پی ایس ایل سیزن 6: اسلام آباد کا سفر تمام زلمی کی فائنل تک رسائی
اسلام آباد یونائیٹڈ کی ٹیم مسلسل 5 میچ جیتی تو لگ رہا تھا جیسے ٹورنامنٹ ان کا ہی ہے۔ ان کے بیٹسمین کچھ اس طرح سے بیٹنگ کررہے تھے جیسے وہ باقی ٹیموں سے مختلف وکٹوں پر کھیل رہے ہوں۔ لیکن جیسے ہی پلے آف مرحلہ شروع ہوا، سب کچھ بدل گیا۔
پہلے ملتان سلطانز اور پھر پشاور زلمی کے ہاتھوں شکستوں نے اسلام آباد یونائیٹڈ کا تیسری بار ٹائٹل جیتنے کا خواب پورا نہ ہونے دیا۔
پشاور کے خلاف میچ کا آغاز ٹھرڈ امپائر کے ایک غلط فیصلے سے ہوا، جب کالن منرو کا لگایا ہوا شاٹ نان اسٹرائیکر اینڈ پر وکٹوں سے جا لگا۔ شعیب ملک کی رن آؤٹ کی اپیل پر ٹی وی امپائر نے اسے آؤٹ تو قرار دے دیا لیکن یہ کہیں سے نہیں لگا کہ گیند شعیب ملک کے بوٹ کو لگ کر وکٹوں کو لگی تھی۔ عثمان خواجہ جو بہترین فارم میں تھے شاید اس میچ میں بدقسمت رہے۔
مزید پڑھیے: پی ایس ایل سیزن 6: سلطان فائنل میں لیکن کنگز باہر ہوگئے
پلے آف مقابلوں سے پہلے یونائیٹڈ کی فتح کا سبب ان کی بیٹنگ ہوتی تھی لیکن ان آخری دونوں مقابلوں میں شکست کی وجہ اسی بیٹنگ کی ناکامی رہی۔ پشاور زلمی کے خلاف اگر حسن علی اچانک مدد کے لیے نہ آتے تو شاید یونائیٹڈ 125 رنز تک بھی نہ پہنچ پاتے۔
حسن علی نے چھکوں چوکوں سے بھرپور ایک دھواں دار اننگ تو ضرور کھیلی اور محمد وسیم جونیئر نے ان کا پورا ساتھ دے کر اسلام آباد یونائیٹڈ کو ایک بہتر اسکور تک پہنچا بھی دیا لیکن یہ میچ کا نتیجہ نہ بدل سکے۔
حسن علی اس سیزن میں سینٹرل پنجاب اور قومی ٹیم کی طرف سے کچھ بہترین اننگز کھیل چکے ہیں تاہم اسلام آباد یونائیٹڈ کو ضرورت تھی کہ اس بہترین بیٹنگ کے بعد حسن علی وکٹیں بھی حاصل کریں لیکن نہ حسن علی اس میں کامیاب ہوسکے اور نہ ہی ان کا کوئی ساتھی باؤلر۔ یوں پشاور زلمی نے یہ میچ نہایت آسانی سے جیت لیا۔
اسلام آباد یونائیٹڈ کی ٹیم جہاں بہت اچھی منصوبہ بندی سے کھیلتی رہی ہے وہیں شاید وکٹ کیپر کے انتخاب میں ان سے غلطی ہوگئی۔ کراچی میں کھیلے جانے والے میچوں میں فل سالٹ اسلام آباد یونائیٹڈ کے وکٹ کیپر تھے لیکن ابوظہبی میں ہونے والے میچوں کے لیے وہ دستیاب نہیں تھے۔ روحیل نذیر کو چند میچوں میں آزمانے کے بعد وکٹ کیپنگ کے فرائض محمد اخلاق کو سونپ دیے گئے، مگر یہ بات سمجھ سے باہر رہی کہ اتنی لمبی بیٹنگ لائن کے باوجود اخلاق کو ون ڈاؤن کیوں کھلایا گیا۔
اخلاق ایک عمدہ بیٹسمین ضرور ہیں لیکن وہ اس سے پہلے ہونے والے پاکستان کپ میں بھی کسی خاص فارم میں نہیں تھے۔ اگر ان کی جگہ ان فارم آصف علی کو بھیجا جاتا تو شاید بیٹنگ پاور پلے کا بھرپور فائدہ اٹھایا جاسکتا تھا اگرچہ بعد میں آصف علی بھی کسی خاص کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرسکے۔
