6 مختصر کہانیاں
معلوم نہیں کتنی مدت وہ سوتا رہا حتیٰ کہ وہ اکتا گیا۔
'آخر یہ سورج کیوں نہیں نکل رہا؟ رات ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی'، اس نے سوچا۔
'اس ناختم ہونے والے اندھیرے کے بارے میں کس سے پوچھوں، مجھے پڑوسیوں سے پوچھنا چاہیے۔'
پھر وہ آدمی اپنے پڑوسی کے دروازے تک پہنچا۔
'ٹَھک، ٹَھک، ٹَھک'
'کون ہے؟'
'میں ہوں، آپ کا پڑوسی۔'
'اس وقت؟'
'معذرت چاہتا ہوں، دراصل میں نے پوچھنا تھا، یہ سورج کیوں نہیں نکل رہا؟'
'کیا تمہیں معلوم نہیں؟'
'نہیں، میں تو بس انتظار کرتا رہا ہوں۔'
'اب نہیں نکلے گا سورج۔ ہماری بستی میں سورج کا بھلا کیا کام۔'
'تو ہم اندھیرے میں کیسے دیکھیں گے؟'
'جیسے ابھی دیکھ رہے ہیں۔'
وہ بوڑھا شہر کا پہلا آدمی تھا جس نے اس صبح جب ابھی سورج نکلنے میں کافی وقت تھا، آسمان پر پرندوں کی بے پناہ پھڑپھڑاہٹ کو سنا تھا۔
وہ اپنے ایک کمرے کے مکان سے باہر نکل کر آسمان کو یوں تکنے لگا جیسے اس نے زندگی میں پہلی بار سر اٹھا کر اوپر کی جانب دیکھا ہو۔
'اتنے پرندے ایک ساتھ کہاں سے آسکتے ہیں اور وہ بھی اتنی صبح صبح؟'
پرندے اب بہت نیچی پرواز کررہے تھے، ایک ساتھ ان کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ اور باریک آواز یوں تھی جیسے وہ کانوں کے پردے پھاڑ دے گی۔
'یہ کس طرح کے پرندوں کی آواز ہے؟'، بوڑھے نے سوچا۔ عمر کے گزرے سالوں میں اس نے کبھی کسی پرندے کی ایسی آواز نہ سنی تھی کہ ان آوازوں میں اداسی بھی شامل تھی جیسے پرندے نوحہ کناں ہوں۔
وہ ڈر کر کمرے میں آگیا اور دروازہ بند کرلیا۔ پرندے اب روشن دانوں سے ٹکرا ٹکرا کر گر رہے تھے۔
جب روشنی ہوئی تو بوڑھے نے کھڑکی کے شیشے سے باہر گلی میں دیکھا جہاں مردہ پرندوں کے ڈھیر لگے تھے اور لوگ شاندار لباسوں میں ملبوس اپنے اپنے دفتروں، دکانوں اور درسگاہوں میں جانے کے لیے رواں دواں تھے، وہ پرندوں کے مردہ ڈھیروں کو یوں پھلانگ رہے تھے جیسے وہاں کچھ تھا ہی نہیں۔
بوڑھا یہ منظر دیکھ کر اس قدر حیرت زدہ ہوا کہ اس نے اپنی آنکھیں نکال کر کھڑکی سے باہر پھینک دیں اور ہنستے ہوئے باہر گلی میں آگیا۔
بچپن سے اس کے سر میں ایک بڑا گھر بنانے کا جنون سوار تھا۔
دفتر میں ساتھی کہتے، 'کچھ وقت اپنے لیے بھی نکالو۔ کب تک یہ اوور ٹائم لگاتے رہو گے؟'
'جب تک اپنا گھر نہیں بن جاتا۔'
'مگر تمہارے پاس تو ایک گھر ہے۔'
'ہاں لیکن وہ بہت چھوٹا ہے اور ہے بھی کرائے کا۔ وہاں تو ہوا بھی پوری طرح میسر نہیں۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے میں بچپن سے فیکٹریوں سے نکلنے والا دھواں ہی نگل رہا ہوں۔ مگر اب میں اپنا گھر بناؤں گا۔'
اس کے باپ نے بھی بے حد محنت مشقت بھری زندگی گزاری تھی مگر وہ بھی مکان نہ بناسکا۔
'اس ایک زندگی میں بڑا مکان بنانا کس قدر مشکل کام ہے'، وہ اکثر رات کو سوچتا۔
