نقطہ نظر

شریکِ حیات کے ساتھ شمالی علاقہ جات کا پہلا سفر

ایسا نہیں کہ اس سے قبل سفر نہیں کیا، بس اس بار احوال سنانے کا دل کیا۔ پھر یہ انوکھا سفر بھی رہا جو کورونا ایس او پیز کے تحت ہوا۔

یہ میرا پہلا سفر نامہ ہے۔ ایسا نہیں کہ اس سے قبل سفر نہیں کیا، بس اس بار احوال سنانے کا دل کیا۔

میری عادت تھی کے میں دوستوں کا انتظار کیے بغیر خود ہی مختصر دورانیے کے ٹور پر نکل جایا کرتا تھا۔ اس کی ایک وجہ دوستوں کی بہانے بازیاں بھی ہوتی تھیں۔

پچھلے سال کی بات ہے کہ میں کراچی سے لاہور اور پھر وہاں سے ایک ٹور لے جانے والی کمپنی کے ہمراہ 3 روزہ ٹرپ پر فیری میڈوز گیا تھا۔ وہ بھی شاندار تھا، کیونکہ عمر کے اس حصے میں آچکا تھا تو قوی امکانات تھے کے اگلی بار بیگم صاحبہ کے ساتھ ہی آنا ہو۔ اسی لیے بار بار ٹور پر بنے دوستوں کو کہتا تھا کہ یہ میرا آخری کنوارہ ٹرپ ہے۔ وہ بھی کہتے تھے کہ بس جی لو اپنی زندگی۔ اتفاق کہیے یا کیلکولیشن، ایسا ہی ہوا۔

یہ سفرنامہ میرے پہلے شادی شدہ ٹرپ کا ہے۔ ایک ایسا ٹرپ جو لاک ڈاؤن لگنے سے ایک روز قبل اختتام پذیر ہوا۔ ایک ایسا سفر جو کورونا وائرس کی ایس او پیز کو مدِنظر رکھتے ہوئے کیا گیا۔

11 مارچ 2021ء کو ہماری شادی اور 13 مارچ 2021ء کو ولیمہ انجام پایا۔ ہنی مون کا آغاز 16 مارچ سے طے شدہ تھا۔ اس حوالے سے ایک ٹورازم کمپنی کے ہمراہ پورا شیڈول پہلے سے طے تھا۔

زندگی میں پہلی بار فلائٹ کی بکنگ پہلے سے کروانے کا شدید دکھ ہوا کیونکہ کورونا وبا کے باعث ایک ماہ قبل بک کیے گئے ایئر ٹکٹس کی قیمت 10 ہزار سے اچانک 6 ہزار روپے پر آگئی تھی۔ بہرحال اس میں بھی کوئی بہتری ہوگی یہ سوچ کر نقصان بھلا بیٹھے۔

16 مارچ کو ہم میاں بیوی کراچی ایئرپورٹ سے اسلام آباد پہنچے اور پھر وہاں سے پرائیویٹ کار کے ذریعے بشام کی جانب سفر کا آغاز ہوا۔ عموماً لوگ اسلام آباد سے چلاس کی جانب سفر کرتے اور وہیں ٹھہرتے ہیں مگر مجھے چلاس قدرے گرم محسوس ہوتا ہے۔ کراچی والے تو اسی گرمی سے بھاگ کر شمالی علاقہ جات کی جانب سفر کرتے ہیں۔ راستے میں کئی مقامات پر کافی ٹھنڈ تھی۔ سفر کے دوران ایک مقامی ہوٹل پر ٹھہر کر فرائی دال کے مزے اڑائے اور چائے کی چسکیوں سے تازہ دم ہوکر آگے بڑھے۔

بشام میں رہنے کے لیے بہت اچھے ہوٹلز موجود نہیں ہیں۔ ایسے میں 'بشام کانٹینینٹل' اور 'ہلٹن ہوٹل' کو ہی وہاں کے اچھے ہوٹلز میں شمار کیا جاتا ہے۔ ہم اسلام آباد سے سیدھا بشام کے ہلٹن ہوٹل ہی پہنچے۔

