نقطہ نظر

پی ایس ایل سیزن 6 میں چھکوں، چوکوں اور ریکارڈز کا دن

منرو نے اسلام آباد کو کچھ ایسا آغاز دیا کہ بعد میں آنے والے بیٹسمین ایسا کھیلے کہ پی ایس ایل کی تاریخ کا سب سے بڑا اسکور بنا دیا۔

گزشتہ روز پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) میں 2 اہم ترین میچ کھیلے گئے۔

پہلا میچ اسلام آباد یونائیٹڈ اور پشاور زلمی کے درمیان کھیلا گیا، جس میں شائقین کے لیے بہت کچھ تھا۔ دونوں اننگز میں 200 سے زیادہ رنز اسکور ہوئے، بے شمار چھکے لگے، ایک سنچری اور 2 نصف سنچریاں بنیں اور کئی چھوٹی بڑی تیز اننگز دیکھنے کو ملیں کہ جنہوں نے شائقین کو ایک لمحے کے لیے بھی بور نہ ہونے دیا۔

اسلام آباد یونائیٹڈ اس میچ سے پہلے ہی پلے آف مرحلے کے لیے کوالیفائی کرگئی تھی اور اس میچ میں فتح کے بعد یہ بات بھی یقینی ہوگئی ہے کہ اب انہیں فائنل تک رسائی کے لیے 2 مواقع تو ضرور ملیں گے۔ اگر وہ کوالیفائر میں شکست کا شکار ہو بھی جاتے ہیں تو انہیں ایلیمینیٹر کھیل کر فائنل تک رسائی کا موقع مل جائے گا۔

کالن منرو جو پہلے کراچی کنگز کا حصہ تھے اور مسلسل ناکامیوں کا شکار رہے تھے، مگر اس بار اسلام آباد یونائیٹڈ کے لیے اپنے پرانے رنگ میں نظر آئے ہیں اور تسلسل سے تیز رنز کر رہے ہیں۔ ان کی اننگ چاہے طویل نہ ہو لیکن ایسا ماحول بنا دیتی ہے کہ باقی بیٹسمین کھل کر کھیلتے ہیں اور ایسا ہی اس میچ میں بھی ہوا۔ منرو نے اسلام آباد کو کچھ ایسا آغاز دیا کہ اس کے بعد آنے والے بیٹسمین کھل کر کھیلے اور کچھ ایسا کھیلے کہ پی ایس ایل کی تاریخ کا سب سے بڑا اسکور بنا دیا۔

یہ کالن منرو کی اننگ ہی تھی کہ جس کی وجہ سے اسلام آباد یونائیٹڈ نے بیٹنگ آرڈر میں تبدیلی کی، افتخار احمد جو پچھلے دونوں میچوں میں اچھا اسکور کرچکے تھے لیکن انہیں سیٹ ہونے کے لیے وقت درکار ہوتا ہے۔ اسی لیے اسلام آباد یونائیٹڈ نے پہلے آصف علی اور پھر برینڈن کنگ کو بھیج کر ہٹنگ کا تسلسل برقرار رکھا۔

اسلام آباد یونائیٹڈ نے اس میچ میں 3 تبدیلیاں کی تھیں۔ ان میں سب سے بڑی تبدیلی کپتان شاداب خان کو آرام کی غرض سے بٹھانا تھا۔ شاداب خان کو شاید آرام کی ضرورت بھی تھی کیونکہ شاداب کی باؤلنگ میں مسلسل تنزلی آرہی ہے اور اس پر بھرپور کام کرنا بہت ضروری ہے۔ ان کی جگہ کپتانی کی ذمہ داری عثمان خواجہ نے ادا کی، لیکن اس بھاری ذمہ داری نے انہیں دباؤ میں لانے کے بجائے ان کے اعتماد میں اس قدر اضافہ کیا کہ وہ شاندار سنچری بنانے میں کامیاب ہوگئے۔

مزید پڑھیے:پی ایس ایل سیزن 6: تو ایک بار پھر اگر، مگر اور رن ریٹ کا کھیل شروع

پشاور زلمی کے پلے آف مرحلے میں جانے کے لیے ضروری تھا کہ یہ میچ جیتا جائے یا پھر یہ کوشش کی جائے کہ شکست کا مارجن کم سے کم ہو۔ پہلی اننگ کے بعد لگ رہا تھا کہ شاید پشاور زلمی ایک بڑی شکست سے دوچار ہوگی اور جلدی گرنے والی 2 وکٹوں نے اس رائے کو مزید پختہ کردیا۔

