قریشی صاحب کی ملتانی اور شہباز شریف کی عربی، دونوں فیل ہیں
'جب تک کپتان وزیرِاعظم ہیں، امریکا کو پاکستان میں بیس نہیں ملیں گے'، شاہ محمود قریشی کا یہ بیان اسی نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں چھپا ہوا ہے جس میں امریکی خفیہ ادارے سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کے ڈائریکٹر کے خفیہ دورہ پاکستان کا ذکر موجود ہے۔ ساتھ ہی یہ لکھا ہوا ہے کہ ڈائریکٹر نے بیس کے حوالے سے براہِ راست کوئی بات نہیں کی۔ یہ اور ایسی دوسری باتیں امریکی وزیرِ دفاع نے ٹیلی فونک رابطوں میں کی ہیں۔
شاہ محمود قریشی نے ایشیا نکئے کو ایک ہٹ کر انٹرویو دیا، جس میں انہوں نے کہا کہ امریکا نے دوست بدل لیے ہیں۔ ہم وہی ہیں، لیکن اب ہمارے خیالات بدل گئے ہیں۔ امریکا کو اب ہم بیس دیں گے لیکن وہ اقتصادی بیس ہوں گے۔
پاکستان پیپلز پارٹی مطالبہ کر رہی ہے کہ امریکا انخلا کے بعد بدلتی علاقائی صورتحال پر پارلیمنٹ کو ان کیمرہ بریفنگ دی جائے۔ پارلیمنٹ کو بریفنگ تو ضروری ہے ہی لیکن ایسی بریفنگ پختون ممبران اسمبلی، سیاسی قیادت اور پختون صحافیوں کو بھی دی جانی چاہیے تاکہ پتہ لگے کہ شاہ محمود قریشی کی میٹھی ملتانی جو عالمی میڈیا پر دھوم مچا رہی، ان سب پر کتنا چلتی ہے۔
سفارتی حوالے سے ہم ایک اور مشکل میں یوں پھنسنے والے ہیں کہ ترکی نے نیٹو اتحاد سے کہا ہے کہ امریکی انخلا کے بعد وہ کابل ایئرپورٹ پر اپنے فوجی دستے تعینات کرنے پر تیار ہے۔ چین پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو وہ افغانستان میں اپنی فوج بھیجنے پر غور کرے گا۔ چین کو اپنے مسلمان صوبے کی ترک آبادی میں بے چینی کا سامنا ہے۔
ترکی اور چین دونوں ہمارے قریبی دوست ملک ہیں۔ ہماری اس مشکل کو بھی قریشی صاحب کی سفارتی مہارت درکار ہے۔
دراصل امریکی ہم سے اپنا کوئی پرانا بدلہ لینے کو پھر رہے ہیں۔ جن طالبان کو وہ خود 20 سال میں نہ ہرا سکے، ان سے دوحہ معاہدہ کرکے اور اس میں لکھی ضمانتوں پر اصرار کیے بغیر ہی فرار ہو رہے ہیں۔ یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ وہ ایک طرح سے افغانستان کو طالبان کے حوالے کرکے جارہے ہیں۔
سی آئی اے الجھن کا شکار ہے کہ جب وہاں ہمارے بیس نہیں ہوں گے تو ہم انٹیلی جنس آپریشن دُور سے بیٹھ کر کیسے اور کتنے اچھے کرلیں گے؟ شہزادے شاید بھول گئے ہیں کہ جب یہ افغانستان میں بیٹھ کر آپریشن کرتے تھے تو اس کا نتیجہ بھی طالبان کی آسان بھرتی کی صورت میں نکلتا تھا۔
پڑھیے: بائیڈن انتظامیہ میں افغان امن عمل کا مستقبل کیا ہوگا؟
اب امریکی پاکستان میں اڈے مانگ رہے ہیں۔ ایشیا ٹائم کی ایک رپورٹ میں یہ تذکرہ ملتا ہے کہ پاکستان میں امریکا کو بیس دینے کا مطلب یہ ہوگا کہ پاکستان امریکا کی انڈو پیسفک بس پر سوار ہوگیا ہے۔ اب انڈو پیسیفک بس یا پالیسی جو کچھ بھی ہے مگر چین کے خلاف ہے۔ ایشیا ٹائم ہانگ کانگ سے چھپتا ہے، باقی آپ خود ہوشیار ہیں، لگا لیجیے حساب۔
ایک پختون نیشنلسٹ طالبان مخالف لیڈر جو افغانستان پر سرکاری بریفنگ میں بھی شریک ہوجاتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اس وقت اگر پاکستان طالبان کے مخالف کھڑا ہوتا ہے تو اس کا مطلب اصل میں امریکا کے مخالف کھڑا ہونا بھی ہوسکتا ہے۔ چنانچہ جو قدم اٹھانا ہے پھونک پھونک کر اٹھایا جائے۔
طالبان امریکا کو میدان میں شکست دے چکے ہیں اور میز پر بھی اپنی بات منوائی ہے۔ افغان حکومت جسے وہ حکومت ہی نہیں مانتے کیا وہ اس کے ساتھ مذاکرات کریں گے؟ یا دو دو ہاتھ کرنا چاہیں گے؟ آپ ہی اندازہ لگائیے۔
امریکا اور اتحادیوں کے لیے ترجمانی اور سہولت کاری کرنے والے افغانوں میں امریکی ویزوں کے لیے دوڑ لگی ہوئی ہے۔ طالبان کے ساتھ لڑنے کو پھر کون کھڑا ہوگا؟ اشرف غنی کھڑے ہوں گے؟