ہوٹل مناسب تھا۔ ہمیں لگا کہ شاید اس سے بہتر بھی کوئی ہوٹل مل سکتا تھا، اب چونکہ ہمیں ہوٹل میں صرف رات ہی بسر کرنی تھی اس لیے اسی پر اکتفا کیا۔ صبح ناشتے کے فوری بعد دوبارہ سفر کا آغاز کیا۔ اس بار منزل ہنزہ تھی۔

کچھ دشوار گزار راستے بھی آئے اور ہچکولے کھاتے ہم لمبا سفر طے کرکے ہنزہ پہنچ ہی گئے۔ سوچا تھا پہنچتے ہی کریم آباد بازار نکل پڑیں گے مگر ہنزہ کے ہوٹل میں داخل ہوتے ہی سفر کی تھکن نے کمرے تک محدود کردیا۔ پہلی رات سرینا ہوٹل میں مینیو کارڈ اٹھایا اور جذبات میں آکر سارے روایتی پکوان چھوڑ کر مقامی ڈش آرڈر کرنے کی ٹھانی۔ چاپ شورو آرڈر کیا۔ جس کا صرف ایک ہی ٹکڑا کھا سکے۔ 'چاپ شورو' کراچی کے حساب سے سمجھیں تو قیمے بھرے نان کے جیسی ایک سوغات ہے۔ گلگت سے تعلق رکھنے والے ہمارے ایک دوست نے بتایا کہ چاپ کے معنی گوشت اور شورو کے معنی روٹی کے ہیں۔ ہنزہ کی رات بڑی سنسان تھی۔

لوگ جلدی سوجاتے ہیں تو ہوٹل کے باہر چہل قدمی پر بھی کچھ محسوس نہیں ہوتا۔ صبح کا آغاز خوبصورت تھا۔ دروازے کے باہر دراز قد کے درخت جن پر بہار کی آمد سے قبل چیری بلوسمز پھوٹ رہے تھے، جو قدرت کی رنگینیوں میں حسین اضافہ تھے۔ ہوٹل کے اوشو ماراکہ ریسٹورینٹ میں ناشتے کے بعد کچھ دیر ہوٹل کے کمرے میں قیام کیا اور پھر کریم آباد بازار کی راہ لی۔ وہ 2 کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ عمومی تاثر یہ ہے کہ سیاحتی مقامات پر چیزیں مہنگی فروخت ہوتی ہیں جو غلط ثابت ہوا۔ لال شہزادی کے چرچے ہم نے سُن رکھے تھے۔ ان کے چھوٹے سے ڈھابے پر پہنچے اور چپسی ڈاؤڈو نامی سوپ سے لطف اندوز ہوئے۔ کھانے کے لیے رات کا وقت طے کیا۔

بلتت فورٹ کے حوالے سے بھی کافی ویڈیوز دیکھ رکھی تھیں تو سوچا کون انٹری ٹکٹ لے لہٰذا باہر سے ہی تصاویر بنا کر نیچے اتر آئے۔ ڈرائیور جوکہ ہمارا گائیڈ بھی تھا اس نے مشورہ دیا کہ کم از کم التت فورٹ کا دورہ ضرور کریں تو ہم وہاں نکل پڑے۔

یہاں 600 فی کس انٹری فیس ادا کرکے ہم التت فورٹ میں داخل ہوگئے۔ اطراف کا نظارہ حسین تھا، فضا پُرسکون تھی۔ ہمیں قلعے کے گائیڈ نے خوش آمدید کہا۔ انہوں نے بتایا کہ جنگ کے دوران چھوٹے دروازوں کا فائدہ یہ ہوا کرتا تھا کہ دشمن اچانک گھسنا بھی چاہے تو اسے تاخیر کا سامنا کرنا پڑے۔ ہر کمرے کے اوپر ایک چار کونے والا روشن دان نمایاں تھا۔

