نقطہ نظر

بجٹ 2022ء: معیشت کی درستی کی جانب پہلا قدم

پی ٹی آئی حکومت کے سابقہ 2 بجٹ ان کے دعوؤں کے بالکل برعکس تھے لیکن آئندہ مالی سال کے بجٹ میں کچھ بہتری نظر آرہی ہے۔

کسی سیاسی حکومت کا بجٹ اس کے سیاسی ایجنڈے اور انتخابی منشور کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ دیکھنے میں تو بجٹ اعداد و شمار سے بوجھل دستاویز لگتا ہے مگر اس میں سیاسی حکومت اپنے وژن کے مطابق وسائل کو ان شعبوں کی جانب موڑتی ہے جن سے معیشت کو بحال کرنے کے ساتھ ساتھ عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف فراہم کیا جاسکے۔

تاہم پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سابقہ کسی بھی بجٹ میں یہ صورتحال دیکھنے میں نہیں آئی اور معیشت مسلسل گراوٹ کا شکار رہی جس کی وجہ سے ٹیکس وصولی کے اہداف حاصل نہ ہونے کے ساتھ ساتھ جی ڈی پی میں مسلسل گراوٹ دیکھنے میں آئی۔ یوں روپے کی قدر میں کمی سے مہنگائی میں بے پناہ اضافہ ہوا اور بے روزگاری اور غربت کے شکار افراد کی تعداد بھی بڑھ گئی۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اپنا تیسرا بجٹ پیش کرنے میں کامیاب رہی اور یہ بجٹ حکومت کے چوتھے وزیرِ خزانہ شوکت ترین نے قومی اسمبلی میں پیش کیا۔ بجٹ کو پیش کرتے ہوئے شوکت ترین نے ایک بہت ہی عجیب جملہ اپنی تقریر کا حصہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ ’میرا اصول ہے کہ قبرستان میں کھڑے ہوکر مردوں کو اکھاڑنے سے بہتر ہے کہ باہر نکلا جائے اور قوم کو روشنی کی طرف لے جایا جائے‘۔

شاید انہوں نے یہ جملہ اپنے دائیں جانب براجمان وزیرِاعظم عمران خان کے لیے کہا ہوگا کیونکہ وزیرِاعظم اور ان کی کابینہ ہر کام کی ذمہ داری گزشتہ حکومت پر ڈال رہی ہے۔

موجودہ بجٹ میں وزیرِ خزانہ نے معیشت کی اہم ترین پالیسی میں تبدیلی کا اعلان کیا ہے۔ موجودہ وزیرِ خزانہ کے ہم نام سابق وزیرِاعظم شوکت عزیز نے ملک میں غربت کے خاتمے کے لیے ٹریکل ڈاؤن افیکٹ کا نظریہ پیش کیا تھا، یعنی، ملک میں دولت مندوں کو اپنی دولت میں اضافہ کرنے کا موقع دیا جائے، کیونکہ جب امیر کے پاس اضافی دولت آئے گی تو اس کے اثر سے غریبوں کو بھی فائدہ ہوگا۔ تاہم یہ نظریہ ملک میں غربت کے خاتمے کے لیے کارآمد ثابت نہیں ہوسکا۔ ملک میں دولت مند طبقے کی دولت بڑھتی رہی مگر امیر طبقے نے دولت کو غریبوں میں نہیں بانٹا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ امیر، امیر تر ہوگیا اور ملک میں غربت میں اضافہ ہوا۔

موجودہ بجٹ میں شوکت ترین نے باٹم اپ اپروچ کا نظریہ پیش کیا ہے۔ یعنی ملک میں غربت کے خاتمے کے لیے غریب کی براہِ راست معاونت کرنا ہوگی۔ اس حوالے سے حکومت نے 40 سے 60 لاکھ پسماندہ گھرانوں کو معاونت فراہم کرنے کا ہدف رکھا ہے۔ اس میں کاروبار کرنے کے لیے 5 لاکھ روپے تک بلاسود قرضہ جبکہ کاشتکار گھرانوں کے لیے ڈیڑھ لاکھ روپے فی فصل بلاسود قرضے کے علاوہ ٹریکٹر اور مشینری کی خریداری کے لیے دو لاکھ روپے کا بلا سود قرضہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ساتھ ہی ان خاندانوں کو کم لاگت کے گھر تعمیر کرنے کے لیے 20 لاکھ روپے تک سستا قرض فراہم کیا جائے گا۔ ان گھرانوں کو صحت کارڈ بھی فراہم کیا جائے گا جبکہ گھر کے ایک فرد کو ٹیکنیکل ٹریننگ بھی فراہم کی جائے گی۔

