن وہ اپنے گھر نہیں لوٹے۔

بعدازاں 29 مارچ کو خیبر پختونخوا حکومت اور مظاہرین کے درمیان مذاکرات کامیاب ہو گئے تھے اور جانی خیل قبیلے کے عمائدین نے دھرنے کے خاتمے اور شرکا کو گھر لوٹنے کی ہدایت کردی تھی۔

لاہور: جوہر ٹاؤن میں دھماکا، پولیس اہلکار سمیت 3 افراد جاں بحق

یونائیٹڈ کی شکست کی اصل وجوہات کیا رہیں؟

کشمیر میں اسی پارٹی کی حکومت کیوں بنتی ہے جس کی وفاق میں حکومت ہو؟