قومی اسمبلی میں حکومت اور اپوزیشن کی مصالحت کی کوشش ناکام
اسلام آباد: حکومت اور اپوزیشن نے قومی اسمبلی کے اسپیکر کے چیمبر میں ہونے والے ایک اجلاس میں جماعتوں کے سربراہان پر ذاتی حملوں سے باز رہنے کا فیصلہ کیا تھا جو 'بے کار عمل' ثابت ہوا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اپوزیشن نے دعویٰ کیا کہ حکومت اجلاس میں کیے گئے اپنے وعدے سے مُکر گئی ہے کیوں کہ وزیر اعظم کے مشیر پارلیمانی امور بابر اعوان نے ایک پریس کانفرنس کے دوران اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی اس یقین دہانی کی نفی کی کہ 10 جون کو 21 بلز کی منظوری کا جائزہ لینے کے لیے ایک پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔
دوسری جانب وزیر توانائی حماد اظہر نے جمعے کے روز بجٹ اجلاس میں بلاول بھٹو زرداری کی تقریر کے بعد ان پر زبانی حملے کیے۔
یہ بھی پڑھیں: قومی اسمبلی میں ہنگامہ آرائی، گالم گلوچ روکنے کیلئے حکومت اور اپوزیشن میں اتفاق
علاوہ ازیں مسلم لیگ (ن) نے دعویٰ کیا کہ بابر اعوان کے بیان کے باوجود اسپیکر اسد قیصر نے اپوزیشن کو یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ 21 متنازع بلز پر پارلیمانی کمیٹی تشکیل دیں گے اور اس میں شمولیت کے لیے اپوزیشن اراکین کے نام بھی مانگے تھے۔
اس ضمن میں جب اجلاس میں شرکت کرنے والے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے ڈان کو بتایا کہ دونوں فریقین نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ کوئی بھی رکن اسمبلی پارٹیوں کے سربراہان بالخصوص پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سربراہان کے خلاف نہیں بولے گا۔
انہوں نے بتایا کہ 'درحقیقت یہ تجویز مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا تنویر نے پیش کی تھی کہ پارلیمان میں تقاریر کے دوران کم از کم پارٹی سربراہان کو ہدف نہیں بنانا چاہیے'۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ اپوزیشن نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کی جس کے لیے وہ اسپیکر قومی اسمبلی سے بات کر کے انہیں اپوزیشن سے دوبارہ رابطہ کرنے اور ان کے رہنماؤں کو اجلاس میں ہوئے وعدے کی یاد دہانی کروانے کا کہیں گے۔
مزید پڑھیں: حکومت اور اپوزیشن نے اسمبلی کی کارروائی بہتر طریقے سے چلانے پر اتفاق کرلیا، پرویز خٹک
میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے 11 جون کو وزیر خزانہ شوکت ترین کی بجٹ تقریر کے دوران اپوزیشن اراکین کی جانب سے اپنے خلاف تضحیک آمیز بیانات کا سنجیدگی سے نوٹس لیا تھا۔
دوسری جانب اپوزیشن نے دعویٰ کیا کہ 12 جون کو حکمراں اتحاد کے اجلاس کے دوران وزیراعظم نے اپنی پارٹی کے قانون سازوں کو ہدایت کی تھی کہ قائد حزب اختلاف شہباز شریف کو بجٹ 22-2021 پر تقریر کرنے نہ دی جائے'۔
اس ضمن میں جب پیپلز پارٹی کے فرحت اللہ بابر سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ جب حماد اظہر نے پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری پر ذاتی حملے کیے تو وہ حیران رہ گئے۔
فرحت اللہ بابر نے کہا کہ 'جب معاہدے کے باوجود حکومتی اراکین نے اپنی اشتعال انگیز تقاریر اور انداز جاری رکھا تو چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ یہ عمران خان کی ہدایات پر جان بوجھ کر کیا جارہا ہے۔
دریں اثنا پی پی پی کے ذرائع نے بتایا کہ بلاول بھٹو زرداری نے اپنے پارٹی اراکین سے ملک میں گدھوں کی تعداد کے اعداد و شمار مانگے تھے جو حال ہی میں قومی اقتصادی سروے میں شائع ہوئے تاکہ اسے اپنی تقریر میں شامل کر سکیں۔
یہ بھی دیکھیں: قومی اسمبلی اجلاس: حکومت اور اپوزیشن کے ارکان کی بدکلامی اور جھگڑا
ادھر مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے ڈان کو بتایا کہ ان کے رہنماؤں نے حکومت سے کوئی وعدہ نہیں کیا تھا بلکہ یہ تجویز حکومتی اراکین کی جانب سے آئی تھی کہ ایک دوسرے کے پارٹی سربراہان پر تنقید نہیں کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ اسپیکر قومی اسمبلی کے دفتر میں ہوئے اجلاس میں بتایا گیا کہ بجٹ اجلاس کے دوران اپوزیشن کی جانب سے وزیر اعظم کے خلاف نعرے لگانے پر وہ خاصے ناراض ہوئے تھے، مسلم لیگ (ن) کے اراکین نے اسد قیصر کو کہا تھا کہ اگر شہباز شریف پر ذاتی حملے کیے جائیں گے تو وزیر اعظم کو بھی اپوزیشن کی جانب سے یہی رویہ ملے گا۔
مریم اورنگزیب کے مطابق اسپیکر نے اپوزیشن کا مطالبہ مانتے ہوئے 10 جون کو جلد بازی میں منظور کیے گئے بلز پر نظرثانی کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا تھا، لیکن اگلے روز بابر اعوان نے پریس کانفرنس کر کے کہا کہ بلز واپس نہیں لیے جائیں گے۔
ترجمان مسلم لیگ (ن) نے بتایا کہ ان کی جماعت کے سینئر رہنماؤں نے اس معاملے پر اسپیکر قومی اسمبلی سے رابطہ کیا جنہوں نے یقین دہانی کروائی کہ بلز پر نظرثانی کے لیے کمیٹی ضرور بنائی جائے گی۔