جی ہاں آرٹی فیشل انٹیلی جنس (اے آئی) ٹیکنالوجی اب کووڈ 19 کی تشخیص میں مدد فراہم کرے گی تاکہ اس وبا سے لڑنے میں مدد مل سکے۔
آسٹریلیا کی ریمٹ یونیورسٹی کے ماہرین نے ایسا اے آئی ماڈل تیار کیا ہے جو کھانسی سے لوگوں میں کووڈ کی تشخیص کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
یونیورسٹی کی تحقیق میں اس اے آئی ماڈل کے بارے میں بتایا گیا جو کھانسی کی آواز سے کووڈ کے اثرات کو سن سکے گا چاہے وہ بغیر علامات والے مریض ہی کیوں نہ ہوں۔
محققین نے بتایا کہ ان کے الگورتھم کو مزید بہتر بناکر بیماری کی تشخیص کرنے والی موبائل فون ایپ کا حصہ بنایا جاسکے گا۔
انہوں نے بتایا کہ ہم نے ایک قابل اعتبار، آسانی سے قابل رسائی اور کووڈ کے ابتدائی تشخیص کے ٹول کی تیاری میں حائل بڑی رکاوٹ پر قابو پالیا ہے، اس سے ان افراد سے وائرس کے پھیلاؤ کی شرح کو سست کرنے میں مدد مل سکے گی جن میں علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک موبائل ایپ سے برادری کی سطح پر بیماری پھیلنے یا کووڈ ٹیسٹ کرانے کی فکر سے نجات مل جائے گی، ایسا ٹول وبا کی روک تھام کے لیے ضروری ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ ایسے خطوں کے لیے بہت اہم ٹول ہوگا جن کو طبی سامان، ٹیسٹنگ کے ماہرین اور ذاتی تحفظ کے سامان کی قلت کا سامنا ہوگا۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ اس طریقہ کار کو نظام تنفس کے دیگر امراض کے لیے بھی توسیع دی جاسکے گی۔
یہ پہلی بار نہیں جب کسی اے آئی الگورتھم کو کھانسی سے کووڈ کی تشخٰص کے لیے تیار کیا گیا مگر آسٹریلین ماڈل نے دیگر ماڈلز کو پیچھے چھوڑ دیا جبکہ یہ مختلف خطوں میں زیادہ عملی بھی ثابت ہوگا۔
محققین کا کہنا تھا کہ اس طرح کی ٹیکنالوجی کو تشکیل دینے کی سابقہ کوششیں جیسے ایم آئی ٹی اور کیمبرج یونیورسٹی کی کوششوں میں ڈیٹا کے ذریعے اے آئی ماڈل کو تربیت دینے پر انحصار کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ نظام تنفس کی آوازوں کو شناخت کے لیے ماہرین کی خاص تفصیلات کی ضرورت ہوتی ہے، جو اسے مہنگا اور وقت طلب بناتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے مقابلے میں ٹارگٹڈ ڈیٹا جیسے کسی ایک ہسپتال یا خطے کے کھانسی کے نمونوں کو استعمال کرکے الگورتھم کو تربیت دینا لیبارٹری سے باہر محدود کارکردگی کا مظاہرہ کرتا ہے۔