دنیا نئے ایرانی صدر سے خائف کیوں ہے؟
امریکی پابندیوں کی فہرست میں شامل، سخت گیر مذہبی رہنما، موت کمیٹی سے جڑی بدنامی، اہل تشیع طبقے کے لیے اہم اور مقدس ترین ہستی کے روضے کے منتظم، حجۃ الاسلام کا درجہ رکھنے والے اور ملک کے چیف جسٹس، ابراہیم رئیسی ایرانی صدارتی الیکشن میں کامیاب ہوئے تو دنیا بھر کی توجہ کا مرکزبن گئے۔
ایران کے روایتی حریف اسرائیل کے وزیراعظم نفتالی بینٹ نے تو بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا کہ عالمی برادری نیند سے بیدار ہو اور دیکھے کہ وہ کس کے ساتھ معاملات کر رہی ہے، ایران میں بننے والی جلادوں کی حکومت کو جوہری ہتھیاروں تک رسائی نہیں ملنی چاہیے۔
آخر ابراہیم رئیسی کی شخصیت میں ایسا کیا ہے جس سے ان کے حریف اتنے خائف ہیں اور ان سے متعلق ایسی گفتگو کر رہے ہیں۔ دراصل ایران میں 1997ء سے اصلاح پسندوں اور قدامت پسندوں کے درمیان انتظامی اور قانون سازی کے اختیارات کے لیے شروع ہونے والی کشمکش اس الیکشن میں قدامت پسندوں کے مکمل کنٹرول پر منتج ہوئی ہے جس سے ایران کے اندر اور باہر بے چینی پائی جاتی ہے۔
ایران میں طاقت کی کشمکش کے اس دور میں سابق صدر خاتمی کی اصلاح پسند حکومت نے بڑے بڑے وعدے کیے لیکن عملی طور پر زیادہ کچھ نہیں کرپائی تھی۔ صدر خاتمی نے ایرانی معاشرے میں ثقافتی گھٹن کو قدرے کم کیا تھا لیکن ان کی حکومت کے ختم ہونے کے ساتھ ہی ان کی یہ کامیابی بھی رول بیک ہوگئی تھی۔
2005ء میں احمدی نژاد کی صدارتی الیکشن میں کامیابی کے ساتھ قدامت پسندوں نے ایران کو دوبارہ انقلابی راستے پر ڈالنے کی کوشش کی لیکن دوسری مدت صدارت میں احمدی نژاد کی ایرانی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہی لڑائی ہوگئی اور متنازع الیکشن کے نتیجے میں ایرانی عوام سڑکوں پر نکل آئے۔
2013ء میں صدر روحانی کا اقتدار میں آنا اصلاح پسندوں اور ریاست کے پرانے ٹیکنوکریٹ اشرافیہ کے درمیان اتحاد کا نتیجہ تھا اور اس اتحاد کی سرپرستی سابق صدر رفسنجانی نے کی تھی۔
صدر روحانی کی حکومت نے پچھلی اصلاح پسند حکومتوں کی طرح بڑے بڑے وعدے کیے لیکن عملی طور پر زیادہ کچھ کر نہیں پائے بلکہ کمزور اور درمیانی طبقات معاشی طور پر زیادہ متاثر ہوئے۔ امریکی پابندیوں کے ساتھ ساتھ بُری گورننس نے ایرانیوں کا یہ حال کیا کہ تیل کی قیمتیں بڑھنے پر نومبر 2019ء میں پُرتشدد مظاہرے ہوئے اور نیم فوجی دستوں نے مظاہرین پر گولی چلائی، جس کے نتیجے میں ڈیڑھ ہزار افراد کے مرنے کی رپورٹس منظرِ عام پر آئیں۔
ابراہیم رئیسی کا صدر بننا ایران کے قدامت پسندوں کی نہ صرف بڑی فتح ہے بلکہ لگتا ہے کہ اصلاح پسند اب پہلے جیسی مزاحمت کے قابل بھی نہیں رہے، یہی وہ خدشہ ہے جس پر ایران کے اندر اور باہر بے چینی پائی جاتی ہے۔
ایران کے صدارتی انتخابات میں اس بار قدامت پسندوں کا زور ابتدائی نامزدگیوں سے ہی ظاہر ہوگیا تھا جب ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے ریٹائرڈ کمانڈروں کی نمایاں تعداد سامنے آئی تھی۔ شوریٰ نگہبان نے بھی اس بار اصلاح پسندوں کو الیکشن سے باہر رکھنے کی کوشش کو ڈھکا چھپا نہیں رکھا لیکن اصلاح پسندوں کو نااہل قرار دیتے ہوئے پاسدارانِ انقلاب کے امیدوار بھی نااہل قرار دیے گئے تاکہ تنقید کرنے والوں کو جواب دینے کا راستہ رکھا جاسکے۔
