طبی جریدے جے اے ایس این میں جلد شائع ہونے والی تحقیق میں لیبارٹری میں انسانی گردوں کے خلیات کو کورونا وائرس سے متاثر کیا گیا تھا۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اگرچہ کورونا وائرس انسانی گردوں کے خلیات میں داخل، بیمار اور وہاں اپنی نقول بناسکتا ہے مگر اس سے عموماً خلیات کی موت واقع نہیں ہوتی۔
تحقیق کے مطابق بیماری سے قبل صحت مند خلیات میں انٹرفیرون نامی سنگلنگ مالیکیولز کی سطح زیادہ ہوتی ہے اور بیمار خلیات میں کم۔
اس تحقیق کے لیے لیبارٹری میں خلیات کو تیار کیا گیا تھا جو گردوں کے صحت مند خلیات اور بیمار خلیات کی نقل تھے۔
محققین نے بتایا کہ بیمار خلیات کووڈ سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور ان کی انجری بڑھ جاتی ہے مگر کلیات کی موت واقع نہیں ہوتی۔
انہوں نے کہا کہ ڈیٹا سے عندیہ ملتا ہے کہ ایسا نظر نہیں آتا کہ کورونا وائرس گردوں کے اس نقصان کا باعث بن سکتا ہے جو کووڈ 19 کے مریضوں میں نظر آتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ اس طرح کا نقصان گردوں کو پہلے ہی کسی وجہ سے ہوچکا ہوتا ہے اور یہ وائرس اس کی شدت کو بڑھا دیتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر ابتدا میں ہی گردوں کی انجری کو محدود کیا جاسکے تو وائرس سے ہونے والے نقصان کی شدت کو بھی کم از کم کرنے مین مدد مل سکتی ہے۔
اس سے قبل مارچ 2021 میں ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کووڈ 19 کے نتیجے میں ہسپتال میں زیرعلاج رہنے والے 50 فیصد کے قریب افراد کو صحتیابی کے بعد گردوں کی انجری کا سامنا بھی ہوتا ہے۔
طبی جریدے جرنل جاما نیٹ ورک اوپن میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ گردوں کی یہ انجری طویل المعیاد ہوسکتی ہے۔
امریکا کی یالے یونیورسٹی کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ 19 کے نتیجے میں لوگوں کو طویل المعیاد بنیادوں پر علامات کا سامنا ہوسکتا ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ 19 کے نتیجے میں گردوں کے امراض کا سامنا ہوسکتا ہے، جن کی شدت سنگین ہونے پر ڈائیلاسز اور گردوں کی پیوند کاری کی ضرورت ہوسکتی ہے، تاہم ابھی اس حوالے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