کیا آزاد کشمیر کے انتخابات میں مہاجرین کے نام پر 'بلیک میلنگ' ہوتی ہے؟
آزاد ریاست جموں کشمیر میں انتخابی میلہ 25 جولائی کو سجے گا۔ آئیے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ آزاد جموں و کشمیر میں انتخابی عمل کیسا ہے اور اس سے کون کتنا مطمئن ہے؟
آزاد جموں کشمیر کی قانون ساز اسمبلی 53 نشستوں پر مشتمل ہے، جن میں سے 45 نشستوں پر براہِ راست انتخابات ہوتے ہیں جبکہ خواتین کے لیے 5، ٹیکنوکریٹ، علماء مشائخ اور بیرونِ ملک کشمیریوں کے لیے ایک ایک نشست مخصوص ہے۔ جن نشستوں پر براہِ راست انتخابات ہوتے ہیں ان میں 12 نشستیں پاکستان میں مقیم ان مہاجرینِ جموں کشمیر کے لیے مختص ہیں جو 1947 میں ہجرت کرکے پاکستان آئے تھے۔
12 میں سے 6 نشستیں صوبہ جموں اور 6 صوبہ کشمیر کے مہاجرین کے لیے مختص ہیں۔ آزاد جموں کشمیر میں مہاجرین کی ان 12 نشستوں کے حوالے سے عوامی اور سیاسی سطح پر شدید تحفظات پائے جاتے ہیں۔ آزاد جموں کشمیر اسمبلی کے غیر جانبدارانہ اور شفاف انتخابات میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ بھی پاکستان میں مقیم مہاجرین کے ان 12 انتخابی حلقوں کو سمجھا جاتا ہے، اس کی بنیادی وجہ ان حلقوں میں آزاد جموں کشمیر الیکشن کمیشن اور انتظامیہ کی عملداری کا نہ ہونا ہے۔
آزاد جموں کشمیر الیکشن کمیشن کے مطابق آزاد جموں و کشمیر کے عام انتخابات 2021ء میں 32 لاکھ 20 ہزار 546 رائے دہندگان اپنی رائے سے نمائندے منتخب کرسکیں گے۔ ان میں سے پاکستان میں مقیم مہاجرین کے حلقوں میں ووٹرز کی تعداد 4 لاکھ 3 ہزار 456 ہے۔
اگر گزشتہ انتخابات یعنی 2016ء کا ذکر کریں تو اس وقت ووٹروں کی کُل تعداد 27 لاکھ 38 ہزار تھی، جن میں سے پاکستان میں مقیم مہاجرین کے ان حلقوں میں ووٹروں کی تعداد 4 لاکھ 64 ہزار کے لگ بھگ تھی۔ ان میں سے جموں کے حلقوں میں ووٹروں کی تعداد 4 لاکھ 30 ہزار کے لگ بھگ جبکہ وادئ کشمیر کے مہاجرین کے حلقوں میں ووٹروں کی تعداد 30 ہزار کے لگ بھگ بتائی گئی تھی۔ پاکستان میں مقیم کشمیری مہاجرین کے انتخابی حلقوں کی تقسیم انتہائی پیچیدہ ہے۔
کئی حلقوں میں 3 صوبوں کے علاقے شامل کیے گئے ہیں جہاں تک کسی بھی امیدوار کے لیے پہنچنا تو ناممکن ہوتا ہی ہے اس کے ساتھ وہاں کے انتخابی عمل کے طریقہ کار کا علم بھی نہیں ہوپاتا۔ الیکشن کمیشن آزاد جموں کشمیر ان حلقوں میں صرف بیلٹ پیپرز پہنچاتا ہے بقیہ انتخابی عمل مقامی انتظامیہ کی نگرانی میں ہوتا ہے اور پھر نتائج کا اعلان کردیا جاتا ہے۔