پاسدارانِ انقلاب کے امیدوار نااہل ہوئے یا پھر ابراہیم رئیسی کے حق میں دستبردار، اس طرح پولنگ سے پہلے ہی واضح تھا کہ ابراہیم رئیسی اگلے صدر ہیں۔ تاہم اس الیکشن میں ٹرن آؤٹ 49 فیصد سے کم رہا اور یوں عوام نے من پسند نتائج والے اس الیکشن میں عدم دلچسپی ظاہر کی۔ اس سے پہلے ایران کے صدارتی انتخابات میں ٹرن آؤٹ 60 فیصد سے زیادہ اور 77 فیصد تک رہنے کا ریکارڈ موجود ہے۔
ایرانی سپریم لیڈر کے قریبی ساتھی تصور کیے جانے والے ابراہیم رئیسی کون ہیں؟ اور ان کی ایران کے مستقبل کے منظرنامے میں کیا اہمیت ہے؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب مغربی دنیا میں پائی جانے والی بے چینی کو سمجھنے میں مدد دے سکتا ہے۔
1979ء کے انقلاب سے 4 سال پہلے، 15سالہ رئیسی نے اپنے آبائی شہر مشہد سے قم کا سفر کیا اور قم کے مشہور مدرسے میں داخلہ لیا۔ 1981ء میں ابراہیم رئیسی نے تعلیم چھوڑ کر ایرانی دارالحکومت کے نواحی قصبے کرج کا پراسیکیوٹر بننے کا فیصلہ کیا۔ 10 سال سے بھی کم عرصے میں ابراہیم رئیسی ایرانی عدلیہ میں اہم عہدوں پر ترقی پاتے چلے گئے اور ایران کی اس سیاسی و عدالتی کمیٹی کے رُکن بن گئے جو 'موت کمیٹی' کے نام سے مشہور ہوئی اور اس کمیٹی نے 1988ء میں سیاسی قیدیوں کو پھانسی کی سزائیں دیں۔
پھانسی پانے والوں میں زیادہ تر بائیں بازو کے کارکنان اور منحرف گروپ مجاہدین خلق (ایم ای کے) کے ارکان تھے۔ انسانی حقوق کے گروپوں کا اندازہ ہے کہ تب ایران میں قریباً 5 ہزار افراد کو پھانسی دی گئی تھی جبکہ مجاہدین خلق یہ تعداد 30 ہزار بتاتی ہے مگر اس نے آج تک اپنے دعوے کی تائید میں کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیے۔
اس کمیٹی کی طرف سے جس قدر تیزی سے سزائیں سنائی گئیں اور عدالتی عمل پر شبہات پیدا ہوئے، اس پر اس وقت کے ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ روح اللہ خامنہ ای کے نامزد جانشین مرحوم آیت اللہ حسین علی منتظری نے بھی اعتراضات اٹھائے۔ آیت اللہ منتظری کا ان پھانسیوں پر اعتراض دیگر عوامل کے ساتھ ان کو سپریم لیڈر کی نیابت سے ہٹانے کا سبب بنا۔ اسی سال ابراہیم رئیسی تہران کے پراسیکیوٹر مقرر ہوئے اور انہیں مرحوم آیت اللہ اکبر ہاشمی رفسنجانی نے ایک معتدل شخص قرار دیا تھا۔
ایران نے کبھی ان پھانسیوں کا مکمل اعتراف نہیں کیا اور خود رئیسی نے بھی اپنے خلاف اس ضمن میں الزامات پر کوئی بیان جاری نہیں کیا۔ 2019ء میں امریکا نے ابراہیم رئیسی پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے الزامات عائد کرتے ہوئے ان پر پابندیاں عائد کیں۔ امریکا نے یہ پابندیاں 1988ء میں دی گئی پھانسیوں کی بنیاد پر ہی عائد کیں۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ہفتے کے روز ایک بیان میں کہا تھا کہ رئیسی کے خلاف انسانیت کے خلاف جرائم کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔ ایمنسٹی کے سیکریٹری جنرل ایجنس کالامارڈ نے ایک بیان میں کہا کہ ’ابراہیم رئیسی اپنے خلاف قتل، لوگوں کو لاپتا کرنے اور انسانیت مخالف جرائم کی تحقیقات کے بجائے صدارت تک پہنچ گئے ہیں۔ یہ اس امر کی بھیانک یاددہانی ہے کہ ایران میں اعلیٰ عہدے داروں کا سزا سے بچ نکلنے کا دور دورہ ہے‘۔