قلعے کی بالائی منزل سے نظارہ بھی خوب تھا۔ ہم نیچے آئے اور سرد موسم میں چائے کا لطف بھی اٹھایا۔ فورٹ میں بنے ریسٹورینٹ کا پورا اسٹاف خواتین پر مشتمل تھا۔ ہنزہ میں داخلے کے بعد ہمیں اس بات نے بھی بہت متاثر کیا کیونکہ خواتین کو بااختیار بنانے یا وومن امپاورمنٹ کی اصل مثال ہمیں ہنزہ میں دکھائی دی۔ یہاں خواتین تعلیم کے ساتھ ساتھ کاروباری میدان میں بھی مردوں کے شانہ بشانہ بلکہ یوں کہیے کے ان سے زیادہ سرگرم نظر آئیں۔ التت فورٹ سے واپسی کے وقت دن ڈھلنے لگا تھا۔ ہم ہوٹل جاکر وقت ضائع نہیں کرنا چاہتے تھے اس لیے ایک بار پھر کریم آباد بازار چل پڑے۔

یہاں سے ہم ایک بار پھر لال شہزادی کے ڈھابے پر پہنچے اور 'گر گر آلو' کا آرڈر دیا۔ یہ دراصل آلو، ملکہ مسور کی دال اور چاول سے بننے والا ایک پکوان ہے جو بہت لذیذ تھا۔ تیز بھوک میں تو مزہ ہی دوبالا ہوگیا۔ قیمت بھی انتہائی مناسب تھی۔ جس دوران کھانا بن رہا تھا، گلیشیئر ٹوٹنے سے ہوا کے ساتھ ہمیں اڑتی برف بھی ملی۔

یوں لگا جیسے ہنزہ نے کھل کر خوش آمدید کہا ہو۔ جاتے جاتے لال شہزادی سے جب چاپ شورو کی قیمت پوچھی تو بہت حیرانی ہوئی۔ وہی پکوان جو ہم نے اپنے ہوٹل میں 900 روپے دے کر کھایا تھا وہ یہاں 150 روپے میں دستیاب تھا۔ میرا مشورہ ہے کہ جو بھی ایسے مقامات کا سفر کرے وہ پہلے مقامی ہوٹلوں اور ڈھابوں کا رخ بھی کرلے۔ قیمتوں میں واضح فرق مل جاتا ہے۔ اس رات ہنزہ میں ٹھہرنے کے بعد ہم اگلی صبح خنجراب پاس کی جانب روانہ ہوئے۔

یہ وہ مقام تھا جہاں ہم نے پہلی بار برف دیکھنی تھی۔ چائنا بارڈر پر پاکستان کی بلند ترین اے ٹی مشین دیکھنے کا خواب بھی پایہ تکمیل کو پہنچنا تھا۔ اس راستے پر سفر کے لیے فور بائی فور گاڑی کا ہونا لازمی ہے۔

قریباً 3 گھنٹوں کا سفر طے کرنے اور راستے میں برف میں پھنسی گاڑی کو دھکے لگانے کے بعد میں نے ڈرائیور سے کہا کہ بارڈر پر ہم کم از کم آدھا گھنٹہ تو گزاریں گے۔ وہ مسکرایا اور کہا ایک گھنٹہ رک جائیے گا۔

بارڈر پہنچ کر گاڑی سے نکلے تو محسوس ہوا کہ ڈرائیور کیوں مسکرایا تھا۔ بمشکل 3 منٹ چائنہ بارڈر پر رکنے کے بعد ہم فوری اپنی گاڑی میں آکر بیٹھ گئے۔ اس کا اندازہ بارڈر پر لی گئیں ہماری آڑی ترچھی تصاویر سے لگایا جاسکتا ہے۔

اب جس منزل پر ہمیں پہنچنا تھا وہاں جانا میری دلی خواہشات میں اوّلین تھا۔ مجھے دوستوں نے بتا رکھا تھا کہ عطا آباد جھیل شام 4 بجے تک پہنچ جاؤ تو شام کا نظارہ خوب ہوتا ہے لیکن ہم ٹائم مینج نا کرسکے اور عین مغرب کے وقت جھیل پر قائم لکزس ہنزہ نامی ہوٹل میں چیک ان کیا۔

خوبصورت نظاروں کی وجہ سے اس ہوٹل کا ایک روز کا کرایہ 25 ہزار سے شروع ہوتا ہے۔ یہاں رات گزارنے کا تجربہ بھی خوب تھا۔ ہمارے کمرے کی کھڑکی جھیل کے سامنے کھلتی تھی۔ ہوٹل کی بناوٹ ہی ایسی ہے کہ ایسا ہی نظارہ کم و بیش تمام کمروں سے دکھائی دیتا ہے۔ اتفاق سے کراچی سے آئے 2 شادی شدہ جوڑوں کی بدولت ہمیں جھیل کنارے بون فائر کا موقع بھی مل گیا۔ ہم نے وہاں گیت گائے اور بہترین وقت گزارا۔