اس وقت کم از کم 2 ادارے ایسے ہیں جو افغانستان کی آئندہ صورتحال کے حوالے سے کوئی جائزہ پیش کرسکتے ہیں، اور ممکنہ حالات کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ ان میں سے ایک اقوامِ متحدہ کا ادارہ برائے مہاجرین (یواین ایچ سی آر) اور دوسرا پاکستان کا وفاقی ادارہ افغان کمشنریٹ ہے۔
افغانستان اگر پھر سے میدانِ جنگ بنتا ہے تو اس کے نتیجے میں جو مہاجرین کا ریلا آ سکتا ہے اسے سنبھالنے کے لیے مذکورہ دونوں ادارے ضرور کسی نہ کسی حکمتِ عملی پر قبل از وقت کام کر رہے ہوں گے۔ مثلاً سوات سے نقل مکانی کرنے والوں کو سنبھالنے کے لیے یو این ایچ سی آر مہینوں پہلے ہی تیاریوں میں مصروف ہوگیا تھا۔
اس وقت پاکستان کی عسکری قیادت ایک حوالے سے ضرور یکسو ہے۔ وہ پرانی پالیسی بدل کر پراکسیز سے جان چھڑانا چاہتی ہے۔ عسکریت پسندوں کی ایک بڑی لہر سے نپٹ چکی ہے اور شدت پسندی کی کسی نئی لہر کو کسی صورت اٹھنے نہیں دینا چاہتی، اور پھر کندھوں پر ماضی کا پہلے سے اک بوجھ بھی ہے۔
امریکی شاید اسی آمادگی کو اپنے مطلب کے لیے استعمال کرنا چاہ رہے ہیں، وہ ہماری معاشی سفارتی مجبوریوں کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ہماری اندرونی سیاسی صورتحال کا اچھا تجزیہ کرتے ہوئے اس کو اپنے حق میں استعمال کر رہے ہیں۔ پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) حکومت جو ایک پیج کی باتیں کرتی تھی، اب وہ کاپی ہی گما بیٹھی ہے جس میں وہ صفحہ تھا۔
پڑھیے: شُکر ہے طالبان ارطغرل نہیں دیکھتے
پنڈی سے کوئی دُھن سنائی دیتی ہے تو اسلام آباد سے کوئی تان اٹھتی ہے۔ ایک جگہ سے بھارت سے تجارت کھولنے کی بات ہوتی ہے تو دوسری جگہ سے مخالفت کہ نہیں یہ کشمیریوں سے غداری ہے۔
اس سب میں بہت سے سیاسی لطیفے بھی ہوجاتے ہیں۔ میاں محمد شہباز شریف جیل سے نکلتے ہیں، سفارتی ملاقاتیں کرتے ہیں اور شہباز کرے پرواز کی دھن بجتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ لندن جائیں گے اور راستے میں قطر رکیں گے۔ شہباز شریف کے عربی سے شناسائی کا دعویٰ بھی میڈیا میں اکثر ہوتا رہتا ہے۔ قطر کے شاہی خاندان سے شریف خاندان کے تعلقات، پاناما۔۔۔ اچھا سوری۔
قطر میں ہی طالبان کا دفتر بھی ہے اور قطر کا ہی اس وقت طالبان پر بہت اثر و رسوخ ہے۔ یہ اثر قطر والوں نے بڑی محنت سے پیدا کیا ہے۔ بیماروں کے لیے دعا کے بہانے تک طالبان رہنماؤں کی مدد کردی جاتی ہے۔ طالبان میں بھی ان لوگوں کو رشک سے دیکھا جاتا ہے جو قطر آفس میں تعینات ہیں۔
پھر یہ سارا سلسلہ ہی ٹھس ہوجاتا ہے، شہباز شریف کہیں نہیں جاتے اور یہیں گھوم پھر رہے ہیں۔ دوسری طرف حکومت اور شہباز شریف نے ایک دوسرے کے خلاف عدالتی درخواستیں ہی واپس لے لیں۔ یہ کام شہباز شریف صاحب نے تپ کر کیا؟ سینیٹ میں جیسے حکومت کو انسانی حقوق کمیٹی کی سربراہی تھما دی، وہ کیا تھا؟
اچھا یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ یہ قطر، شہباز شریف اور ان کی عربی کے جو نکتے ملائے ہیں، یہ سب خود سے ملائے گئے ہیں۔
مگر فرض کریں کہ یہ سب ٹھیک ہوں، تو دنیا کو کیا میسج گیا؟ یہی کہ پاکستان میں طاقت کا کوئی ایک فیصلہ کن مرکز نہیں ہے۔ یہ مراکز جتنے بھی ہیں سیاروں کی طرح اِدھر اُدھر گھومتے رہتے ہیں۔ 'انج نہیں انج کرلو' کی مستقل پالیسی پر عمل کرتے ہیں۔
جس پاور ہاؤس سے بھی بات کی جائے، اس میں کوئی بھی دوسرا کھلاڑی لچ فرائی کرسکتا ہے۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ جب ایک طالبان مخالف پختون قوم پرست یہ سمجھا اور بتا رہا ہے کہ اس وقت طالبان کی مخالفت کا مطلب امریکا کی مخالفت بھی ہوسکتا ہے، ایسے میں بھی ہمارے سارے بزرگ اکٹھے ہوکر کسی ایک بات پر متفق ہونے کو تیار نہیں۔
جب ایسے حالات ہوں تو شہباز شریف کی عربی اور قریشی صاحب کی ملتانی دونوں ہی فیل رہیں گی۔