شوکت ترین کا کہنا ہے کہ ’ملک میں غربت کے خاتمے کے علاوہ معیشت کو بحال کرنے کے لیے صنعتوں، زراعت اور سرمایہ کاری کو مراعات دی جائیں گی‘۔

بجٹ میں ان شعبہ جات کو دی جانے والی مراعات کا جائزہ لینے سے قبل بجٹ کا حجم، آمدنی اور اخراجات پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں۔

جی ڈی پی کا ہدف

آئندہ مالی سال کے بجٹ میں جی ڈی پی ترقی کا ہدف 4.8 رکھا گیا ہے جبکہ رواں مالی سال میں جی ڈی پی کا ہدف 2.1 فیصد رکھا گیا تھا۔ تاہم عبوری اعداد و شمار کے مطابق جی ڈی پی 3.49 فیصد رہنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ حکومت کو توقع ہے کہ زرعی پیداوار میں 3.5، صنعتی پیداوار میں 6.5 اور خدمات کے شعبے میں 4.7 فیصد ترقی حاصل ہوگی۔

آئندہ مالی سال کے بجٹ کا مجموعی حجم 8 ہزار 487 ارب روپے رکھا گیا ہے جبکہ رواں مالی سال کے بجٹ کا حجم 7 ہزار 136 ارب روپے رکھا گیا تھا۔ اس طرح بجٹ کے حجم میں 19 فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے۔

آمدنی کا ہدف

آئندہ مالی سال کے میزانیے میں حکومت کی آمدنی کا ہدف 6 ہزار 573 ارب روپے رکھا گیا ہے جو رواں مالی سال کے ہدف سے 20 فیصد زائد ہے۔ حکومتی آمدنی میں ایف بی آر کی ٹیکس وصولی کا ہدف 5 ہزار 829 ارب روپے رکھا گیا ہے جو موجودہ مالی سال سے 17 فیصد زائد ہے۔ بجٹ میں حکومت کی غیر ٹیکس آمدنی کو 2 ہزار 80 ارب روپے رکھا گیا ہے جو رواں مالی سال سے 29 فیصد زائد ہے۔ اس کے علاوہ حکومت نے 610 ارب روپے کی پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی کا ہدف رکھا ہے جبکہ رواں مالی سال یہ لیوی 450 ارب روپے تھی۔

اخراجات کا تخمینہ

بجٹ میں جاری اخراجات کا تخمینہ 6 ہزار 346 ارب روپے لگایا گیا ہے جو موجودہ مالی سال کے مقابلے میں 19 فیصد زیادہ ہے۔ اخراجات میں سب سے بڑی ادائیگی قرضوں پر لیے جانے والے سود کی ہے۔ آئندہ مالی سال کے دوران قرضوں پر صرف سود کی ادائیگی کے لیے 2 ہزار 946 ارب روپے کا تخمینہ ہے۔ اس کے علاوہ سرکاری ملازمین کی پنشن کے لیے 480 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

مالیاتی خسارے کا تخمینہ 3 ہزار 420 ارب روپے رکھا گیا ہے جو جی ڈی پی کا 6.3 فیصد ہے، جبکہ رواں مالی سال میں مالیاتی خسارے کا ہدف 3 ہزار 195 ارب روپے رکھا گیا تھا، جو جی ڈی پی کا 7 فیصد ہے۔

ترقیاتی منصوبوں سے متعلق کیا کچھ ہے؟

گزشتہ بجٹ کے مقابلے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے خطیر رقم رکھی گئی ہے۔ جس سے تعمیراتی شعبے میں سرگرمیاں بڑھنے کے امکانات روشن ہوگئے ہیں۔ ترقیاتی اسکیموں کے لیے مجموعی طور پر 2 ہزار 102 ارب روپے مختص ہیں جس میں سے وفاقی حکومت 900 ارب روپے اور صوبے ایک ہزار 202 ارب روپے ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کریں گے۔

