کے الیکٹرک سرکار کے ہر کار میں خودکار شریک کار
ہمارے ملک کے لوگ احساسِ ذمے داری سے مالامال ہیں، یہی وجہ ہے کہ یہاں غیر ریاستی ادارے ریاست کی بہت سی ذمے داریاں خوشی خوشی اٹھائے ہوئے ہیں، جیسے ایمبولینسوں کی فراہمی ریاست کا کام ہے لیکن یہ فریضہ ہمارے ملک کے فلاحی ادارے سرانجام دے رہے ہیں، اسی طرح عوام کو اندھیرے میں رکھنا حکمرانوں کے فرائض میں شامل ہے، لیکن کراچی میں یہ فرض ‘کے الیکٹرک’ بخوبی ادا کر رہی ہے۔
اگرچہ بعض حضرات کے الیکٹرک کے ‘کے’ (K) کا مطلب ‘kill الیکٹرک’، ‘کہاں گئی الیکٹرک’ اور ‘کس لیے الیکٹرک’ وغیرہ بیان کرتے ہیں، جو غلط ہے، ہم نے تحقیق کی تو پتا چلا کہ یہ ‘کے’ اسم کراچی کی تخفیف ہے۔ یوں یہ ادارہ کراچی میں تخفیف یا گھٹانے کی سرکاری پالیسی میں بھی خود کو شریک کیے ہوئے ہے۔ ادارے کے منتظمین نے سوچا کہ حکومت کراچی کا بجٹ، آبادی، پانی، حیثیت گھٹانے کے لیے جو مسلسل کوششیں کر رہی ہے ان کا ساتھ دیتے ہوئے کم ازکم کراچی سے ‘راچی’ تو گھٹایا ہی جاسکتا ہے، سو گھٹا دیا۔
مزید تحقیق سے ہمارے علم میں یہ بات آئی کہ کے الیکٹرک کا ایک مشن بھی ہے، اور اس کے اپنے الفاظ میں، ’ہمارا مشن: کراچی کے شہریوں کے لیے بلاتعطل، محفوظ اور باکفایت بجلی کی فراہمی کی صلاحیت پیدا کرکے زندگیوں کو روشن کرنا‘ ہے۔
مزید پڑھیے: ’کے الیکٹرک‘ کی ’غیر نصابی‘ خدمات
یہ مشن پوری دلجمعی سے انجام دیا جارہا ہے۔ شہریوں کی زندگی روشن کرنے کے معاملے میں تو کے الیکٹرک اتنی جذباتی ہے کہ بجلی بھرے تار گراکر انہیں روشن کرنے کی سبیل کی جاتی ہے۔ جہاں تک شہریوں کو محفوظ اور باکفایت بجلی فراہم کرنے کے دعوؤں کا تعلق ہے تو بجلی کی فراہمی میں تعطل کے ذریعے شہریوں کو بجلی سے محفوظ رکھا جاتا اور یوں بجلی کے خرچ میں کفایت بھی کی جاتی ہے۔
آپ علامہ اقبال کے خواب سے واقف ہوں گے، آپ نے دیوانے کا خواب سنا ہوگا، مشہور سیاہ فام رہنما مارٹن کنگ لوتھر کی ‘میرا ایک خواب ہے’ والی تقریر سنی یا پڑھی ہوگی، جوانی کے ان سپنوں سے آشنا ہوں گے جو جوان ہونے کے الارم کے طور پر دکھائی دیتے ہیں، ڈراؤنے خواب اور سہانے سپنے سے واقفیت ہوگی، لیکن یہ نہیں جانتے ہوں گے کہ اپنی کے الیکٹرک کا بھی ایک عدد خواب ہے، جو اس کی ویب سائٹ پر درج ہے، لکھا ہے، ‘ہمارا خواب: کے ای، کراچی اور پاکستان کے فخر کو بحال کرنا اور اسے برقرار رکھنا۔’