1994ء میں ابراہیم رئیسی ایرانی عدلیہ کی نگرانی میں قائم جنرل انسپیکشن آفس کے سربراہ مقرر ہوئے۔ ابراہیم رئیسی کے بارے میں عام خیال ہے کہ وہ ایران کے موجودہ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے عقیدت مند ہیں اور ان کے حکم بجا لاتے ہیں لیکن ابراہیم رئیسی ایک زمانے میں سپریم لیڈر کے بیانات پر تنقید بھی کرتے رہے۔
1996ء میں ایرانی سپریم لیڈر نے صدر رفسنجانی کی حکومت میں کرپشن پر بیان دیا، جس کے بعد ابراہیم رئیسی نے رفسنجانی سے ملاقات کی اور اس موقعے پر کہا کہ ان کے دفتر کو بڑے پیمانے پر کرپشن کے کوئی شواہد یا شکایات نہیں ملیں۔ ابراہیم رئیسی نے یہیں بس نہیں کی بلکہ سپریم لیڈر کے بیان کو نقصان دہ بھی قرار دیا۔
ابراہیم رئیسی کو اگرچہ معتدل تصور کیا جاتا ہے اور وہ سپریم لیڈر کے بیانات پر بھی تنقید کرتے رہے لیکن ان کے بارے میں قریبی حلقوں کی رائے یہ ہے کہ ذاتی طور پر معتدل رئیسی اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں پر مکمل عمل پیرا رہے ہیں۔ اس کی مثال 2009ء کا انتخابی تنازع اور اس پر عدالتی کارروائی ہے۔ ابراہیم رئیسی نے ڈپٹی چیف جسٹس کی حیثیت سے مقدمہ سُنا تھا، 2 اصلاح پسند امیدواروں میر حسین موسوی اور مہدی کروبی نے احمدی نژاد کے حق میں الیکشن دھاندلی کا الزام لگایا تھا، جس پر ابراہیم رئیسی نے ان دونوں سائلین کو ’ناقابل معافی‘ گناہ پر جیل بھجوانے کی دھمکی دی تھی۔ 10 سال ڈپٹی چیف جسٹس رہنے والے ابراہیم رئیسی کو اس وقت کے چیف جسٹس آیت اللہ صادق املی لاریجانی نے تنزلی کرکے ملک کا اٹارنی جنرل مقرر کردیا تھا۔ اس تنزلی کا سبب دونوں کے درمیان سپریم لیڈر کی جانشینی کے لیے ہونے والی کشمکش بتائی جاتی رہی ہے۔
ابراہیم رئیسی کی قسمت ان کا ساتھ دیتی رہی اور اسٹیبلشمنٹ نے انہیں ملک کا صدر بنانے کے لیے تیار کرنا شروع کردیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ایران کے سپریم لیڈر ملک کے صدر کو تابع فرمان دیکھنا پسند کرتے ہیں اسی لیے اصلاح پسند صدر ان کے لیے قابلِ قبول نہیں ہوتا۔ احمدی نژاد کو بھی اسٹیبلشمنٹ نے صدر بنوایا تھا اور ان کے بارے میں خیال تھا کہ وہ تابع فرمان رہیں گے لیکن انہوں نے دوسری مدت صدارت میں نافرمانی شروع کردی۔ احمدی نژاد کا تجربہ سپریم لیڈر کے لیے ایک تلخ یاد بن گیا، اسی بنا پر سپریم لیڈر کی ٹیم نے ایسا فرد تلاش کرنا شروع کیا جس میں نافرمانی کے جراثیم صفر ہوں اور وہ عوام میں بھی منفی تاثر نہ رکھتا ہو، یوں نظرِ انتخاب ابراہیم رئیسی پر ٹِک گئی۔
ابراہیم رئیسی کو صدارت کے لیے تیار کرنا شروع کیا گیا اور اس مقصد کے لیے انہیں 2015ء میں آستان قدس رضوی کا سربراہ نامزد کیا گیا۔ یہ ادارہ اہلِ تشیع کے لیے مقدس ترین ہستی اور 8ویں امام علی رضا کے روضے کا منتظم ہے۔ آستان قدس رضوی ایران کے بااثر ترین اور امیر ترین اداروں میں سے ایک ہے۔ اس ادارے کا منتظم یا سربراہ ایران کے 5 اعلیٰ ترین عہدے داروں میں سے ایک شمار ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ افواہیں بھی گردش کرنے لگیں کہ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای، ابراہیم رئیسی کو اپنا جانشین نامزد کرنا چاہتے ہیں۔ انہی افواہوں کی وجہ سے کچھ قدامت پسند میڈیا اداروں نے انہیں آیت اللہ لکھنا شروع کردیا۔ آیت اللہ کا لقب ان افراد کو دیا جاتا ہے جو علمِ دین و فقہ پر مکمل دسترس رکھتے ہوں اور سپریم لیڈر کے لیے ضروری ہے کہ وہ اجتہاد کے قابل ہو۔