سبسڈیز میں غیر معمولی اضافہ

پی ٹی آئی کی حکومت نے سابقہ طرزِ عمل کو تبدیل کرتے ہوئے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں عوامی ریلیف کے لیے ایک خطیر رقم سبسڈی میں رکھی ہے۔ آئندہ مالی سال 682 ارب روپے سبسڈیز کے لیے مختص کیے گئے ہیں جبکہ گزشتہ سال سبسڈیز کی مد میں 209 ارب روپے رکھے گئے تھے۔ اس طرح سبسڈیز کی مد میں 226 فیصد کا نمایاں اضافہ ہے۔ حکومت ان سبسڈیز کا بڑا حصہ توانائی کے شعبے میں استعمال کرے گی اور اس مقصد کے لیے پاور ہولڈنگ اور آئی پی پیز کے لیے 266 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔

دفاعی بجٹ

دفاعی اخراجات کے لیے مختص رقم میں 74 ارب کا اضافہ کرتے ہوئے اسے ایک ہزار 373 ارب روپے کردیا گیا ہے جبکہ رواں مالی سال کے دوران نظرثانی شدہ تخمینہ ایک ہزار 299 ارب روپے تھا۔

معروف ماہرِ معیشت اور آئی کیپ کے نائب صدر اشفاق تولا کا کہنا ہے کہ ’دفاعی بجٹ میں مسلسل 3 سال سے نمایاں اضافہ نہیں ہوا ہے جبکہ روپے کی قدر میں کمی سے دفاعی بجٹ حقیقی معنوں میں کم ہوگیا ہے۔ لہٰذا حکومت کو دفاعی بجٹ میں کم از کم 15 فیصد اضافہ کرنا ہوگا۔

آبی وسائل کا معاملہ

حکومت نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں آبی وسائل کی ترقی کے لیے 91 ارب روپے مختص کیے ہیں۔ اس میں داسو ڈیم کی تعمیر کے لیے 57 ارب روپے رکھے ہیں جبکہ اس ڈیم کی تعمیراتی لاگت 4.278 ارب ڈالر ہے۔ مہمند ڈیم کے لیے 6 ارب روپے رکھے گئے ہیں جبکہ اس کی لاگت 2.1 ارب ڈالر ہے۔ اسی طرح دیامیر بھاشا ڈیم کے لیے 23 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جبکہ اس منصوبے کا تخمینہ 14 ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔

اس پر آپ کو ڈیم فنڈ تو یاد آیا ہی ہوگا جس کے لیے سپریم کورٹ نے اپنے ڈیکورم سے ہٹتے ہوئے فنڈ قائم کیا تھا مگر 3 سال ہوگئے ابھی تک کسی آبی منصوبے کی تکمیل نہیں ہوسکی ہے اور جس انداز سے رقم مختص کی جارہی ہے لگتا ہے کہ آئندہ کئی سال تک ان منصوبوں کی تکمیل مشکل ہے۔

سرکاری ملازمین کی تنخواہوں، پنشن اور کم از کم تنخواہوں میں اضافہ

وفاقی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد ایڈہاک اضافہ، پنشن میں 10 فیصد اضافہ اور کم سے کم تنخواہ 20 ہزار روپے ماہانہ مقرر کی گئی ہے۔

کووِڈ ایمرجنسی ریلیف

وفاقی بجٹ میں کووِڈ ایمرجنسی ریلیف فنڈ کے لیے 100 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جبکہ مقامی حکومتوں کے انتخابات اور نئی مردم شماری کے لیے 5، 5 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کے لیے 20 ارب اور اسٹیل ملز کے لیے 16 ارب روپے امداد کی تجویز رکھی گئی ہے۔

بجٹ دستاویز کے مطابق کیپٹیل ویلیو ٹیکس میں کمی کرتے ہوئے 56 کروڑ روپے کا ہدف رکھا گیا ہے جو رواں مالی سال 2 ارب 72 کروڑ روپے تھا۔ کسٹمز ڈیوٹی کی مد میں 145 ارب کے اضافے سے 785 ارب کی وصولیوں کا ہدف رکھا گیا ہے۔ سیلز ٹیکس میں 587 ارب کے اضافے سے 2 ہزار 506 ارب روپے کا ہدف رکھا گیا ہے۔ موبائل فون تھری اور فور جی پر ٹیکس سے 18 ارب روپے اضافے سے 45 ارب 40 کروڑ روپے کی ٹیکس وصولی ہوگی۔

