دیس سے پردیس: دیسی صارفین کا المیہ اور ڈینگی کا ڈنک (چھٹی قسط)
گزشتہ اقساط: پہلی قسط، دوسری قسط، تیسری قسط، چوتھی قسط، پانچویں قسط
پاکستان میں ایک عجیب مشاہدہ بھی ہوا یا یوں کہیے کہ ہمیں عجیب لگا، اور وہ یہ کہ جس مارکیٹ، ریسٹورینٹ، سیلون، پارک یا جم کا رخ کرتے تو اکثر جگہوں پر بولی وڈ موسیقی ہی سنائی دیتی ہے، حیرت انگیز طور پر ہر جگہ ہر دکان پر اگر کوئی موسیقی سنائی دے رہی تھی تو وہ انڈین موسیقی تھی۔
اب یہ بات ہمارے لیے حیرت انگیز اس لیے تھی کہ ہم 10 سال ایک ایسے ملک میں رہے تھے جہاں پر انڈیا اور پاکستان کی ایک کثیر آبادی مقیم ہے۔ تاہم وہاں ثقافتی اعتبار سے ہم خود کو ان سے الگ کرنے کی کوشش میں لگے رہتے تھے۔ باہر رہنے والا یا کم سے کم ایسے علاقے جہاں عرب امارات کی طرح انڈین اور پاکستانی کثیر تعداد میں ہوں، وہاں ہر پاکستانی خود کو پاکستانی دکھانا چاہتا ہے اور انڈین نہیں لگنا چاہتا۔ چنانچہ شروعات سے ہی ہمارا یہی دستور تھا، سو انڈین موسیقی، فلم، ڈرامہ اور دیگر متعلقہ چیزیں آہستہ آہستہ ہماری زندگیوں سے غائب ہوتی چلی گئیں۔
وہاں اسٹار پلس کے ڈرامے، ان کے زیورات اور رنگ برنگے ملبوسات ہمیں دھوکہ نہیں دے پاتے تھے۔ ہم تو یہ بھی بھول چکے تھے کہ جس پاکستان کو ہم چھوڑ کر آئے تھے وہاں ہم انہی کو دیکھتے اور سنتے پروان چڑھے تھے۔ ہمارے گھروں میں اس زمانے میں جن کیسٹوں کے ڈھیر ہوتے تھے وہ انڈین موسیقی اور ہندوستانی فلموں کی ہوتی تھیں۔
ہمارے گھروں میں ہماری سہیلیاں، بہن بھابھیاں جن ڈراموں پر جان دیتی تھیں وہ انڈین اسٹار پلس اور زی ٹی وی کے ڈرامے تھے۔ بہرحال یہ باتیں بھولے ہوئے خاصا عرصہ ہوگیا تھا۔ اب جب اچانک سے دوبارہ اس کا سامنا کرنا پڑا اور وہ بھی انہی دنوں جب تقریباً ہر فورم پر 'غزوہ ہند' کی داستان سنائی جا رہی تھی۔ اب ان تمام تر حالات میں جب پاکستان کے دارالحکومت کے ہر کونے میں صرف انڈین موسیقی چل رہی ہو تو حیرانی تو بنتی تھی نا۔
حقوقِ صارفین سے بے خبری ہر نکڑ، ہر گلی ہر موڑ اور ہر ریسٹورینٹ میں دیکھی گئی۔ بہت کم جگہوں پر بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ صارف کو عزت دی جاتی ہے اور کس حد تک دی جاتی ہے۔
اکثر جگہوں پر عملے کو آنے والے صارفین سے خفا پایا۔ بعض اوقات تو ایسا بھی لگا جیسے ہمیں وہ احسان سمجھ کر کھانا پیش کررہے ہیں، یقین جانیے بیچنے والے میں جتنا غرور پاکستان میں دیکھا، اس سے پہلے ایسا کہیں نہیں دیکھا۔
اس حوالے سے ایک اور واقعہ بھی یاد آگیا۔ ہم سیر کے لیے پی سی بھوربن پہنچے تو گیٹ پر ہی ہماری گاڑی سے سامان اتروا کے اس کی مکمل تلاشی لی گئی۔ ہمارے لیے یہ سب کچھ حیران کن تھا کیونکہ اگر یہ واقعہ عرب امارات میں ہوا ہوتا تو اس ہوٹل پر ہم کیس کردیتے اور بہت بڑی رقم اس کے ہرجانے میں حاصل کر لیتے کہ ہماری شان میں گستاخی ہوئی ہے۔ یہ انتہائی گستاخی اور بے ادبی کی بات ہے کہ جو صارف بھاری رقم ادا کرکے آپ کو بزنس دے رہا ہے اس کے سامان کی گیٹ پر بھونڈے انداز میں تلاشی لی جائے۔
