کیرتھر نیشنل پارک: جنگلی حیات کا مسکن
کورونا وائرس کی پابندیوں اور شہر سے باہر جانے والی پروازوں میں کمی کے باعث سیر و سیاحت ماضی کی کسی لگژری سے کم محسوس نہیں ہوتی، ایسے میں ہم چھٹیاں منانے والوں کے لیے چند ایک آپشن ہی رہ جاتے ہیں۔
کچھ دن پہلے کراچی والوں کے لیے تو ساحلوں تک رسائی بھی محال تھی۔ لاک ڈاؤن میں کتابیں اور فلمیں ایک حد تک تو ساتھ نبھا سکتی ہیں لیکن ہر کچھ وقت بعد بھٹکتی روح میں فطرت کی تنہائیوں میں شریک ہونے کی تمنا جاگ اٹھتی ہے۔
ہم میں سے بہت سوں کو تو کراچی کے گرد و نواح میں واقع ان مقامات کی آگاہی ہی نہیں ہے جو دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ مگر مسافر کا متجسس ذہن ہمیشہ نئے مقامات کی تلاش میں رہتا ہے اور موجودہ حالات میں محفوظ متبادل بھی ڈھونڈتا ہے۔
اگر آپ میری طرح پرندوں میں دلچسپی رکھتے ہیں تو پھر آپ پرندوں کے نظاروں اور ہجرتی و رہائشی نسلوں کو دستاویزی صورت دینے کے لیے ضرور صحیح موسم اور مقام کا انتظار کرتے ہوں گے۔ ہم جیسے طائر بینوں کو پردیسی پرندوں کے لوٹنے کی جب بھنک پڑتی ہے تو ہم فوراً سفر کی تیاریاں شروع کردیتے ہیں۔
اس بار ہماری منزل کیرتھر نیشنل پارک تھی۔ طے شدہ سفری منصوبے پر سختی سے عمل لازمی قرار پایا۔ سفر کا آغاز صبح سویرے ہی ہوگیا تھا۔ علی الصبح پارک میں موجود پرندوں کی نسلوں کو کیمرے کی آنکھ میں قید کرنے کے لیے ہم صبح 4 بج کر 30 منٹ پر ہی نکل پڑے۔ درجہ حرارت میں اضافے کے باوجود سفر کافی حد تک توقعات پر پورا اترا۔
کیرتھر نیشنل پارک پاکستان کے بڑے نیشنل پارکس میں شمار ہوتا ہے۔ 3 ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلے اس علاقے کو 1972ء میں جنگلی حیات کی پناہ گاہ قرار دیا گیا تھا۔ بعدازاں 1974ء میں کافی سوچ بچار اور بیوروکریٹ وہاج الدین احمد کرمانی کی کوششوں کے نتیجے میں اسے نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا۔ وہاج الدین احمد کرمانی نے سندھ کے محکمہ جنگلی حیات کو بھی قائم کیا تھا۔
یہ پاکستان کا وہ پہلا پارک ہے جسے اقوامِ متحدہ کی مرتب کردہ دنیا کے نیشنل پارکس کی فہرست میں شمار کیا گیا تھا۔ علاوہ ازیں یہ صوبہ سندھ کا واحد نیشنل پارک ہے، جبکہ قراقرم اور دیوسائی کے بعد ملک کا تیسرا سب سے بڑا نیشنل پارک ہے۔
کراچی سے چند گھنٹوں کی مسافت پر واقع کیرتھر نیشنل پارک شہر کے شمال میں واقع حب ڈیم سے جامشورو کے علاقے رنی کوٹ تک پھیلا ہوا ہے۔ جنگلی حیات کی یہ آماجگاہ شہر کے ان قریب ترین مقامات میں سے ایک ہے جہاں فطرت کے دلچسپ اور منفرد نظاروں کو قریب سے دیکھا جاسکتا ہے۔ دنگ کردینے والی وسیع چٹانی زمین بھی اس پارک کا خاصا ہے اور پارک کا نام بھی ایک معروف پہاڑ سے منسوب ہے۔
کیرتھر پہاڑ کراچی سے 160 کلومیٹر دُور ہے جو اس علاقے کی بلند ترین پہاڑی چوٹی ہے۔ اس چوٹی تک پہنچنے کے لیے قابلِ بھروسہ فور بائے فور گاڑی (4x4) کا استعمال مناسب رہے گا۔ اگر آپ کرچٹ (Karchaat) کے بیس کیمپ سے کیرتھر جبل کی بلندیوں کو عبور کریں گے تو وہاں شاید آپ خود کو اکیلا پائیں، اس لیے اپنے ساتھ مناسب مقدار میں ایندھن اور کھانے پینے کی اشیا ضرور لے کر جائیں۔
