قومی توانائی پالیسی 2021 کی منظوری دی دے ہے، حماد اظہر
وفاقی وزیر برائے توانائی حماد اظہر نے کہا ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل نے قومی توانائی پالیسی 2021 کی منظوری دے دی ہے۔
اسلام آباد میں وزیراعظم کے معاون خصوصی وقار مسعود کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر توانائی حماد اظہر نے کہا کہ وزیراعظم عمران کی زیر صدارت مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس ہوا جہاں متفقہ طور پر قومی توانائی پالیسی کی منظوری دے دی گئی۔
مزید پڑھیں: شرح نمو حقیقی ہے، بحرانوں اور خساروں پر نہیں کھڑی، حماد اظہر
انہوں نے کہا کہ ماضی میں ہم نے دیکھا کہ ماضی میں توانائی کے شعبے میں صلاحیت میں توسیع کی گئی وہ کسی منطق اور کسی منصوبے کے بغیر کی گئی اور یہ نہیں دیکھا گیا کہ ہماری بجلی کس ایندھن کی بنیاد پر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بجلی کا اکثر انتظام درآمدی ایندھن پر کیا گیا اور اس کی لاجسٹکس کورونا جیسے حالات میں ٹیرف میں مشکلات کھڑی کردیتی ہے۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ نہ یہ دیکھا گیا کہ کس سال کتنی کھپت ہوگی اور سارے منصوبے ایک ساتھ ملا دیے گئے اور یہ بھی نہیں دیکھا گیا کہ یہ منصوبے کہاں لگائے جارہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اب اس پالیسی کے تحت سارے صوبوں کے ساتھ مل کر تمام اصول وضع کیے گئے ہیں کہ شفاف طریقے سے، کم قیمت کی بنیاد پر کھلے عام ٹینڈر کے ذریعے منصوبے منظور یا مسترد کردیے جائیں گے اور یہ پاور منصوبے میں شامل ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ اسی پالیسی کے اندر قابل تجدید توانائی خصوصی اہداف موجود ہیں، اس میں ہائیڈرل منصوبے، طویل مدتی منصوبے بھی شامل ہوں گے کیونکہ ماضی میں ہم نے ایک کمی دیکھی کہ طویل مدتی معاملات نہیں دیکھے گئے۔
حماد اظہر کا کہنا تھا کہ ماضی میں دیکھا گیا کہ اگلے سال بجلی چاہیے، جس مرضی قیمت اور جس مرضی ایندھن پر بجلی ہو لیکن اب یہ 10 کی پالیسی ہے تو اس میں ہم نے مقامی ایندھن بنانے کی پالیسی وضع کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کے اندر شفافیت کا کردار بھی ہے، اب ایسے نہیں کہ کوئی آئے گا اور آپ کو ڈالر انڈیکس ریٹرنز کی بنیاد پر ٹیرف ہاتھ میں پکڑا دے گا، جی ٹو جی انتظامات ضمانت جیسے پہلو نہیں ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب آزاد مسابقتی پراسیس کے ذریعے نجی سرمایہ کاروں کو موقع دیا جائے گا، اسی طرح جی ٹو جی کے لیے علیحدہ سیکشن رکھا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سینے پر لگے کرپشن کے داغ انگریزی بولنے سے صاف نہیں ہوں گے، حماد اظہر
وزیر توانائی نے کہا کہ پالیسی کے ایک، ایک لفظ پر تفصیلی بات کی گئی اور مشترکہ مفادات کونسل کے 4 اجلاس صرف اس معاملے پر ہوئے، 100 سے زائد اجلاس صوبوں، مختلف اسٹیک ہولڈرز اور مختلف شعبوں کے ساتھ پچھلے دو ماہ کے دوران ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ اب اس پالیسی کے نیچے میں 10 سے 12 ذیلی پالیسیاں بنیں گی اور وہ ایک قومی بجلی منصوبے کا حصہ بن جائے گی اور اس منصوبے کو ایک کمپیوٹر ماڈل کے ذریعے بنایا جائے گا جب مشترکہ مفادات کونسل اس کی منظوری دے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس پالیسی پر 2005 سے حکومتوں کی خواہشات تھیں لیکن نہیں لائی گئیں، اس کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں لیکن آج تاریخی موقع ہے کہ ہم ایک قومی بجلی پالیسی بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس کے اثرات درحقیقت 5 یا 10 سال بعد نظر آئیں گے جب ہماری آنے والی نسل کو سستی اور ماحول دوست بجلی ملے گی۔
حماد اظہر نے کہا کہ اس وقت ہمارا سب سے بڑا مسئلہ بجلی کی پیداوار نہیں ہے بلکہ مالی مسئلہ بن چکا ہے، ہم نے مہنگے ایندھن پر مہنگے معاہدے کیے تو اب ان پر بجلی گھروں کو 800 ارب یا 1500 ارب سالانہ دینے میں دقت آتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ دوسرا بڑا مسئلہ ٹرانسمیشن کا ہے کہ آپ بجلی گھر جتنے مرضی بنائیں لیکن آپ کے 24 ہزار میگاواٹ کی ترسیل کی صلاحیت نہیں ہے، البتہ پچھلے 2 سال میں ترسیل 4 ہزار زیادہ کردی گئی ہے، جو 20 ہزار تھی اب 24 ہزار ہوگئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ابھی اس میں مزید 10 ہزار میگاواٹ طلب موجود ہے اور اس سال ہم نے ریکارڈ فنڈز رکھے ہیں جو ترسیل میں جائیں گے جو پچھلے تین سال کے مجموعی فنڈز سے زیادہ ہیں۔
وفاقی وزیر توانائی نے کہا کہ توانائی کے شعبے کی مشکل تو بہت بڑی ہے، ایک طرف گردشی قرضے ہیں، ایک طرف ترسیل کا فرسودہ نظام ہے لیکن جہاں ہم روزانہ کی بنیاد پر ان مسائل پر قابو پا رہے ہیں وہیں مستقبل کے لیے منصوبہ بندی کے تحت بجلی کی پیداوار، ترسیل اور ٹیرف کو ٹھیک سمت میں لے چلیں گے۔
حماد اظہر نے کہا کہ اس پالیسی میں جو اصول طے ہوگئے ہیں، ان اصولوں کی بنیاد پر ایک جامع منصوبہ بنایا جائے گا جو اس سے بھی زیادہ ایک جامع دستاویز ہوگی، جس کے اندر زیادہ تفصیل ہوگی۔