اس طرح آزاد حکومت اور آزاد جموں کشمیر الیکشن کمیشن کی عملداری نہ ہونے کے باعث وفاق سمیت صوبائی حکومتیں ان 12 نشستوں کے انتخابی عمل اور نتائج پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ ایک واضح مثال یہ ہے کہ جن دنوں کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کا عروج تھا اس وقت کراچی میں موجود ان نشستوں پر ایم کیو ایم کے امیدوار کامیاب ہوتے رہے حالانکہ آزاد جموں کشمیر میں ایم کیو ایم کا وجود تک نہیں تھا۔
بعدازاں جب کراچی سے ایم کیو ایم کا زور ٹوٹا تو ان نشستوں پر پیپلزپارٹی کے امیدواروں کی کامیابی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ کئی مرتبہ تو یہ 12 کی 12 نشستیں آزاد جموں کشمیر کی اس سیاسی جماعت کو ملتی رہی ہیں جس کی وفاق میں حکومت ہوتی یا وفاقی حکومت کی حمایت حاصل ہوتی تھی۔
وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے اس کردار کا براہِ راست اثر آزاد جموں کشمیر کی حکومت سازی پر پڑتا ہے، اسی بنیاد پر ایک عمومی تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ آزاد جموں کشمیر میں اس سیاسی جماعت کی حکومت بنتی ہے جو وفاق میں برسرِ اقتدار ہو۔ اگر آزاد کشمیر میں اس سیاسی جماعت کو حکومت بنانے کے لیے مطلوبہ تعداد میں نشستیں نہیں ملتیں تو مہاجرین کی نشستوں کے ذریعے تعداد پوری کردی جاتی ہے۔
آزاد جموں و کشمیر اسمبلی اور اس میں موجود یہ نشستیں آزاد جموں کشمیر کے عبوری آئین (ایکٹ 74) کے ذریعے وجود میں آئیں اور ان کو آزاد جموں کشمیر میں ہونے والی قانون سازی میں رائے دہی کا اختیار حاصل ہوا۔ ان نشستوں کو علامتی حیثیت کے لیے شامل کیا گیا تھا تاکہ یہ واضح کیا جاسکے کہ اس اسمبلی میں بھارتی مقبوضہ جموں کشمیر کے عوام کی نمائندگی پاکستان میں مقیم مہاجرین کی صورت موجود رہے اور آزاد حکومت کو ریاست جموں کشمیر کی نمائندہ حکومت کہا جاسکے۔ جس حکومت کا اعلان 24 اکتوبر 1947 کو آزاد حکومت کے قیام کے موقع پر کیا گیا تھا۔
یعنی باغی حکومت (آزاد حکومت) ریاستِ جموں کشمیر میں بسنے والی تمام قومیتوں اور مذاہب کے افراد کی نمائندہ ہوگی اور ریاست جموں کشمیر کے دیگر علاقوں کی آزادی کے بعد نہ صرف تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے ریاست کے باسیوں کو مناسب نمائندگی دی جائے گی بلکہ عوامی ریفرنڈم کے ذریعے ریاست کے مستقبل کا فیصلہ بھی کیا جائے گا۔
تاہم 1949ء میں پاکستان اور آزاد حکومت کے درمیان ہونے والے 'معاہدہ کراچی' اور بعدازاں 'ایکٹ 74' اور اس میں ہونے والی مختلف ترامیم، بالخصوص 13ویں ترمیم کے بعد اس حکومت کی حیثیت محض آزاد کشمیر کے علاقوں میں بسنے والے شہریوں کی نمائندگی تک محدود رہ چکی ہے۔ کیونکہ معاہدہ کراچی کے بعد آزاد ریاست جموں کشمیر کی حکومت کی حیثیت محض ایک لوکل اتھارٹی کی ہے جس کے پاس بلدیاتی طرز کے اختیارات ہیں اور اس کا دائرہ کار آزاد ریاست جموں کشمیر تک محدود ہے۔