'بیٹا اپنا گھر اپنا ہوتا ہے۔ کب تک کرائے کے چھوٹے سے کمرے میں رہو گے۔ میں نے عمر بھر کوشش کی مگر میں کامیاب نہ ہوسکا۔ لیکن تم ضرور بنانا'، اس کے باپ نے آخری وقت تک اسے یہی نصیحت کی تھی۔
پھر ایک روز شہر کی شاندار ہاؤسنگ سوسائٹی میں اس نے بڑا سا مکان بنالیا۔
تاہم اب بھی وہ ایک بڑا مکان بنانا چاہتا ہے۔
ہمارے گھر کے باہر ایک سمندر ہے، ہم نے دروازہ کھولا تو پانی میں ڈوب جائیں گے۔ اسی لیے ہم دروازے بند رکھتے ہیں، کیونکہ ایسا ہی کرنے کے لیے ہمیں کہا گیا ہے۔
بہت پہلے کسی نے دروازہ کھولنے کی کوشش کی تھی تو پانی کی لہریں اسے اپنے ساتھ بہا کر لے گئی تھیں، تب سے میخیں گاڑ کر دروازے کو مستقل طور پر بند کردیا گیا ہے۔ مگر ہم میں سے کچھ لوگ جو ہماری حفاظت کرتے ہیں، دروازے سے باہر آتے جاتے رہتے ہیں۔
واپس آنے پر وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ خبردار! باہر مت نکلنا ورنہ ڈوب جاؤ گے۔
بروقت خبردار کرنے پر ہم سب مکین ان کے بے حد شکر گزار ہوتے ہیں اور گھر کی ساری دیواروں پر اپنے محافظوں کے حق میں نعرے درج کرتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہمار ے قلموں کی سیاہی سوکھ جاتی ہے، ہم ان سے مزید سیاہی کا مطالبہ کرتے ہیں تو وہ ہمارے ہی جسموں سے خون نچوڑ کر ہمارے قلموں کو لبالب بھر دیتے ہیں۔
ہم نحیف و ناتواں ہونے کے باوجود اپنے محافظوں کو ممنون نگاہوں سے دیکھتے ہیں کہ ہمارا گھر ایک سمندر کے کنارے ہے، دروازہ کھلا تو۔۔۔
محبت کرنا بھلا کب آسان رہا ہے، وہ 2 سال سے بچت کر رہا تھا۔ اس نے پیٹ کاٹ کاٹ کر روپے بچائے تھے۔ کئی خواہشوں کی قربانی دی تھی۔ جب اس کے پاس کچھ رقم جمع ہوئی تو اس نے ایک گرامو فون خریدا اور اسے اپنی محبوبہ کو سالگرہ کے تحفے کے طور پر پیش کیا۔
یہ جس زمانے کی کہانی ہے اس وقت شہر میں چند ہی لوگوں کے پاس گرامو فون تھا۔ وہ محبوبہ کو سب سے انوکھا تحفہ دینا چاہتا تھا، اور یہ سب کرنے کے لیے اسے 2 سال کا عرصہ لگ گیا۔
اس کی محبوبہ گرامو فون دیکھ کر بہت خوش ہوئی تاہم جب اس کے باپ کو اس تحفے کا علم ہوا تو اس نے گرامو فون پہلی منزل سے نیچے گلی میں پھینک دیا۔
وہ آدمی ابھی گلی میں موجود تھا، اس نے گرامو فون کو پرزے پرزے گلی میں بکھرے دیکھا تو اسے بہت دکھ ہوا، جیسے کسی نے گزشتہ 2 سال کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے گلی میں بکھیر دیا ہو۔
اس سے تو بہتر تھا کہ میں پیٹ بھر کر کھانا کھاتا رہتا، اس نے سوچا۔
'میں سب سمجھتا ہوں تم نیچ ذات کے غریب لوگوں کو، امیر لڑکیوں کو مہنگے تحفے دینے کا کیا مقصد ہوتا ہے'، لڑکی کے باپ نے کہا۔
'دفع ہوجاؤ!' لڑکی کا باپ گرجا۔
'ہاں میں جاتا ہوں، مگر مجھے میرے فاقوں کی قیمت ادا کی جائے ورنہ۔۔۔'
'ورنہ کیا؟'
اسے کچھ سمجھ نہ آیا۔ پھر ایک پتھر دکھائی دیا۔ وہ دوڑا اور پتھر اٹھا لیا۔
'ورنہ میں اس پتھر سے اپنا سر پھوڑ لوں گا۔'
مجھے اس سے ایسے وقت میں محبت ہوئی جو محبت کے لیے انتہائی نامناسب تھا۔
