پاکستان

ریلوے ٹریک کو بہتر کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں، اعظم سواتی

ٹریک ٹھیک کرنے کے لیے کوئی نئی ٹیکنالوجی نہیں ہے، ہم پرانے طریقوں سے اس کی مرمت کرتے ہیں، وزیر ریلوے

وفاقی وزیر ریلوے اعظم خان سواتی کا کہنا ہے کہ ریلوے حاددثات سے بچنے اور قیمتی جانوں کے ضیاع کو روکنے کے لیے ریلوے کے انفراسٹرکچر کو اپ گریڈ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

لاہور میں ریلوے ہیڈ کوارٹر میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ریلوے حادثے میں 63 افراد شہید اور 20 زخمی اب تک ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں، جن میں سے 3 آئی سی یو میں ہیں جبکہ باقی دیگر کی حالت بہتر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'حادثے کے فوراً بعد جائے وقوع پر پہنچ کر ہر چیز کا جائزہ خود لیا اور ٹریک کی مکمل بحالی تک وہیں موجود تھا'۔

انہوں نے حادثے میں مرنے والوں کو 15 لاکھ روپے اور زخمیوں کی حالت کو دیکھتے ہوئے انہیں 3 لاکھ روپے معاوضہ ادا کرنے کا اعلان بھی کیا۔

مزید پڑھیں: ریلوے کے خستہ حال ٹریکس کی فوری مرمت کی جائے، ٹرین ڈرائیورز کا مطالبہ

انہوں نے کہا کہ 'وزیر اعظم سے ملاقات میں ان سے بات کروں گا کہ متاثرین کے لیے ہم مزید کیا کرسکتے ہیں'۔

وزیر ریلوے نے بتایا کہ 2014 سے اب تک مین لائن کے ٹریک پر کوئی بڑا خرچہ نہیں ہوا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ابتدائی تحقیقات کے مطابق جس جگہ حادثہ ہوا وہاں ٹریک کی خرابی کے امکانات بہت کم ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'سکھر کے ٹریک کو کئی مرتبہ خطرناک ٹریک قرار دے چکا ہوں، اس پر کئی مقامات پر رفتار کم کرنے کی پابندیاں لگائی ہوئی ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'کوچز 50 سال پرانی ہیں، ٹریک ٹھیک کرنے کے لیے کوئی نئی ٹیکنالوجی نہیں ہے اور ہم پرانے طریقوں سے اس کی مرمت کرتے ہیں'۔

یہ بھی پڑھیں: اعظم سواتی نے ٹرین حادثے کی ذمہ داری قبول کرلی

اعظم سواتی کا کہنا تھا کہ پاکستان کی معیشت کو اٹھانا ہے، درآمد، برآمد کنندگان کی لاگت کو کم کرنا ہے تو ہر صورت میں ریلوے ٹریک کو اپ گریڈ کرنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں، اس کے لیے میں 5 ماہ سے انتظار کر رہا ہوں'۔

انہوں نے بتایا کہ '60 ارب روپے میں ٹریک بنانے جارہا ہوں، انسانی جانیں بچانے کے لیے یہ نہایت ضروری ہے تاہم ریلوے کی مکمل اپ گریڈیشن کے لیے مجھے 620 ارب روپے چاہیے ہوں گے'۔

وزیر ریلوے کا کہنا تھا کہ 'تحقیقات مکمل ہونے میں 3 سے 4 ہفتے لگیں گے جس میں تمام چیزیں سامنے آئیں گی، 12 بوگیوں کے پٹری سے اترنا حادثے کی وجہ ہے اور پاکستان کی تاریخ میں دوسری مرتبہ ایسا ہوا ہے، ہم اس کی وجوہات جاننے کی کوشش کر رہے ہیں'۔

مزید پڑھیں: گھوٹکی کے قریب مسافر ٹرینوں میں تصادم، 51 افراد جاں بحق، 100 زخمی

ان کا کہنا تھا کہ 'بوگیاں جب پٹری سے اتریں تو ایک منٹ کے اندر دوسری ٹرین آگئی جس کی وجہ سے لوگوں کو اور ڈرائیور کو بھی بچاؤ کا وقت نہیں مل سکا اور زیادہ قیمتی جانیں ضائع ہوئیں'۔

انہوں نے کہا کہ ریسکیو ٹرین کو اسٹارٹ کرکے اسے حرکت میں لانے میں 45 منٹ لگتے ہیں تاہم یہ 2 سے ڈھائی گھنٹے تاخیر سے آئی، اس کے ذمہ داروں کا تعین کیا جائے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'مسافروں نے بتایا ہے کہ کراچی سے جب ٹرین چلی تھی تو اس کے ڈبے ہل رہے تھے'۔

’ووگ‘ فوٹو شوٹ کی تیاری میں 15 برانڈز نے ملالہ یوسف زئی کی مدد کی

اینڈرائیڈ آپریٹنگ سسٹم کے مقابلے میں ہواوے کے اہم ہتھیار کی ڈیوائسز میں آمد

کراچی: ڈرامے کی شوٹنگ کے دوران گارڈ کی فائرنگ سے 9 افراد زخمی