اسلام آباد یونائیٹڈ کی شکست میں جہاں ان کی بیٹنگ کا اہم کردار تھا وہیں کپتان شاداب خان کی باؤلنگ فارم بھی ایک اہم مسئلہ بنی رہی۔ اپنا پہلا ہی پی ایس ایل میچ کھیلنے والے جوناتھن ویلز اور حضرت اللہ زازائی نے شاداب خان کی باؤلنگ کی دھجیاں اڑا کر رکھ دیں۔ لیگ اسپنر اکثر مہنگے ثابت ہوتے ہیں لیکن وکٹیں حاصل کرتے ہوئے میچ ونر بھی بنتے ہیں۔ شاداب خان مہنگی باؤلنگ تو کرتے رہے لیکن وکٹیں حاصل نہ کر پائے۔
اسلام آباد یونائیٹڈ کی اننگ میں ایک اور دلچسپ واقعہ اس وقت پیش آیا جب محمد عرفان اپنا اسپیل مکمل کروانے کے بعد میدان سے باہر چلے گئے۔ اگرچہ اس وقت میدان کے باہر عرفان خاصے ان فٹ نظر آرہے تھے اور فزیو ان پر مکمل توجہ دے رہے تھے لیکن امپائرز کو محمد عرفان کا باہر جانا شاید پشاور زلمی کی چالاکی لگا تاکہ عرفان کی جگہ کسی تگڑے فیلڈر کی خدمات حاصل کی جاسکیں۔ یہ سلسلہ کافی دیر چلتا رہا اور اس دوران پشاور زلمی کے 12ویں کھلاڑی حیدر علی کو امپائر علیم ڈار نے میدان سے باہر جانے کے لیے کہہ دیا۔
مزید پڑھیے: پی ایس ایل سیزن 6 میں چھکوں، چوکوں اور ریکارڈز کا دن
اس دوران کئی بار کھیل روکا گیا اور پھر پشاور زلمی 2 اوورز تک 10 فیلڈرز کے ساتھ میدان میں موجود رہی۔ امپائرز یہ بات یقینی بنانا چاہتے تھے کہ عرفان کی انجری حقیقی ہے اور ڈاکٹرز کی جانب سے یقین دہانی پر ہی پشاور زلمی کو 12ویں کھلاڑی میدان میں اتارنے کی اجازت دی گئی، لیکن اس بار وہ حیدر علی نہیں بلکہ خالد عثمان تھے کیونکہ امپائرز کے خیال میں حیدر علی کے بجائے خالد عثمان محمد عرفان کے درست متبادل تھے۔
پشاور زلمی نے حیدر علی اور امام الحق کے ناکام ہونے کے بعد اس بار جوناتھن ویلز کو موقع دینے کا فیصلہ کیا اور ویلز نے حضرت اللہ زازائی کے ساتھ ایک شاندار پارٹنرشپ قائم کرکے نہ صرف اپنے انتخاب کو درست ثابت کیا بلکہ پشاور زلمی کو فتح کے قریب بھی پہنچا دیا۔
پشاور زلمی کی ٹیم 2 دن میں 2 ایلیمینیٹر میچ جیت چکی ہے اور دونوں میں انہوں نے ایک مناسب ہدف کا تعاقب بہترین انداز سے کیا ہے خاص طور پر اسلام آباد یونائیٹڈ کے پاس تو زلمی کے حملوں کا کوئی جواب ہی نہیں تھا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ فائنل میں ملتان سلطانز کا مقابلہ زلمی کیسے کرتے ہیں۔
ایم بی اے مارکیٹنگ کرنے کے بعد نوکری سیلز کے شعبے میں کررہا ہوں۔ کرکٹ دیکھنے اور کھیلنے کا بچپن سے جنون تھا ۔ پڑھنے کا بچپن سے شوق ہےاور اسی شوق نے لکھنے کا حوصلہ بھی دیا۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