اس کے لیے سب سے مناسب وقت کون سا ہوتا ہے؟ اس سوال کا کوئی حتمی جواب نہیں مگر میں یہ بات پورے وثوق اور اپنی 21 سالہ زندگی کے تجربے کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں کہ جب ہمیں محبت ہوئی تو وہ وقت ہم دونوں کے لیے نامناسب تھا۔
میں تھیلیسیمیا وارڈ میں بیڈ نمبر 7 پر موجود خون کی تبدیلی کے عمل سے گزر رہا تھا۔ مجھے یہ بات شروع میں بتانی چاہیے تھی مگر میں بھول گیا، یہ ہر تیسرے ہفتے خون کی تبدیلی میری یادداشت بھی چاٹتی جارہی ہے۔ میں تھیلیسیما میجر کا شکار ہوں اور بچپن سے خون کی اس تبدیلی کے عمل سے گزر رہا ہوں۔ بیماری کی بات چھوڑیں کہ یہ کیسا تکلیف دہ عمل ہے، میں پھر اس قصے کی طرف آتا ہوں جب بیڈ نمبر 7 پر لیٹے لیٹے میں نے اسے پہلی بار دیکھا، اس کی پیلی رنگت اور ناتوانی سے ہی میں سمجھ گیا تھا کہ اس کا اور میرا دکھ ایک ہے۔
لوگوں کو خوشیاں کبھی بھی اتنی جلدی اکٹھا نہیں کرسکتیں جتنا کہ غم۔ مشترکہ غم ہمیں آپس میں یوں جوڑ دیتے ہیں کہ جس کا تصور خوش کن لمحات میں ملے لوگ کر ہی نہیں سکتے۔ میں نے اپنی پیلی اندر دھنسی ہوئی آنکھوں سے اسے دیکھا، اس نے پیغام پڑھ لیا اور جواباً لبوں پر ایسی اداس مسکراہٹ لائی جس کا مطلب تھا، یہ محبت کے لیے نامناسب وقت ہے۔ مگر میں اس سے محبت کرتا رہا۔ ہم ہر تیسرے ہفتے اسی وارڈ میں ایک دوسرے سے ملتے رہے، ہم انتظار گاہ میں اپنی اپنی باری کی راہ دیکھتے رہتے ہیں اور ہماری گفتگو ہماری بیماری کی علامات پر بحث کرتے گزر جاتی ہے۔
میں اسے بتاتا ہوں کہ مجھ پر ہر وقت تھکاوٹ سی طاری رہتی ہے، مگر میں غنودگی میں بھی اس کے چہرے کو یاد کرسکتا ہوں۔
وہ کہتی ہے کہ ہسپتال آنے سے پہلے اس نے آئینہ دیکھا تھا، اس کی رنگت پہلے سے زیادہ زرد ہوچکی ہے اور اس بیماری کی وجہ سے اس کا پیٹ پھولتا جارہا ہے، جبکہ اسے موٹا ہونا ہرگز پسند نہیں۔
وہ مجھ سے پوچھتی ہے کہ کیا تم پیلی رنگت اور موٹے پیٹ والی لڑکی سے محبت کرتے رہو گے۔
میں اسے یقین دلاتا ہوں کہ میں اس سے محبت کرتا رہوں گا۔ وہاں بیٹھے بیٹھے ہم دونوں اس قدر تھک جاتے ہیں کہ جب ہمیں کوئی ہمارے نام سے بلاتا ہے تو ہم سو رہے ہوتے ہیں۔
ان دنوں ہسپتال کے لان میں لگے پودوں پر سُرخ گلاب آچکے ہیں تاہم ہماری پیلی آنکھیں اس منظر سے خوشی کشید نہیں کرپاتیں۔ ہمارے جسم ہماری عمروں سے بہت چھوٹے دکھائی دیتے ہیں۔ مگر ہم چاہتے ہیں کہ ایسے ہی انتظار گاہ میں گفتگو کرتے کرتے ہماری عمریں گزر جائیں جو شاید گزرچکی ہیں کہ وبا کے دنوں میں خون کی دستیابی کوئی آسان کام نہیں ہے۔
پاکستان اور انڈیا کے بیشتر اردو اخبارات اور جرائد میں محمد جمیل اختر کے افسانے شائع ہوچکے ہیں، جس میں فنون، ادبیات، ایوان اردو دہلی، ادب لطیف، اردو ڈائجسٹ اور سہ ماہی تسطیر قابل ذکر ہیں۔ افسانوں کی پہلی کتاب ’ٹوٹی ہوئی سڑک‘ 2017 میں شائع ہوئی۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