اعظم سواتی نے ٹرین حادثے کی ذمہ داری قبول کرلی
لاہور: وفاقی وزیر ریلوے اعظم سواتی نے گھوٹکی میں ہونے والے ٹرین حادثے کی ذمہ داری قبول کرلی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جب ان سے سوال کیا گیا کہ پی ٹی آئی اپوزیشن بینچز پر بیٹھ کر ٹرین حادثات پر اس وقت کے وزیر ریلوے سعد رفیق سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کرتی تھی تو کیا وہ اس حادثے پر وزارت سے استعفیٰ دیں گے۔
جس کے جواب میں اعظم سواتی نے کہا کہ 'بحیثیت اعلیٰ عہدیدارا (وزیر ریلوے) میں اس ٹرین حادثے کی ذمہ داری لیتا ہوں اور میرے ماتحت کام کرنے والے سینئر افسران بھی اس کی ذمہ داری لیتے ہیں'۔
تاہم اعظم سواتی نے ان سب کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا جو ان کے مطابق کرپشن میں ملوث تھے اور گزشتہ 25 سے 30 برسوں سے ریلوے کے لیے کچھ نہیں کیا۔
یہ بھی پڑھیں: ڈہرکی کے قریب مسافر ٹرینوں میں تصادم، 51 افراد جاں بحق، 100 زخمی
وزیر ریلوے نے اعتراف کیا کہ 'یہ ٹریک ہمارے گلے میں ہڈی کی طرح پھنس گیا ہے جسے ہم نہ نگل سکتے ہیں نہ اگل سکتے ہیں، میں اعتراف کرتا ہوں کہ اس ٹریک پر مسافروں کا تحفظ داؤ پر ہے'۔
حال ہی میں وزارت ریلوے کی جانب سے رواں برس جنوری تا مارچ کے عرصے میں ٹرین حادثات میں 23 فیصد کمی کا دعویٰ کیا گیا تھا جب کے اس کے مقابلے میں گزشتہ برس اسی عرصے میں 64 حادثات رپورٹ ہوئے تھے اور میڈیا رپورٹس کے مطابق 2019 میں ٹرین کے 100 سے زائد حادثات ہوئے۔
بہاولپور-سکھر- حیدرآباد مین لائن ون منصوبے کا بنیادی حصہ ہے جسے فوری بحالی کی ضرورت ہے، حالانکہ پاکستان ریلوے کے متعدد برانچ لائنز خستہ حالی کا شکار ہیں لیکن یہ حصہ گزشتہ چند برسوں سے مسلسل نظر انداز ہورہا ہے۔
سال 2014 میں محکمے نے اس سیکشن کا خصوصی مرمتی کام کیا تھا جس سے کچھ حد تک ٹرین آپریشن آسان ہوگیا تھا لیکن سال 19-2018 میں جب حکومت نے ریلوے کا بجٹ کم کیا تو صورتحال بگڑنا شروع ہوگئی۔
ایسے میں جب حادثات میں اضافہ ہورہا تھا ریلوے انتظامیہ نے ٹریک کی بحالی کے بجائے مزید مسافر ٹرینیں چلانے پر توجہ دی جس سے صورتحال مزید خراب ہوئی۔
مزید پڑھیں:14 ماہ کے دوران ہونے والے بڑے ٹرین حادثات
چنانچہ جب فرسودہ اور ناقص انٹلاکنگ/سنگلنگ کا نظام، اپنی زندگی پوری کرلینے والی مسافر کوچز اور مال بردار/ سامان کی ویگنز، افرادی قوت کی قلت اور بغیر نگرانی کی لیول کراسنگ پہلے سے ہی موجود تھی، خستہ حال ٹریک پر مزید ٹرینوں کو چلانے کے باعث مسافروں، عملے، راہگیروں، جانوروں کی زندگیوں اور املاک کے علاوہ ریلوے کے اپنے انفرا اسٹرکچر کی تباہی میں کردار ادا کیا۔
ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر ریلوے نے موجودہ ٹرینوں میں مزید اضافے کا دفاع کیا اور کہا کہ ریونیو بڑھانے کے لیے یہ اقدام وقت کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نئی ٹرینیں چلائیں یا نہیں، ہم خسارے میں ہیں اور اس ٹریک کی بحالی یا اس کو نئے ٹریک سے تبدیل کرنے کے حوالے سے الجھن موجود ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم ٹریک کی بحالی شروع کریں اور اس دوران سی پیک کا ایم این ون منصوبہ شروع ہوجاتا ہے تو 15 سے 20 ارب روپے ضائع ہوجائیں گے، ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ایم ایل-ون کا معاملہ چینی ہم منصب کے ساتھ اٹھائیں گے کہ کیا وہ یہ منصوبہ شروع کرنا چاہتے ہیں اور اگر تاخیر ہوئی تو ہم بذات خود ٹریک کی بحالی کا عمل شروع کردیں گے۔
وفاقی وزیر نے دعویٰ کیا کہ جب سے انہوں نے وزارت سنبھالی بہت سے معاملات کو فوری طور پر اٹھایا جس میں خصوصاً ناقص انٹرلاکنگ نظام کو نئے سے بدلنے کے منصوبے میں تاخیر کا مسئلہ شامل ہے، انہوں نے کہا کہ قومی احتساب بیورو (نیب) اس منصوبے کے پیچھے پڑا تھا اور کوئی افسر اس پر کام کرنے کو تیار نہیں تھا۔
یہ بھی پڑھیں:گزشتہ دو دہائیوں میں ہونے والے ٹرین حادثات
اعظم سواتی نے کہا کہ کہ میں نے ذاتی طور پر چیئرمین نیب سے ملاقات کی اور درخواست کی کہ اس حوالے سے جاری انکوائری کو فوری طور پر ختم کیا جائے اور انہوں نے وہ کردی ہے'۔
ریلوے ذرائع کا کہنا تھا کہ محکمے کی غفلت بھی گھوٹکی حادثے کی وجہ بنی ہے کیوں کہ ریلوے سکھر ڈویژن کو حال ہی میں کسی بڑے حادثے سے امکان سے آگاہ کیا گیا تھا۔
عہدیدار نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی درخواست پر کہا کہ 'سینئر افسران کی جانب سے اس طرح کی صریح غفلت برتنے پر حکومت کی خاموشی پر میں واقعتاً بہت حیران ہوں'۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان ریلوے ہیڈکوارٹرز کے چیف انجینئر کی جانب سے 4 روز قبل ڈی ایس (سکھر) کو ارسال کردہ خط سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ مٹیریل فراہم کیے جانے کے باوجود فوری طور پر اس سیکشن کی مرمت نہ کرنے کی صورت میں بڑے حادثات کا امکان تھا لیکن بدقسمتی سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
یہ خبر 8 جون 2021 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