'فطرت سے تسکین پانے کے لیے کیرتھر نیشنل پارک ایک بہترین مقام ہے۔ میرے لیے تو یہ بہشت کا ٹکڑا ہے جو انوکھے لینڈ اسکیپ، شاندار پہاڑوں اور منفرد جنگلی حیات کے نظارے بخشتا ہے'، یہ کہنا تھا احمر علی رضوی کا، جو جنگلی حیات سے گہری دلچسپی رکھتے ہیں اور انہوں نے جنگلی حیات پر مبنی بہت سی دستاویزی فلمیں بھی تیار کی ہیں۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ 'کیرتھر نیشنل پارک ایک نیشنل پارک اور پناہ گاہ ہونے کے ناطے پرندوں، جانوروں اور رینگنے والے جانداروں کی چند منفرد نسلوں کا قدرے محفوظ ٹھکانہ ہے۔ مجھے سندھ آئی بیکس (پہاڑی بکری) کو دیکھنے کی چاہ یہاں بار بار کھینچ لاتی ہے'۔
برسات کے بعد جب سبزہ فطرت کے خزانے سے بھرپور اس لینڈاسکیپ پر سبز رنگ بھرتا ہے تب یہ مقام واقعی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ ویسے تو اس پہاڑی سلسلے میں انواع اقسام کے ممالیہ جانور اور پرندوں کو دیکھا جاسکتا ہے لیکن یہاں آنے والوں کی نظریں اکثر آئی بیکس یا جنگلی بکری کو تلاش کرتی ہیں۔ جنگلی بکری تنگ چٹانی وادیوں پر بھی باآسانی چڑھ جاتی ہے۔ مگر پانی کی تلاش اسے ہر تھوڑی دیر بعد نیچے آنے پر مجبور کردیتی ہے اور نچلی پہاڑی پر اسے جھنڈ کے ساتھ دیکھا جاسکتا ہے۔
اس چٹانی علاقے میں آپ چنکاروں، بلیک بکس اور سخت جان، لمبی ٹانگوں اور بڑے گھنگرالے سینگوں والی سرخی مائل جنگلی بھیڑ کو بھی دیکھ سکتے ہیں۔ زمینی سطح پر کھڑے چیکو کے بہت سے درخت قریبی فارموں کے گرد چھتری جیسی چھاؤں دیتے ہیں اور ان درختوں کے بیچ بڑی تعداد میں جنگلی مور، گیدڑ، سرخ لومڑیاں اور سفید پیر والی لومڑیاں دکھائی دے جاتی ہیں۔
کیرتھر کی حدود میں (کراچی سے تقریباً 70 کلومیٹر دُور) گری جبل نامی ایک مقام واقع ہے۔ وہاں پہنچنا کسی چیلنج سے کم نہیں لہٰذا فور بائے فور گاڑی ہی تجویز کی جاتی ہے اور ہاں ہوش ربا نظاروں اور طائر بینی کے لیے طلوع آفتاب سے پہلے ہی نکلنا ٹھیک رہے گا۔
اس علاقے تک رسائی کے لیے سندھ کے محکمہ جنگلی حیات سے اجازت لینا بھی مت بھولیے گا، کیونکہ یہ انہی کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔ میرا مشورہ ہے کہ وہاں ایک مقامی گائیڈ کو بھی اپنے ساتھ رکھیں۔
جنگلی حیات کو تصویر میں قید کرنے اور طائر بینی کے لیے غیر معمولی توجہ، بہتر مشاہداتی صلاحیتیں اور صبر و تحمل کا پیکر بننا پڑتا ہے، جو ہر کسی کے بس کی بات نہیں لیکن بہرحال اس کا پھل ضرور ملتا ہے۔ اس مقصد کے لیے آپ کو پودوں کے درمیان خود کو چھپا کر بے حرکت بیٹھنا ہوتا ہے لہٰذا وہاں نیوٹرل رنگوں کے ملبوسات پہن کر جائیں۔ وہاں مکمل خاموشی اختیار کرنا ضروری ہے تاکہ جنگلی حیات کو آپ کی موجودگی کا احساس نہ ہو۔
یہاں طائر بینوں کے لیے فطرت کا پوشیدہ خزانہ بکھرا ہوا ہے، کیونکہ یہاں آپ حشرات خور لیکٹینسٹین بھٹ تیتر کو بھی دیکھ سکتے ہیں جو ایک نایاب پرندہ ہے اور اپنے خاکی پنکھ کی وجہ سے زمین کے رنگوں میں اس طرح گھل مل جاتا ہے کہ ظاہری طور پر نظر ہی نہیں آتا۔ بہت کم ایسے لوگ ہوتے ہیں جو کیرتھر کی زمین پر انہیں ڈھونڈ کر ان کا عکس قید کرلیتے ہیں۔