آستان قدس رضوی کی سربراہی، سپریم لیڈر کی جانشینی کی افواہوں اور چند میڈیا اداروں کی طرف سے انہیں آیت اللہ لکھے جانے پر ان کا عوام میں قد بڑھنا شروع ہوا اور سیاسی اثر و رسوخ بھی بڑھا۔ ایک سال آستان قدس رضوی کی سربراہی کے بعد ابراہیم رئیسی 2016ء کے صدارتی الیکشن کی دوڑ میں شامل ہوئے۔
صدارتی مباحثوں میں ابراہیم رئیسی صدر روحانی کا مقابلہ نہ کرپائے۔ اب چونکہ صدر حسن روحانی کا ووٹ بینک نوجوان تھے، اس لیے ابراہیم رئیسی نے اس ووٹ بینک کو توڑنے کے لیے نوجوان نسل میں مقبول ریپ سنگر امیر تتلو کے ساتھ ملاقات کی۔ امیر تتلو کے تمام جسم پر ٹیٹو بنے ہوئے ہیں اور ان کی گائیکی کو عام ایرانی اور مذہبی حلقے غیر اخلاقی تصور کرتے ہیں۔ ابراہیم رئیسی کو یہ سیاسی چال مہنگی پڑی اور مذہبی طبقہ ان کی حمایت سے پیچھے ہٹ گیا۔
انتخابات میں ناکامی کے باوجود 2019ء میں سپریم لیڈر نے ابراہیم رئیسی کو ملک کا چیف جسٹس نامزد کردیا۔ ابراہیم رئیسی چیف جسٹس بنے تو وہ ڈپٹی چیف جسٹس اور جنرل پراسیکیوٹر کو ہٹانا چاہتے تھے لیکن انہیں سپریم لیڈر کی پشت پناہی حاصل تھی جس پر ابراہیم رئیسی اس اقدام سے باز رہے اور تابع فرمانی ثابت کردی۔ بحیثیتِ چیف جسٹس ابراہیم رئیسی نے خود کو میڈیا کی آزادی کا حامی اور سماجی نیٹ ورکس کی بندش کا مخالف بناکر پیش کیا اور نوجوان طبقے میں ساکھ بہتر بنانے کی کوشش کی۔
اس سال کے صدارتی انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ نے اصلاح پسندوں کو نااہل کیا اور ان کی صدارت کے راستے کے تمام کانٹے چن دیے۔ ابراہیم رئیسی بذاتِ خود معتدل مزاج اور خوش گفتار ہیں لیکن ان کی پالیسیاں پسِ پردہ بیٹھے سخت گیر اور قدامت پسند بنائیں گے۔
ابراہیم رئیسی کی صدارت میں ایران میں بڑی ثقافتی یا سماجی تبدیلیاں متوقع نہیں۔ ابراہیم رئیسی دفاتر میں مرد و خواتین کے اختلاط کے مخالف ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ انہیں الگ الگ رکھنا ہی خواتین کے مفاد میں ہے اور خواتین یقیناً ان کی اس بات کی تائید کریں گی۔
اسرائیل اور مغرب کے ساتھ تعلقات میں بہتری بھی ابراہیم رئیسی کی ترجیحات میں شامل نہیں اسی لیے انہوں نے معاشی ترجیحات بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ معاشی مزاحمت یعنی خود انحصاری کی پالیسی اپنائیں گے، بیرونی سرمایہ کاری لانے پر توانائی خرچ کرنے کے بجائے زراعت پر توجہ دیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ غربت ختم کرنے کا واحد راستہ مزاحمتی معیشت ہے۔
انتخابی مہم کے دوران انہوں نے کہا تھا کہ ایران کی معاشی مشکلات کا مکمل ذمہ دار معاشی پابندیوں کو نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ مہنگائی عوام کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، کھانے پینے کی اجناس کی قیمتیں غیر معمولی حد تک بڑھ چکی ہیں۔ معاشی مشکلات کا ذمہ دار امریکی پابندیوں کو ٹھہرانا ایسے ہی ہے جیسے کوئی گول کیپر 14 گول کے بعد کہے کہ اگر میں نہ ہوتا تو 30 گول ہوجاتے۔
دو دہائیوں سے زائد عرصہ سے صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات بالخصوص مشرق وسطیٰ ان کی دلچسپی کے موضوعات ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