بیجنگ نے امریکا پر نئی فہرست کے ذریعے چینی کمپنیوں کو ‘دبانے’ کا الزام لگادیا
بیجنگ: امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے چینی کمپنیوں میں امریکیوں کو سرمایہ کاری سے روکنے کے لیے بلیک لسٹڈ کمپنیوں کی فہرست میں توسیع کے بعد چین نے امریکا پر چینی کمپنیوں کو 'دبانے' کا الزام لگایا اور انتقامی کارروائی کی دھمکی دی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جو بائیڈن نے دو روز قبل فہرست کو 59 چینی کمپنیوں تک بڑھا دیا تھا جو بیجنگ کے 'فوجی - صنعتی کمپلیکس' سے تعلق ہونے پر امریکی سرمایہ کاروں کی حدود سے باہر ہیں کیونکہ امریکا، ایشیائی سپر پاور پر دباؤ کی مہم برقرار رکھے ہوئے ہے۔
اس سے قبل سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نومبر میں 31 چینی کمپنیوں کی ایک فہرست جاری کی تھی جن کے بارے میں کہا گیا تھا کہ وہ چین کی فوج اور سیکیورٹی اداروں کی مدد کر رہی ہیں، رواں سال کے آغاز میں اس فہرست میں مزید کمپنیوں کو شامل کیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: امریکا کی جانب سے سفیروں پر پابندی، چین کی جوابی کارروائی کی دھمکی
تاہم قانونی چیلنجز کے بعد جو بائیڈن کی ٹیم نے بلیک لسٹ کا جائزہ لیا اور کچھ نام حذف کرکے بالآخر اس میں توسیع کردی۔
اس فہرست میں کئی کمپنیاں پہلے سے شامل کمپنیوں کی ذیلی کمپنیاں ہیں۔
وائٹ ہاؤس سے جاری بیان میں کہا گیا کہ پابندیوں میں ان کمپنیوں کو نشانہ بنایا گیا ہے جو چینی نگراں ٹیکنالوجی میں کردار ادا کر رہی ہیں۔
چین کی وزارت خارجہ نے اس اقدام کو 'مارکیٹ کے قوانین کی خلاف ورزی' اور چینی کمپنیوں کو 'دبانے' کی کوشش بتاتے ہوئے مسترد کردیا۔
چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وین بین نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکا سے چینی کمپنیوں کے ساتھ منصفانہ اور غیر امتیازی سلوک رکھنے کی اپیل کی اور کہا کہ کہ 'چینی کمپنیوں کو دبانے والی یہ نام نہاد فہرستیں ختم کردیں'۔
انہوں نے کہا کہ 'چین اپنی کمپنیوں کے جائز حقوق اور مفادات کے استحکام کے لیے ضروری اقدامات اٹھائے گا'۔
یہ بھی پڑھیں: چین کا پابندیوں پر ردعمل، امریکی سینیٹرز پر پابندی کا اعلان
ڈونلڈ ٹرمپ کے دور اقتدار میں شائع ہونے والی ابتدائی فہرست میں چائنا موبائل، چائنا ٹیلی کام، ویڈیو نگرانی کی کمپنی ہیک ویژن اور چائنا ریلوے کنسٹرکشن کارپوریشن جیسی بڑی ٹیلی کمیونی کیشن، تعمیراتی اور ٹیکنالوجی ادارے شامل تھے۔
چائنا نیشنل آف شور آئل کارپوریشن (سی این او او سی) کو جنوری میں اس فہرست شامل کیا گیا تھا جس کی وجہ سے ایس اینڈ پی نے اسے اپنے اسٹاک انڈیکس سے ہٹادیا تھا اور یہ جو بائیڈن کی فہرست میں اب بھی شامل ہے۔
سرمایہ کاری پر پابندی 2 اگست سے نافذ ہوگی اور موجودہ حصص یافتگان کو اس میں سے اپنا سرمایہ نکالنے کے لیے ایک سال کا وقت دیا گیا ہے۔
جو بائیڈن انتظامیہ نے جہاں ڈونلڈ ٹرمپ کے جانے کے بعد چین کے ساتھ مزید سفارتی انداز اختیار کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے وہیں اس نے کہا ہے کہ وہ دفاع اور ٹیکنالوجی سمیت متعدد امور پر سخت گیر موقف پر برقرار رہے گی۔
واضح رہے کہ ریپبلکن سینیٹرز ٹام کاٹن اور مارکو روبیو نے ڈیموکریٹس گیری پیٹرز اور مارک کیلی کے ساتھ مل کر ایک خط لکھا تھا جس میں انتظامیہ سے نئی فہرست شائع کرنے پر زور دیا گیا تھا۔