عرب امارات میں جب بھی ہم نے ہوٹل میں قیام کیا تو عملے کو آس پاس پھرتے یس سر، یس سر کرتے ہی دیکھا۔ کوئی باہر کی دنیا ہو تو صارف وہیں سے ڈانٹ ڈپٹ کر واپس لوٹ جائے، جاکر ہوٹل پر ہتک عزت کا کیس کردے اور جیت بھی جائے۔
چند ماہ پہلے پی آئی اے کی فلائٹ میں سوار اسد عمر کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں وہ اسی حق کی خاطر لڑتے دکھائی دیے اور حیرت انگیز طور پر بڑے بڑے صحافی اور باہر کی یونیورسٹیز سے پڑھے ہوئے لوگ بھی اس حرکت پر اسد عمر کے ہی خلاف بولتے نظر آئے حالانکہ بولنا انہیں صارف کے حق میں چاہیے تھا۔
اسی پی سی بھوربن میں صبح ایک خاتوں ناشتے کے لیے خالی جگہ دستیاب نہ ہونے پر ایک دوسری فیملی کی میز پر بٹھا دی گئیں اور وہ خاتون بھی خاموشی سے سر جھکا کر بیٹھ گئیں۔ ہم قریب بیٹھے ہوٹل کی انتظامیہ کی اس جرأت پر حیران ہوگئے کہ کیسے وہ اپنے ایک مہمان جو کم سے کم 40 ہزار روپے کی رقم دے کر وہاں ٹھہرا ہے اسے کسی دوسرے کی میز پر ان کی فیملی کے بیچ میں بٹھا سکتی ہے کہ جس پر نہ وہ فیملی اعتراض کرتی ہے نہ وہ عورت کہ جناب ہم نے 40 ہزار روپے صرف اس مکمل میز کے لیے ہی بھرے ہیں ورنہ ہم بھی باہر کسی ڈھابے یا چارپائی پر، ہجوم کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھالیتے۔
مگر بات یہ ہے کہ جب تک خود پیسے دینے والے کو اپنے پیسے کی قدر کا احساس نہ ہو ہم اس کی خاطر پاکستان میں لڑ کر خود کو رسوا ہونے کا رسک نہیں لے سکتے تھے۔ اسی ہوٹل کے استقبالیے پر جو سوٹ بوٹ میں ملبوس عملہ تھا، وہ انگلش تو بولتا اور سمجھتا تھا مگر مہمان سے مسکرا کر ملنے سے قطعی گریز کرتا تھا تاکہ کہیں مہماں ہوٹل میں پہنچ کر تازہ دم اور ان کی مسکراہٹ سے محظوظ نہ ہوجائیں بلکہ اچھا ہے کہ خفت میں ہی مبتلا ہوجائیں۔ جب تک بیچنے والے اور خریدنے والوں کے حقوق کا برابر اطلاق نہ ہوگا، یہ چیزیں اور رویے بدلنے والے نہیں۔
ڈینگی سے بچاؤ کی جنگ اور میری کامیاب کوشش
ایک اور اہم تجربہ جو پاکستان میں ہوا وہ ڈینگی سے نمٹنے کا تجربہ تھا۔ نئے گھر میں سیٹ ہوتے ہی سب سے پہلا کام یہ کیا کہ گھر میں دو تین اخبارات اور رسالے لگوالیے۔ خبروں اور رسالوں کے لیے انٹرنیٹ کی محتاجی سے دل بھر چکا تھا۔ اپنے ملک اپنے دیس لوٹنے کی وجہ پھر سے اصل کی طرف لوٹنے کی خواہش تھی۔
یہی خواہش اخبار اور بچوں کے رسالے گھر لگوا کر پوری کی اور یہ سچ ہے کہ صبح صبح نہار منہ اخبار کا آنا ایک فیملی کے لیے خاصے کی چیز بن گیا۔ بچے اٹھتے ہی سب سے پہلے اخبار کا پوچھتے اور مل جائے تو سب سے پہلے کومک پڑھنے کو الجھتے۔ یہ ایک خوبصورت تجربہ تھا جس میں اخبار کے چند صفحات کے گرد ہم تینوں اکٹھے ہوجاتے۔