ہمیں کسی نے بتایا تھا کہ ہوٹل میں ہر چیز کی قیمت زیادہ ہے لہٰذا ڈرائیور سے کہہ کر قریب واقع ایک ہوٹل پہنچے اور وہاں مٹن کڑاہی کا لطف اٹھایا۔

ٹھنڈ بڑھی تو واپس ہوٹل کے کمرے میں آکر بیٹھنے میں غنیمت جانی۔ صبح ایک بار پھر جھیل کا نظارہ کیا، ناشتہ کھایا اور پھر کشتی رانی کے لیے جھیل کے پوائنٹ پر پہنچے۔ آپ کو 2 ہزار سے لے کر 5 ہزار روپے میں 45 منٹ کی بوٹ رائیڈ باآسانی مل جاتی ہے۔

عطاء آباد پر سدپارہ کی یاد

ویسے تو میں کسی پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ کر اپنا لکھا ہوا گیت ریکارڈ کرنا چاہتا تھا لیکن ہنی مون پر ایسا کرنا بیگم کے ساتھ ناانصافی ہوتی۔ مگر بھلا ہو ہماری بیگم کا جنہوں نے جھیل کنارے میری ویڈیو کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ یہ گیت پہاڑوں سے تعلق رکھنے والے محمد علی سدپارہ کے لیے میرا خراجِ عقیدت تھا۔

گیت کی عکاسی کے بعد عین 12 بجے ہم لکزس ہنزہ سے روانہ ہوئے۔ اتنے پیسے ادا کرنے کے بعد بھی وقت سے پہلے نکلنا سراسر بے وقوفی ہوتی۔

اگلا پڑاؤ گلگت تھا۔ گلگت میں رات قیام سے قبل ہم نے نلتر وادی کا رخ کیا۔ سن رکھا تھا کہ وہاں حال ہی میں برفباری ہوئی ہے تو موسم خوشگوار ہوگا۔ ڈرائیور نے نومل تک پہنچایا اور وہاں سے ایک بار پھر فور بائی فور گاڑی سے سفر شروع ہوا۔ دشوار گزار راستے سے نلتر پہنچنے میں بھی ہمیں 2 گھنٹے لگ ہی گئے۔ راستہ دیکھ کر معلوم ہورہا تھا کہ شاید بلندی پر بھی ایسے ہی چٹیل پہاڑ ہوں گے لیکن وہاں پہنچ کر صورتحال مختلف تھی۔ پہاڑ برف سے ڈھکے ہوئے تھے۔

کورونا کے باعث سیاحوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔ بیگم نے تو ہمت ہار دی مگر میں نے نلتر میں قائم کیے گئے پنجرے میں قید برفانی تیندوے کو دیکھ کر ہی دم لیا۔

گلگت میں ہمیں ایک روز قیام کرنا تھا مگر گلگت میں ہمارے دوست رحمٰن بھائی کی دعوت نے ہمیں اپنے ٹور کو ایک روز کی طوالت دینے پر مجبور کردیا۔ گلگت کے ہوٹل میں صبح کے ناشتے کے بعد ہی رحمٰن بھائی اور ان کی اہلیہ ہوٹل کے باہر ہمارے منتظر تھے۔ گلگت کے بازار سے ٹراؤٹ مچھلی خریدی اور خضرآباد کی جانب روانہ ہوئے جہاں رحمٰن بھائی کی بہن اور ان کے گھر والے ہمارے استقبال کے لیے تیار تھے۔

اس سے قبل ایک دلچسپ معاملہ یہ ہوا کہ ہم نے خضر آباد پر روایتی رقص میں بھی حصہ لیا گیا۔ جی ہاں خوش قسمتی کہیے یا اتفاق اس روز 'نوروز' منایا جارہا تھا۔