جس وقت شہری بجلی بحال ہونے کے انتظار میں بے کل ہوتے ہیں کہ کب بجلی آئے اور وہ سکون سے سونے، انٹرنیٹ کے استعمال، پڑوس کے جنریٹر کی غراہٹ سے نجات کے خوابوں کی تعبیر پاسکیں، عین اسی دورانیے میں کے الیکٹرک کی انتظامیہ خواب خرگوش کے مزے لیتے ہوئے کراچی اور پاکستان کی فخر کی بحالی کے خواب دیکھ رہی ہوتی ہے۔ ہمارے خیال میں خواب والی عبارت لکھتے ہوئے غلطی ہوئی ہے، کے الیکٹرک کراچی اور پاکستان کے فخر کی بحالی نہیں ‘بے حالی’ کے خواب دیکھتی ہے، اور انہیں تعبیر دینے میں تن من دھن سے مگن ہے۔
مزید پڑھیے: کراچی میں بڑھتی لوڈشیڈنگ، مسئلہ آخر کون حل کرے گا؟
قدیم آثار ہی نہیں آلات بھی کسی قوم کا ورثہ اور اثاثہ ہوتے ہیں، جن کا تحفظ محکمہ آثار قدیمہ اور عجائب گھروں کی ذمے داری ہے، لیکن کے الیکٹرک نے سرکار کے ہر کار میں تعاون کی ٹھانی ہے، اس لیے وہ قدیم آلات کو ان کے حالات بدلے بغیر مسلسل استعمال میں لارہی ہے، جیسے پرانے تار، قدیم کھمبے اور بزرگ پی ایم ٹی۔
آثارِ قدیمہ کو محفوظ رکھنے کی نیت کے علاوہ ان آلات سے کام چلانے کی ایک وجہ اور بھی ہے۔ کے الیکٹرک سمجھتی ہے کہ بھولی بھالی الہڑ بجلی ان تاروں، کھمبوں اور پی ایم ٹیز میں ایک عرصے سے آجا رہی ہے، وہ ان راستوں سے اچھی طرح واقف ہے، نئے تار، کھبے اور پی ایم ٹیز کی تنصیب ہوگئی تو کہیں بجلی ان تاروں اور کھمبوں میں قدم رکھتے ہی گھبرا نہ جائے اور ‘اوئی اللہ، یہ میں کہاں آگئی’ کہہ کر جہاں ہے وہیں رک جائے اور روہانسی آواز میں گانا شروع کردے ‘یہ کیا جگہ ہے دوستو، یہ کون سا دیار ہے’ اسی پریشانی کے عالم میں وہ بے ہوش ہوکر کسی پر گر پڑی تو کیا ہوگا؟
اگرچہ یہ اندیشہ بے جا ہے کہ کراچی والے جانتے ہیں جس طرح اکبر الہ آبادی کے بقول ‘حسینوں کو بھی کتنا سہل ہے بجلی گرا دینا’ اسی طرح خستہ حال تاروں کی مدد سے کے الیکٹرک کی ’حسینہ’ کو بھی کتنا سہل ہے بجلی گرا دینا۔ شہری جانتے ہیں کہ بجلی گرنے کا یہ سلسلہ رُک نہیں سکتا، یہ الگ بات ہے کہ بجلی گرتے گرتے آپ ہی بے زار ہوجائے، چنانچہ بجلی گری تو شہری اسے کے الیکٹرک کی ‘گراوٹ’ کا تسلسل جانتے ہوئے اس سے کوئی سوال کریں گے نہ احتجاج۔
لیکن ایک اور خدشہ اس معاملے میں کے الیکٹرک کی انتظامیہ کو زیادہ پریشانی میں مبتلا رکھتا ہے، اور وہ یہ کہ بجلی بی بی راستہ بھٹک کر ‘غلط ہاتھوں’ میں پہنچ گئیں تو پانی کے ٹینکروں کی طرح کراچی میں بجلی کا کاروبار بھی کسی ‘سرکاری ادارے’ کی نجی تجارت نہ بن جائے۔