ورچؤل مخلوق یعنی انٹرنیٹ میں سب سے بڑی قباحت یہ ہے کہ یہ انساں کو تنہا کردیتی ہے۔ وہی اخبار جو گھر کے سب لوگ مل کر پڑھتے ہیں انٹرنیٹ پر یہ ایک انفرادی عمل بن کر رہ جاتا ہے جس سے کسی اور کا کچھ بھی لینا دینا نہیں ہوتا۔ فیملی کا ہر معلومات اور عمل میں اشتراک ختم ہو کر رہ جاتا ہے۔ چنانچہ اس اخبار نے ہم تینوں کو ایک عمل میں اکٹھا کردیا۔ یہ سہولت ہم باہر رہ کر بھی حاصل کرسکتے ہیں مگر باہر رہنے والوں کی اکانومی بہت سی مہنگی عیاشیوں کی متحمل کم ہو پاتی ہے اس لیے انٹرنیٹ پر انحصار زیادہ سے زیادہ ہوتا چلا جاتا ہے۔
اب جب روزانہ ہاتھ میں اخبار آنے لگے تو شہر میں کیا ہو رہا ہے اس کی خبر روز بروز گھر بیٹھے ملنے لگی۔ جب پہلے صفحہ پر ڈینگی کے پھیلنے کی بڑی بڑی خبریں چھپنے لگیں تو میرے رونگٹے کھڑے ہونے لگے۔
ڈینگی سے متعلق بنیادی معلومات خاصی کم تھیں لہٰذا سب سے پہلے تو اس کے بارے میں ساری معلومات اکٹھا کی، مارکیٹ گئی اور مچھروں سے نمٹنے کے سارے اسلحہ جات کی خریداری کی۔ یہ بھی خدا کا کرم تھا کہ ڈینگی کا سیزن تھوڑی دیر سے شروع ہوا ورنہ اگست کا مہینہ ہم ساروں کے بازو مچھروں سے چھلنی ہوتے گزرے تھے۔
اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ برانڈ نیو گھر میں ہم پہلے کرائے دار تھے اور ایک دن پہلے تک اس میں کھلے دروازوں کے ساتھ مزدور کام کر رہے تھے۔ مجھے پرانے پورشن کی جہنم سی زندگی سے نکلنے، گھر ڈھونڈنے اور شفٹ ہونے کی جلدی تھی سو ایسے میں نہ مچھروں کا خیال آیا نہ اسپرے کرنے کروانے جیسی کوئی کوشش کی۔ ایسا کوئی آئیڈیا بھی نہ تھا۔ آس پاس کی تمام ہریالی کے سبب گھر کے اندر مچھروں کا ڈیرہ تھا۔ بچت ہوئی کہ وہ عام مچھر تھے کچھ زیادہ بگاڑ نہ سکے۔
اب جب ڈینگی کا واویلا ہوا تو چوکس ہوئی۔ دروازے کھڑکیاں مزید بند رہنے لگے، اسپرے کیا، ہر کمرے میں مچھر مار کوائل سلگائے اور بیرونی دروازے پر ایک ماسکیٹو کلر بھی خرید کر نصب کردیا۔ لیکن بات یہاں پر ختم نہ ہوئی۔
ایک روز صبح مارکیٹ جانے کے لیے پورچ میں نکلی تو میری کالی قمیض پر بڑی بڑی لمبی ٹانگوں والا مچھر آن بیٹھا جس کی ٹانگوں پر سفید نشان تھے۔ میرا تو اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔ یہ ڈینگی بھی کیا ہمارے ہی گھر آنا تھا؟ ہمارا یہ گھر خاصی گہرائی پر واقع تھا جہاں پوری سڑک کا پانی ڈھلک کر آجاتا، ساتھ نکاسی کا نالہ موجود تھا مگر سڑک کی گہرائی میں گڑبڑ کی وجہ سے تھوڑا سا پانی لازما سڑک پر کھڑا رہتا شاید یہ اسی کا کمال تھا۔