نوروز یعنی نیا دن ایک ایرانی تہوار ہے، جسے فارسیوں کا نیا سال بھی کہا جاتا ہے۔

اپنی بنیاد میں ایرانی اور زرتشتی تہوار ہونے کے باوجود، نوروز کا تہوار دنیا بھر میں متنوع نسلی و لسانی گروہ مناتے ہیں۔ مغربی ایشیا، وسطی ایشیا، قفقاز، بحیرہ اسود اور بلقان میں یہ تہوار 3 ہزار سالوں سے منایا جا رہا ہے۔ بیشتر تہوار منانے والوں کے لیے یہ ایک سیکولر تعطیل ہے جو مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ مناتے ہیں، لیکن زرتشتی، بہائی اور بعض مسلم گروہوں کے لیے یہ ایک مذہبی دن ہے۔

کچھ دیر محفل کا حصہ بننے کے بعد اونچائی پر قائم رحمٰن بھائی کے گاؤں کی جانب بڑھے تو ہلکی بارش نے سفر کو اور بھی خوشگوار بنادیا۔ ٹھند بڑھنے لگی تھی۔ فوری گھر میں داخل ہوئے اور گرم شال کی مدد سے خود کو سردی سے بچایا۔

رحمٰن بھائی کے گھر والوں نے انتہائی محبت سے کھانے کا اہتمام کیا تھا۔ روایتی پکوانوں کے ساتھ تازہ ٹراؤٹ مچھلی کا لطف بھی اٹھایا۔ کچھ دیر باغات کی سیر کی، موسم ایسا تھا کہ خوبانیاں اور چیریاں لگنے میں کچھ وقت تھا۔ فیملی کو شکریہ کہنے کا ایک ہی طریقہ تھا اور وہ میں نے گیت گنگنا کے پورا کیا۔

گاؤں سے واپسی پر سورج ڈھل چکا تھا۔ ہم واپس گلگت میں اپنے ہوٹل لوٹ آئے تھے۔ رحمٰن بھائی کو ہم نے الوداع کہہ دیا تھا۔

اگلے روز صبح ہوٹل سے واپسی بشام روانہ ہونا تھا۔ اتفاق سے ایک شادی شدہ جوڑا جو ہمیں عطا آباد جھیل پر ملا تھا وہ بھی گلگت کے ہوٹل میں ٹھہرا ہوا تھا۔ صبح ان کے ساتھ بھی اچھا وقت گزرا اور ہم کم و بیش ایک ساتھ ہی بشام کی جانب روانہ ہوئے۔ چونکہ میں نے ٹریول کمپنی سے صرف گلگت ہنزہ کے سفر کی ہی بلنگ کرائی تھی اس لیے ٹور ختم ہونے پر لگا کہ اب بھی کچھ کمی سی رہ گئی ہے۔ ہماری اسلام آباد سے واپسی کی ٹکٹس 28 مارچ کی شام کے لیے بک تھیں۔

اسلام آباد واپسی جاتے تو لاک ڈاؤن کے باعث صرف ہوٹل تک ہی محدود رہتے۔ لہٰذا بیگم سے مشورے کے بعد اچانک 2 روز سوات میں گزارنے کا فیصلہ کیا۔

ایک بار پھر تھکا دینے والا سفر کرتے ہوئے بشام پہنچے۔ مسلسل بارشوں کے باعث راستے میں لینڈ سلائیڈنگ نے ایک گھنٹے ہمارا راستہ بھی روکے رکھا۔بعدازاں بشام میں رات قیام کیا۔

عموماً لوگ مختصر چھٹی گزارنے مری کا رُخ کرتے ہیں لیکن مری میں سیاحوں کے ساتھ تواتر سے پیش آنے والے واقعات نے عوام کے بھروسے کو شدید ٹھیس پہنچائی ہے، اور موٹر وے بن جانے کے بعد میں بھی اب لوگوں کو مری کے بجائے سوات جانے کا مشورہ دیتا ہوں۔ ہم بھی براستہ موٹروے 3 گھنٹوں میں سوات میں داخل ہوچکے تھے۔ یہاں کی فضا میں الگ ہی سکون تھا۔ ہنزہ میں میرا ارادہ تو یہ تھا کہ بیگم صاحبہ کو فیری میڈوز کی سیر کراؤں لیکن مارچ کے مہینے میں برف پڑنے کے باعث بابوسر ٹاپ جانے والا راستہ بند تھا۔