کہنے والے کہتے ہیں کہ حکومت ہو یا بجلی سے متعلق ادارہ نیپرا کے الیکٹرک، جسے مزید اختصار کے ساتھ کے ای کہا جاتا ہے، کے خلاف شکایات پر توجہ دینے کو تیار نہیں، یعنی جب بھی صارفین کے ای کی کارستانیوں کا شکوہ کریں تو ‘کے ای’ کہتے ہی جواب ملتا ہے ’کی اے؟ چُپ کر، مٹی پا‘۔
بھئی حکمراں اور نیپرا کے حکام بھی کیا کریں کہ جب بھی کے الیکٹرک کو کچھ کہنا چاہیں، وہ پلٹ کر بڑی ادا سے کہتی ہے ’بجلی بھری ہے میرے انگ انگ میں، جو مجھے چھوئے گا وہ جل جائے گا’ یہ سنتے ہی ‘لپٹ جاتے ہیں وہ بجلی کے ڈر سے’ اور ایک دوسرے سے لپٹ کر شاکی عوام سے کہہ دیتے ہیں خود ہی نمٹ لو، مارے بس کا نئیں ہے۔
ویسے یہ بھی سنا ہے کہ معاملہ خوف سے لپٹنے کا نہیں، لالچ کے باعث جھپٹ لینے کا ہے، جس کی وجہ سے کے الیکٹرک کو کھلی چھوٹ دی گئی ہے کہ ‘جو چاہے سزا دے لو (کراچی والوں کو) تم اور بھی کُھل کھیلو (شہریوں کی زندگی سے) پر ہم سے قسم لے لو (اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے قِسم کی کوئی رسم نبھاکر) کی ہو جو شکایت بھی‘۔ سو مکمل اطمینان رکھیں، کے الیکٹرک سے متعلق شکایات سننے کے لیے کوئی کچہری لگتی بھی ہے تو یہ سندھی والی کچہری ہوتی ہے جس کا مطلب ہے بس گپ شپ کرنا۔
مزید پڑھیے: اگلے 9 مہینے ’کے الیکٹرک‘ کراچی والوں کی جیب سے کتنے اضافی پیسے لے گی؟
کے الیکٹرک کا اصل کام تو بلاتعطل بجلی فراہم کرنا ہے، لیکن یہ اپنی مجبوری، لاچاری، بے بسی، بے کسی جیسے بے حد مسائل کے باعث اگر یہ فریضہ بلاتعطل نہیں نبھا پاتی، بلکہ بجلی کی طویل تعطیلات کردیتی ہے، تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اپنے دیگر فرائض سے بھی پہلو تہی کر رہی ہے، مثلاً بل بھیجنے میں کوئی رکاوٹ آڑے نہیں آتی، اس لیے کے الیکٹرک بلاتعطل اور بلاتاخیر بل بھیج دیتی ہے، اور بل جمع کرانے میں ذرا سا تعطل اور تھوڑی سی دیر بھی برداشت نہیں کرتی۔ یعنی اصل بات یوں ہے بھیا کہ کراچی کے شہریوں کے لیے بجلی قرض ہے، مانگتے رہیے، ملا تو احسان نہ ملا تو شکوہ کیسا، لیکن بلفرض ہے، جو بالفرض ادا نہ کرنے کی صورت میں بجلی ‘آداب عرض ہے’ کہہ کر آپ کے گھر سے رخصت ہوجائے گی۔
عثمان جامعی شاعر، قلم کار، مزاح نگار، بلاگر، صحافی ہیں۔ آپ کی تین کتابیں شائع ہوچکی ہیں، جن میں فکاہیہ مضامین کا مجموعہ ’کہے بغیر‘، شعری مجموعہ ’میں بس ایک دیوار‘ اور کراچی کے حوالے سے ناول ’سرسید، سینتالیس، سیکٹرانچارج‘ شامل ہیں۔ آپ اس وقت ایک اخبار میں بطور ’سنڈے میگزین‘ انچارج ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