حضرت اللہ زازائی پشاور زلمی کو ایک اچھا آغاز فراہم کرسکتے تھے لیکن چھکا مارنے کی پہلی ہی کوشش میں وہ ناکام رہے اور حسن علی نے ایک بہترین کیچ پکڑ کر انہیں پویلین کی راہ دکھا دی۔

حیدر علی کی مسلسل ناکامیوں کے سبب اس میچ میں امام الحق کو موقع دیا گیا، لیکن بدقسمتی سے آج ان کو جس ہدف کا تعاقب کرنا تھا، وہ ان کی بیٹنگ سے مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ جب وہ بیٹنگ کے لیے آئے تو ٹیم کو 12 سے زیادہ کا رن ریٹ درکار تھا، اور اسی دباؤ کا وہ شکار ہوئے اور جلد وکٹ دے بیٹھے۔

لیکن ان جلدی ہونے والے نقصانات کے باوجود زلمی کے بیٹسمینوں نے گھبرانے کے بجائے کھل کر کھیلنے کو ترجیح دی ہر آنے والا بیٹسمین بہترین ہٹنگ کرتا نظر آیا۔ شعیب ملک اگر آؤٹ نہ ہوتے تو شاید پشاور زلمی کو فتح بھی نصیب ہوجاتی اور پاکستان سپر لیگ میں دوسری اننگ میں سب سے بڑے ہدف کا تعاقب کرنے کا نیا ریکارڈ قائم ہو جاتا۔ لیکن زلمی کے بیٹسمینوں نے ایک بڑے ہدف کے باوجود شکست کا مارجن اتنا کم کردیا کہ اب پشاور زلمی کا نیٹ رن ریٹ پر باہر ہونا تقریباً ناممکن ہوگیا ہے۔

دوسری جانب کل کراچی کنگز اور لاہور قلندرز کے مابین کھیلے جانے والے سنسنی خیز میچ میں کنگز نے بلآخر فتح حاصل کرلی۔ ویسے تو کراچی کنگز نے جیتا ہوا میچ ہاتھ سے گنوانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی، لیکن عامر کے اوور نے کراچی کنگز کو مقابلے میں برقرار رکھا۔

یوں کراچی کنگز نے ابوظہبی میں آخرکار میچ جیت ہی لیا۔ اس فتح کا مطلب یہ ہے کہ کراچی ابھی پلے آف کی دوڑ میں شامل ہے۔ اسلام آباد یونائیٹڈ کی ٹیم پلے آف مرحلے کے لیے کوالیفائی کرچکی ہے اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی ٹیم ٹورنامنٹ سے باہر ہوچکی جبکہ باقی 4 ٹیمیں ابھی بھی مقابلے میں ہیں۔ پلے آف کی 3 پوزیشنز باقی ہیں اور چاروں ٹیموں کے پاس موقع ہے، کسی کے پاس کم اور کسی کے پاس زیادہ۔

پچھلے 3 میچوں میں بابر اعظم کی 2 نصف سنچریوں اور کراچی کنگز کی شکست کے بعد یہ بات سوشل میڈیا پر کافی گردش کر رہی تھی کہ بابر نصف سنچری کرے تو کراچی کنگز کی شکست پکی ہے۔ شاید اسی بات کو قلندرز نے دل پر لے لیا اور بابر کو آؤٹ کرنے کا ہر موقع گنوا دیا۔ بابر اعظم کے 3 کیچ چھوڑے گئے اور ایک بار رن آؤٹ کرنے کا موقع بھی ضائع کردیا گیا۔ بابر اعظم شاید پچھلے میچ میں لگنے والی چوٹ کی وجہ سے اپنے روایتی ٹچ میں نہیں تھے۔ انہوں نے چند اچھے شاٹس کے ساتھ بہت سے خراب شاٹس بھی کھیلے لیکن قسمت نے ان کا خوب ساتھ دیا۔ بلآخر وہ راشد خان کی بال پر کیچ دے بیٹھے۔