بشام سے سوات پہنچنے پر ہم نے ہوٹل چیک اِن کرنے کے بجائے کالام کی جانب سفر کرنا زیادہ بہتر سمجھا تاکہ کم وقت کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جائے۔

کالام میں پہاڑ برف کی چادر اوڑھے ہمارے منتظر تھے۔ وہاں کسی ہولی وڈ فلم میں دکھائے جانے والے راستوں کا گمان ہورہا تھا۔ راستے میں پل ٹوٹے ہونے کی وجہ سے کالام پہنچنے میں تاخیر بھی ہوئی مگر اوشو فارسٹ میں قد آور درختوں پر لگے برفانی گچھوں کو دیکھ کر واقعی عقل دنگ رہ گئی۔ سرد موسم میں وہاں آلو کے چپس، بیسن لگے ابلے انڈے اور چائے تو کبھی بھلائے نہیں بھول سکتے۔

کچھ دیر وہاں رکنے کے بعد واپسی پر سوات کے فضا گھاٹ میں اپنے ہوٹل کی جانب روانہ ہوئے۔ راستے میں بحرین بازار میں بھی رکے۔ ڈرائیور نے بتایا تھا کہ یہاں رات کو ہی رونق ہوتی ہے اور واقعی ایسا تھا۔

گوکہ سیاحوں کی تعداد امید سے کم تھی مگر بحرین بازار کے مشہور چپلی کباب کھائے بغیر نہ آئیے گا۔ ہماری خوارک کے حساب سے تو ایک پاؤ کا کباب اور 3 روٹیاں کافی تھیں۔ تیز بھوک میں آپ شاید زیادہ ہی کھا بیٹھیں۔ ہمیں رات شیلٹن ریزیڈور نامی ہوٹل میں رکنا تھا۔ کم و بیش اس ہوٹل کا ایک رات کا کرایہ 6 سے 7 ہزار روپے ہے لیکن یہاں رہنے کا ہمارا تجربہ اتنا بہتر ثابت نہیں ہوا۔ اس کے برابر میں برج السوات کی ہم نے تعریف سن رکھی تھی لیکن سوات میں رہنے والے ایک دوست فاروق نے ہمیں 'سوات پیلس' رکنے کا مشورہ دیا۔ ہوٹل واقعی شاندار تھا۔ شیلٹن میں ایک رات قیام کے بعد ہم صبح مالم جبہ کی سیر کو نکل پڑے۔

کھڑکی سے باہر جھانکتے میں اور نزاہت یہی سوچ رہے تھے کہ واقعی موسم چار نہیں ہوتے۔ انتہائی موزوں وقت کہیے یا پھر قسمت۔ ہم نے اس پورے سفر میں ایسے ایسے موسم دیکھے کہ شاید اگلی بار بھی اسی مہینے کا انتخاب کریں۔ کہیں کڑکتی دھوپ، کہیں دھوپ میں بارش، کہیں برف باری، کہیں برف میں دھوپ، کہیں برف باری، بارش اور اگلے ہی لمحے چلچلاتی دھوپ اور گرمی۔ کہیں آبشاروں سے گرتا پانی تو کہیں بادلوں کا ہر منظر دھندلا دینا۔

گویا ہر موسم قدرت کے حسین نظاروں میں منفرد رنگوں کو بھر رہا تھا۔

مالم جبہ پہنچ کر کرائے پر لانگ بوٹس لیے اور پھر چیئر لفٹ کی ٹکٹس لینے پہنچے۔ 600 روپے فی بندہ ٹکٹ لے کر آپ ایک پوائنٹ سے دوسرے پوائنٹ پر اچھا وقت گزار سکتے ہیں۔ اب تک کے سفر میں ہم نے برف پہاڑوں پر جمی دیکھی تھی اور خواہش تھی کہ خود بھی برف باری کا تجربہ کیا جائے۔

مالم جبہ پر پکوڑوں اور چائے کا لطف لینے اور 2 سے 3 گھنٹے گزارنے کے بعد موسم کی خرابی کے باعث جب چیئر لفٹ بند کرنے کا فیصلہ ہوا تو ہم نے بھی واپسی کی راہ لینے کی ٹھانی۔ ایسے میں اچانک ہونے والی برف باری نے کچھ دیر اور ٹھہرنے پر مجبور کردیا۔ گویا ایک آخری خواہش بھی پوری ہوئی۔ اتفاق سے اپنے ادارے کے ایک نمائندے شیرین زادہ صاحب سے ملاقات بھی ہوگئی، انہوں نے بغیر بتائے آنے پر شکوہ بھی کیا۔ واپس ہوٹل پہنچے۔

