پاکستان

'خواتین کے خلاف جرائم سے متعلق قوانین بہت نرم ہیں'

قانون میں ترمیم کی ضرورت ہے، خواتین اور بچوں کو ہراساں کرنے کی سزا کم سے کم 3 سال ہونی چاہیے، اے ایس پی آمنہ بیگ

اسلام آباد کے جینڈر پروٹیکشن یونٹ (صنف تحفظ یونٹ) کو اپنے آغاز کے محض ایک ماہ کے دوران خواتین کی جانب سے 131 شکایت وصول ہوئی جن میں 81 فیصد پر کارروائی شروع کی جاچکی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یونٹ کی انچارج اے ایس پی آمنہ بیگ نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا کہ خواتین کے خلاف جرائم سے متعلق موجودہ قوانین بہت نرم ہیں۔

مزید پڑھیں: خواتین پر گھریلو تشدد کے خاتمے کی مہم ’رکو اور روکو‘

اے ایس پی نے کہا کہ جب تک کہ مجرموں کو سزا نہیں دی جاتی خواتین کو ہراساں کرنے کے کیسز نہ صرف جاری رہیں گے بلکہ ان میں اضافہ بھی ہوگا۔

پائیدار سماجی ترقی تنظیم (ایس ایس ڈی او) کے زیر اہتمام 'خواتین کو ہراساں کرنے پر قابو پانے میں پولیس کے کردار' کے عنوان سے سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔

اسلام آباد پولیس نے 21 مئی کو ہیلپ لائن نمبر 8090 پر مشتمل صنف تحفظ یونٹ قائم کیا تھا جس کا مقصد جنسی ہراسانی کے شکار افراد کی مدد کرنا ہے۔

اے ایس پی آمنہ بیگ نے کہا کہ قانون میں ترمیم کرنے کی ضرورت ہے جبکہ خواتین اور بچوں کو ہراساں کرنے کی سزا کم سے کم 3 سال ہونی چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس: خواتین پر تشدد، کم عمر میں شادیوں و جنسی جرائم میں اضافے کا خدشہ

انہوں نے کام کے مقامات پر خواتین کو ہراساں کرنے کے بڑھتے ہوئے واقعات کے سدباب کے لیے فوجداری انصاف کے نظام میں مناسب قانون پیش کرکے پولیس کو بااختیار بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔

انہوں نے کہا کہ ہراساں کرنے کے معاملے میں ملزم گرفتاری کے بعد ہی ضمانت پر رہا ہوجاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بیشتر مقدمات میں ملزمان کو گرفتار کیا گیا لیکن مسئلہ یہ تھا کہ انہیں 24 گھنٹوں کے اندر ضمانت پر رہا کردیا گیا۔

اس موقع پر موجود افسران کا کہنا تھا کہ پولیس کا بنیادی مقصد شاہراؤں پر خواتین سمیت شہریوں کی تحفظ فراہم کرنا ہے۔

اے آئی جی اسلام آباد ڈاکٹر نوید عاطف نے زور دے کر کہا کہ محکمہ پولیس سے متعلق قوانین کی تشکیل میں سینئر پولیس افسران کو بھی شامل ہونا چاہیے۔

مزید پڑھیں: لاک ڈاؤن کے دوران عرب ممالک میں خواتین پر تشدد میں اضافہ ہوا، اقوام متحدہ

انہوں نے کہا کہ کارکے مقامات پر خواتین کو ہراساں کرنا ایک سنگین مسئلہ ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ اس میں اضافہ ہوتا جارہا ہے لہذا اس مسئلے پر قابو پانا بہت ضروری ہے۔

ایس ایس ڈی او کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سید کوثر عباس نے کہا کہ پارلیمنٹیرینز کو متعلقہ قانون سازی میں پولیس افسران کو شامل کرنا چاہیے تاکہ خواتین کو ہراساں کرنے والوں کو کڑی سزا دی جائے۔

محکمہ کے افسران کی رائے کے بعد ایس ایس ڈی او نے پولیس اصلاحات سے متعلق کچھ تجاویز پیش کیں۔

'امریکا کو اڈے دینے سے پاکستان دوبارہ دہشتگردوں کا ہدف بن سکتا ہے'

مصر: فحاشی پھیلانے، انسانی اسمگلنگ کے الزامات میں 5 ٹک ٹاکرز کو قید کی سزا

سابقہ حکومتوں کے قرضوں کے باعث دفاعی بجٹ میں اضافہ نہیں کرسکے، فواد چوہدری