کراچی کنگز کے مارٹن گپٹل بہت دنوں بعد کچھ فارم میں نظر آئے ورنہ اس میچ سے قبل یہ لگ رہا تھا کہ مارٹن گپٹل اس ٹورنامنٹ کے ڈرافٹ کی سب سے غلط پک ہیں۔ ابوظہبی میں ہونے والے میچوں میں کراچی کنگز کی یہی بدقسمتی رہی ہے کہ ٹیم کو اسپارک نہیں ملا جس کی اسے ضرورت تھی۔ بابر اعظم نے 4 میچوں میں 3 نصف سنچریاں ضرور بنائیں لیکن ان کا بھرپور ساتھ کسی نے نہ دیا اور جس میچ میں اچھا اسکور بنا لیا وہاں باؤلرز اچھی باؤلنگ نہ کر پائے۔

پچھلے سال کراچی کنگز کے چمپیئن بننے میں جہاں بابر اعظم کی بہترین کارکردگی کا ہاتھ تھا وہیں محمد عامر، ارشد اقبال، کرس جورڈن، عمید آصف اور عماد وسیم کی وکٹوں نے بھی ان کا پورا ساتھ دیا تھا۔ لیکن اس بار محمد عامر اب تک صرف 4 وکٹیں لے پائے ہیں اور ابوظہبی میں ہونے والے 4 میچوں میں تو عامر ایک بھی وکٹ نہیں لے سکے۔

دوسری طرف کراچی کی جانب سے ایمرجنگ کیٹیگری میں کسی بھی کھلاڑی کو مسلسل مواقع نہیں مل سکے اور جو مواقع ملے اس سے وہ فائدہ نہ اٹھا پائے۔ لاہور قلندرز کے خلاف میچ میں بھی کامیابی میں اہم ترین کردار نور احمد کی بہترین باؤلنگ کا رہا ورنہ محمد الیاس اور عباس آفریدی نے تو جیتا ہوا میچ بھی تقریباً ہروا دیا تھا۔

مزید پڑھیے: کراچی کنگز شکستوں کے بھنور میں کیوں گرفتار ہوگئی؟

کراچی کنگز کا ایک اور اہم مسئلہ غیر ملکی کھلاڑیوں کی کارکردگی بھی ہے۔ کراچی میں کھیلے گئے میچوں میں محمد نبی اور جو کلارک نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا لیکن ابوظہبی میں ان کی جگہ آنے والے گپٹل ابھی تک تاثر پیدا کرنے میں ناکام رہے ہیں جبکہ زادران بھی ایک ہی اچھی اننگ کھیل پائے ہیں۔ والٹن اور شرجیل بھی کسی خاص کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

ایک طرف کراچی کنگز کے غیر ملکی کھلاڑی اچھا کھیل پیش کرنے میں ناکام ہیں تو لاہور قلندرز کے پاکستانی کھلاڑی اچھا کھیل پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ فخر زمان، سہیل اختر اور محمد حفیظ اب تک کوئی اچھی اننگ نہیں کھیل سکے ہیں جبکہ باؤلنگ میں شاہین آفریدی اور حارث رؤف بھی کسی خاص کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پائے۔ نوجوان کھلاڑی سلمان آغا، فیضان اور احمد دانیال کی بھی کچھ ایسی ہی صورتحال ہے۔ اگر راشد خان، جیمز فالکنر اور ٹم ڈیوڈ کی کارکردگی کو ایک طرف رکھ دیا جائے تو قلندرز میں ہمیں ایک بار پھر ماضی کی جھلک دکھائی دینے لگ جائے۔

لاہور قلندرز نے ابوظہبی میں ابتدائی 2 فتوحات کے ساتھ شاندار آغاز لیا تھا جسے دیکھ کر لگ رہا تھا کہ قلندرز باآسانی پلے آف مرحلے میں داخل ہوجائیں گے لیکن پھر 3 مسلسل میچوں میں شکست کے بعد صورتحال یہ ہوچکی ہے کہ اگلے مرحلے میں جانے کے لیے قلندرز کے لیے اپنا آخری میچ جیتنا ناگزیر ہوچکا ہے اور شکست کی صورت میں قلندرز کو کراچی کنگز کے آخری میچ کے نتیجے کا انتظار کرنا ہوگا۔

شہزاد فاروق

ایم بی اے مارکیٹنگ کرنے کے بعد نوکری سیلز کے شعبے میں کررہا ہوں۔ کرکٹ دیکھنے اور کھیلنے کا بچپن سے جنون تھا ۔ پڑھنے کا بچپن سے شوق ہےاور اسی شوق نے لکھنے کا حوصلہ بھی دیا۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