اس رات ہم نے 'سوات پیلس' میں بکنگ کرائی تھی۔ قریب ہی دوست کے ہوٹل 'کیفے سوات' میں کھانے کے بعد خشک میوے سے بنی گرم چائے کا بھی لطف اٹھایا۔ فاروق نے اس دور کا قصہ بھی چھیڑا جب لوگوں کو نقل مکانی کرکے سوات سے جانا پڑا تھا مگر اب حالات ماضی سے مختلف ہیں۔ مقامی لوگ بھی سیاحت کا فروغ چاہتے ہیں کیونکہ اس سے مقامی کاروبار پر مثبت اثر پڑتا ہے۔

سوات سے اگلی صبح ہم موٹر وے کے ذریعے اسلام آباد پہنچے تھے۔ ٹور کمپنی کی خدمات یہاں ختم ہوئیں اور ہم ایک بار پھر 4 روز کے لیے اسلام آباد میں قید ہوگئے۔ ان دنوں جب راولپنڈی اور اسلام آباد میں کورونا کیسز کی شرح میں اضافہ ہوا تو ہوٹل مالکان کو بھی نئی ایس او پیز جاری کی گئیں۔

ہم ہوٹل مرگلہ میں 3 راتیں ٹھہرے۔ عموماً لوگ آپ سے کہتے ہیں کہ فلاں جگہ آؤ تو ہمیں ضرور بتانا۔ کئی دوست احباب اسلام آباد میں بھی مقیم ہیں۔ میں نے اسلام آباد داخل ہوتے ہی فیس بک پر چیک اِن کردیا کہ لوگوں کو معلوم ہوجائے۔ مجال ہے جو کسی نے ایک کال بھی کی ہو۔

ہوٹل کے کمرے میں 4 روز مقید رہنے کے دوران ٹیلی ویژن پر لاک ڈاؤن میں سختی کی خبریں سن کر میں نے ایئر لائن سے روانگی کی پیشگی درخواست بھی کی۔ مگر ٹکٹ منسوخی پر آنے والی لاگت نئی ٹکٹ سے زیادہ تھی۔ ڈر صرف یہ تھا کہ کہیں دورانِ سفر کورونا ٹیسٹ کا سرٹیفکیٹ لازمی نہ قرار دے دیا جائے۔ بہرحال 28 مارچ 2021ء کو ایئر پورٹ پر پہنچ کر جان میں جان آئی۔

ایک شکوہ اسلام آباد ایئر پورٹ کی انتظامیہ سے رہے گا کہ جہاں اتنا وسیع و عریض ایئرپورٹ ہونے کے باوجود عوام سے سیدھے منہ بات تک نہیں کی جاتی۔ کراچی ایئرپورٹ پہنچے تو اپنے شہر کی گرم فضاؤں نے سارا حساب کتاب برابر کردیا۔ مگر اپنا شہر تو اپنا ہوتا ہے۔ انسیت ہوجاتی ہے۔ دوست منتظر تھے۔ ہم اپنے ہمراہ صرف اسلام آباد کی تہذیب بیکری کے بسکٹ لائے تھے کیونکہ موجودہ دور میں تمام تر سامان باآسانی آن لائن کراچی میں بھی دستیاب ہوتا ہے۔ ایسے میں سامان کا بوجھ لاد کر آنے میں کوئی عقلمندی نہیں ہے۔

تصاویر: لکھاری


لکھاری پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں۔ جامعہ کراچی سے شعبہ ابلاغ عامہ میں تحقیق کررہے ہیں۔ تفریح کے ساتھ ساتھ دلچسپی کے موضوعات پر بھی لکھتے ہیں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

سید سبط حسان رضوی

لکھاری پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں۔ جامعہ کراچی سے شعبہ ابلاغ عامہ میں تحقیق کررہے ہیں۔ تفریح کے ساتھ ساتھ دلچسپی کے موضوعات پر بھی لکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