شوکت ترین نے ٹیکسوں سے متعلق کاروباری برادری کے دیرینہ مطالبات کو تسلیم کرلیا ہے جس میں ٹیکس حکام کے اختیارات کو کم کرتے ہوئے ٹیکس نظام کو ہراساں کرنے کے عمل سے پاک کرنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ ٹیکس دہندگان کا نظام پر اعتماد بڑھے۔ اس مقصد کے لیے مجوزہ ٹیکس پالیسی میں ٹیکس گزاروں کی نشاندہی، ٹیکس نیٹ میں اضافے، ٹیکس استثنٰی اور مراعات سے متعلق شقوں کے بتدریج خاتمے کا اعلان کیا گیا ہے۔

خود تشخیصی ٹیکس اسکیم کو متعارف کروایا جارہا ہے اور ایف بی آر کے اختیار کو ختم کرتے ہوئے فائل کردہ ٹیکس ریٹرن کو ہی اسسمنٹ آرڈر تسلیم کرلیا جائے گا۔ خود تشخیصی ٹیکس اسکیم کے آڈٹ کے لیے چناؤ ایک خودکار رسک بیس طریقہ کار کے ذریعے کیا جائے گا جبکہ انکم ٹیکس حکام سے آڈٹ کا اختیار لیتے ہوئے تھرڈ پارٹی آڈٹ کرایا جائے گا۔ اس کے ساتھ ٹیکس معلومات کو چھپانے پر مجرمانہ کارروائی کی جائے گی۔ جو ایف بی آر افسر ٹیکس گزاروں کو ہراساں کرے گا اس کے خلاف بھی کارروائی ہوگی۔

تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کے بوجھ میں اضافہ نہیں کیا گیا ہے اور ان کو مسلم لیگ (ن) کے دور میں ٹیکس پر دی گئی چھوٹ واپس نہیں لی گئی ہے۔

حکومت نے آئندہ مالی سال سے وتھ ہولڈنگ ٹیکس میں بڑے پیمانے پر کٹوتی کرنے کا اعلان کیا ہے۔ بجٹ میں زیرِ گردش کرنسی کو کم کرنے پر بھی توجہ دی گئی ہے اور بینکوں سے نقد رقوم نکلوانے پر عائد وتھ ہولڈنگ ٹیکس ختم کردیا گیا ہے جس سے بینکاری نظام میں لین دین بڑھے گا۔ اسی طرح اسٹاک ایکسچینج، کریڈٹ کارڈ اور سم کارڈ پر عائد وتھ ہولڈنگ ٹیکس کو ختم کیا گیا ہے۔

ملک میں سرمایہ کاری میں اضافے کے لیے اسٹاک مارکیٹ میں حصص کی خرید و فروخت پر کیپٹل گین ٹیکس کی شرح 15 فیصد سے کم کرکے 12.5 فیصد کردی گئی ہے۔

عوام کو ریلیف اور کاروبار میں سہولت دینے کے لیے ٹیلی مواصلات پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی شرح 17 سے کم کرکے 16 فیصد کردی گئی ہے۔ موبائل فون پر وتھ ہولڈنگ ٹیکس کی شرح 12.5 فیصد سے کم کرکے 10 فیصد کی جارہی ہے اور اس کو بتدریج کم کرکے 8 فیصد لایا جائے گا۔ انٹرنیٹ پر ٹیکس عائد کرنے کا جو اعلان شوکت ترین نے اپنی بجٹ تقریر میں کیا تھا بعد ازاں اس کی وضاحت وفاقی وزرا نے کردی ہے کہ اس ٹیکس کو کابینہ نے منظور نہیں کیا ہے۔

صنعتوں کے لیے ٹیکس کی چھوٹ میں اضافہ کیا گیا ہے۔ بجٹ میں ٹیکسٹائل، جوتا سازی، ادویات، الیکٹرک کار اور موبائل فون پر جی ایس ٹی میں کمی کرنے کے علاوہ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ختم کردی گئی ہے۔ توانائی کے شعبے میں نئی سرمایہ کاری کے لیے ریفائنریز جو اپنے آپ کو اپ گریڈ کریں گی انہیں 10 سال تک ٹیکس میں چھوٹ دی جائے گی۔