درمیانی سائز کے جسم پر لکیروں کے واضح نشانات رکھنے اور میٹھی بولی بولنے والے سرمئی تیتروں کی ایک بڑی تعداد کو خشک گھاس کے میدان پر جھنڈ کی صورت میں دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ وسیع زمین چرخ جیسے شب بیدار جانوروں کا بھی گھر ہے اور ممکن ہے کہ رات کو سڑک سے نیچے چلتی گاڑی کی فوگ لائٹ کی مدد سے آپ لیپوریڈی نسل کے بلیک نیپڈ خرگوش کو بھی دیکھ لیں۔ اگر یہاں خیمے میں شب بسری کا موقع ملے تو بھیڑیوں کی چیخ و پکار یقیناً آپ کے رونگھٹے کھڑے کردے گی۔ یہ بھی اسی علاقے کے باسی ہیں۔ یہاں چند تیندوؤں کو بھی دیکھا گیا ہے، آخری بار 2019ء میں ایک تیندوے کو دیکھا گیا تھا۔
کسی وقت میں پارک کی پہاڑیوں پر ہلکے بھورے اور سرمئی رنگ کے گِدھوں کی بہتات تھی لیکن اب یہاں چند ایک ہی پرواز بھرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ماضی میں جہاں جہاں پولٹری فارمز والے مردہ مرغیاں پھینک آتے وہاں وہاں گِدھ موجود ہوتے۔
یہ پارک فطری اور قومی خزانے کی حیثیت رکھتا ہے مگر اس وقت اسے تجاوزات اور وسائل کے فقدان جیسے متعدد خطرات کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ سبزے کی کمی اور حد سے زیادہ خشکی نے جنگلی حیات کے لیے خطرہ پیدا کردیا ہے۔
دوسری طرف گرد و نواح رہائش پذیر لوگ پینے لائق پانی، بجلی اور صحت جیسی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں جس کی وجہ سے انہیں شہری علاقوں کا رخ کرنا پڑتا ہے۔
علاقے کے موسمی حالات صوبے کے دیگر علاقوں سے مختلف نہیں ہیں مگر کیرتھر گرمیوں کے دوران تھوڑا زیادہ گرم اور سردیوں میں تھوڑا زیادہ ٹھنڈا محسوس ہوسکتا ہے۔ مون سون کے بعد یہاں ہر طرف سبزہ اگ آتا ہے اور پھول کھل اٹھتے ہیں یوں پارک کا نظارہ مزید پُرکشش ہوجاتا ہے۔
اگرچہ کیرتھر نیشنل پارک بدلتے موسم کے حساب سے مختلف حالات میں تبدیل ہوتا رہتا ہے، مگر آپ کو مشورہ ہے کہ اگست سے فروری کے درمیان وہاں جانے کا پروگرام بنائیں تاکہ شدید موسمی حالات سے بچا جاسکے اور نظاروں سے بھرپور لطف اٹھانے کا موقع ملے۔
خرم عاصم کلیمی انٹرپرینیور اور وائلڈ لائف فوٹوگرافر ہیں، وہ اکثر اپنی ہفتہ وار چھٹی گزارنے کے لیے اسی جگہ کا انتخاب کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ، 'اس طرح کے مقامات مراقبے اور خود کو کنکریٹ جنگل سے الگ کرنے کا بہترین موقع فراہم کرتے ہیں۔ وہاں ہم شہری آبادی کے شور سے دُور تازہ ہوا میں سانس لے سکتے ہیں اور خوبصورت پرندوں اور مختلف نسلوں کی جنگلی بکریوں کے ساتھ اس بیابان کے مفرد نظاروں سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔ ہمیں آنے والی نسلوں کے لیے اس طرح کے مقامات کو محفوظ بنانا چاہیے!'
یہ مضمون 20 جون 2021ء کو ڈان اخبار کے ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔
لکھاری بلاگر ہیں اور پینٹنگ، جنگلی حیات کی تصویریں لینے اور سفر کرنے کا شوق رکھتی ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