اب جب میرے سر پر کوئی مصیبت آن پڑے تو میں عموماً سارے ڈر، خوف، ضابطے، لاحقے اور ہر طرح کے کوڈ آف لائف بھول جاتی ہوں۔ ابھی تک کسی ہمسائے کے گھر میں تانک جھلک تک نہ کی تھی مگر اب جب ڈینگی مچھر دیکھا تو آس پاس کے سب گھروں میں خود گئی۔ دروازے بجائے کرنل، برگیڈیئر اور ان کی بیگمات کو باہر نکالا کہ چلیے چل کر انتظامیہ سے اسپرے کا کہیں۔ اب شاید میں زیادہ ڈر گئی تھی اور شاید ایسی کوئی ڈرنے کی بات ہی نہیں تھی یا آس پاس کے لوگ زیادہ پُرسکون تھے کہ نہ تو میرے مچھر کو دیکھنے پر کسی کو کوئی فکر ہوئی نہ کوئی اتنا اس معاملے میں سنجیدہ ہوا کہ اس سلسلے میں کچھ کرنے کا خواہش مند ہو۔
ایک صاحب نے کہا کہ بی بی ہم نے ایڈمن آفس میں درخواست جمع کروا دی ہے۔ اب یا تو وہ میری بات کو سنجیدہ نہیں لے رہے تھے یا پھر ڈینگی ان کا دردِ سر تھا ہی نہیں۔ مگر میرے لیے یہ ایک سنجیدہ معاملہ تھا کہ میں پہلے اس کے بارے میں پوری طرح سے واقفیت نہیں رکھتی تھی۔ دوسرا میرا بیٹا زیادہ بخار برداشت نہیں کرسکتا تھا لہٰذا میں کوئی رسک لینے پر آمادہ نہ تھی۔
جب کوئی میرے ساتھ نہ چلا تو میں اکیلی ہی ایڈمن آفس پہنچی۔ سیدھا استقبالیہ میز پر گئی اور کہا کہ مجھے ان صاحب سے ملنا ہے جن کی کرسی سب سے بڑی ہے۔ بغیر کسی اعتراض کے مجھے ایڈمن کرنل صاحب کے پاس پہنچا دیا گیا جہاں میں نے دھاوا بول دیا۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ اسی دن ایڈمن صاحب اپنی ٹیم کے ساتھ ہمارے گھر کے دروازے پر اس نکڑ پر پہنچ گئے جس کی ہم باقاعدہ شکایت لگا کر آئے تھے۔ اب آس پاس ایک ہڑبونگ مچ گئی اور سب لوگ گھروں سے باہر نکل آئے۔
ساتھ والے گراؤنڈ میں اونچی اونچی بھنگ کھڑی تھی جسے ہٹانے کے لیے انتظامیہ کا جو ٹریکٹر کبھی اس طرف آیا ہی نہیں تھا وہ بھی اسی دن دو، چار لوگوں کے ساتھ آن پہنچا اور گراؤنڈ سے تمام جھاڑیاں کاٹ کر اسے مچھروں کی آماجگاہ سے خالی پلاٹ میں بدل دیا گیا۔
اگرچہ میرے مچھر دیکھنے پر ایڈمن صاحب نے یقین نہیں کیا تھا مگر چند روز کے دوران میری جانب سے پیش کیے گئے مقدمے سے متاثر ہوکر نہ صرف پانی کی نکاسی کا انتظام بہتر کروایا گیا بلکہ اسپرے کی گاڑی خصوصی طور پر میرے گھر کے اندر سپرے کرکے گئی۔ یہ بہت بڑی کامیابی تھی۔ جس کے لیے میں تن تنہا لڑی تھی۔ اس سے مجھے احساس ہوا کہ کوشش کی جائے تو دنیا میں ہر چیز ممکن ہے حتیٰ کہ پاکستان میں محکموں سے کام نکلوانا بھی۔ شاید مایوسیوں نے ہمیں کوشش کرنے سے ہی روک دیا ہے۔
میری کامیاب کوششوں کو دیکھ کر میرے قریبی دوستوں نے مجھے مشورہ دینا شروع کردیا کہ مجھے کونسلر کا الیکشن لڑ لینا چاہیے۔ چلو وزیرِاعظم نہ سہی مگر لوگوں کو کونسلر بننے کے اہل تو نظر آئے (قہقہہ)۔
صوفیہ کاشف ادبی مضامین اور افسانے لکھنے کا شوق رکھتی ہیں۔ آپ ان کے مزید مضامین ان کی ویب سائٹ SofiaLog پر پڑھ سکتے ہیں اور ان کے ولاگ ان کے یوٹیوب چینل SofiaLog. Vlog
پر دیکھ سکتے ہیں۔ ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