آئندہ مالی سال سے پاکستان میں تیار ہونے والی 850 سی سی گاڑیوں پر سیلز ٹیکس 17 سے کم کرکے 12.5 فیصد جبکہ 850 سی سی تک کی امپورٹڈ گاڑیوں پر کسٹم اور ریگولیٹری ڈیوٹی پر چھوٹ دینے اور وتھ ہولڈنگ ٹیکس سے مستثنیٰ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

مقامی طور پر تیار کردہ چھوٹی گاڑیوں پر ویلیو ایڈڈ ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی بھی ختم کردی گئی ہے۔ الیکٹرک گاڑیوں کے لیے سیلز ٹیکس کی شرح 17 فیصد سے کم کرکے ایک فیصد کرنے اور ایک سال تک کسٹم ڈیوٹی کم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

اس حوالے سے آٹو موبائل پارٹس بنانے والے مشہود علی خان کہتے ہیں کہ ’850 سی سی گاڑیوں پر دی جانے والی رعایت سے چھوٹی گاڑیوں کی فروخت میں اضافہ ہوگا اور لوگ باآسانی موٹرسائیکل سے چھوٹی گاڑی پر منتقل ہوسکیں گے‘۔

زراعت کے شعبے کی ترقی کے لیے بجٹ میں 12 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جس میں ٹڈی دل سے بچاؤ، فوڈ سیکیورٹی، چاول، گندم، کپاس، گنے اور دالوں کی پیداوار میں اضافے، زیتون کی کاشت اور نہروں کی مرمت وغیرہ جیسے منصوبے شامل ہیں۔

پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹبل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن نے وفاقی بجٹ میں زراعت کے لیے 12 ارب روپے کے فنڈز کو ناکافی قرار دیتے ہوئے زرعی ترقی کا وفاقی بجٹ 50 ارب روپے تک بڑھانے کا مطالبہ کیا ہے۔ وحید احمد کا کہنا ہے کہ ’حکومت نے خود اعتراف کیا ہے کہ پاکستان کو غذائی شعبہ میں قلت کا سامنا ہے اور اس کی وجہ سے اجناس کی درآمدات پر قیمتی زرِمبادلہ خرچ ہوتا ہے‘۔

اقتدار میں آنے سے پہلے عمران خان اعلان کیا کرتے تھے کہ قومیں سڑکوں اور میٹرو بسوں سے نہیں بلکہ تعلیمی اداروں اور صحت کی اچھی سہولتوں سے بنتی ہیں مگر وزیرِاعظم کا یہ وژن ان کے تیسرے بجٹ میں بھی نظر نہیں آرہا ہے۔ تعلیم کے لیے آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ میں 91 ارب روپے جبکہ صحت کے لیے 28 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت جس آب و تاب اور عوام کو ریلیف دینے کے دعوؤں کے ساتھ حکومت میں آئی تھی اس کے پیش کردہ سابقہ 2 بجٹ ان دعوؤں کے بالکل برعکس نظر آئے تھے۔ لیکن آئندہ مالی سال کے بجٹ میں کچھ بہتری نظر آرہی ہے اور ماہرین اس کو انقلابی تو نہیں مگر درست سمت میں ایک قدم قرار دے رہے ہیں۔ خصوصاً ٹیکس حکام کے اختیارات میں کمی اور صنعتوں کو بحالی کے لیے دیا جانے والا ٹیکس ریلیف اہم ہے۔

شوکت ترین وتھ ہولڈنگ ٹیکس اور دیگر معمولی ٹیکس مراعات کے ساتھ حکومت پر تنقید کرنے والے افراد کا منہ بند کرنے میں بڑی حد تک کامیاب ہوتے نظر آرہے ہیں، مگر کیا یہ بجٹ عوام میں پاکستان تحریک انصاف کے خراب ہوچکے امیج کو بہتر بنا سکے گا؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب آنے والے وقت میں ہی مل پائے گا۔

راجہ کامران

راجہ کامران نیو ٹی وی سے وابستہ سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ آپ کا ٹوئٹر ہینڈل rajajournalist@ ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