کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کا موبائل انٹرنیٹ اتنا سست کیوں چلتا ہے؟
گزشتہ سال لاک ڈاؤن کی وجہ سے دفاتر سمیت درسگاہیں بھی بند ہوئیں تو اسکول انتظامیہ نے یہ اعلان کردیا کہ بچوں کے تعلیمی سلسلے کو جاری رکھنے کے لیے کلاسیں اب آن لائن ہوں گی۔ بس پھر کیا تھا، گھر میں جیسے ایک بحران آگیا ہو۔ تمام گیجٹس یعنی موبائل فون، لیپ ٹاپ اور ٹیبلٹ بڑوں سے چھن گئے اور ان میں عارضی کلاس رومز کا آغاز ہوگیا۔
اب چونکہ ہماری بیگم اسکول میں پڑھاتی تھیں، لہٰذا انہوں نے بھی اپنی کلاسوں کے لیے ٹیبلٹ پر قبضہ کرلیا۔ ایک بچے نے موبائل فون جبکہ دوسرے نے لیپ ٹاپ لے لیا۔ جہاں تک ہمارا تعلق ہے تو ہمیں لگا کہ ہم واپس قبل از موبائل فون و کمپیوٹر دور میں لوٹ گئے ہیں۔
لیکن ان گیجٹس کا چھن جانا تو بس مسئلے کا آغاز ہی تھا کہ سب سے بڑا مسئلہ انٹرنیٹ کی بلاتعطل فراہمی بن گیا۔ ابھی بچوں کی کلاس شروع ہی ہوئی تھی کہ انٹرنیٹ بیٹھ گیا۔ نہ موبائل فون پر ٹھیک سے انٹرنیٹ کی سروس دستیاب تھی نہ ہی کلاؤڈ ڈیوائس پر مناسب سگنل آرہے تھے۔
اکثر انٹرنیٹ کام کرنا بند کردیتا جس سے بچوں کی کلاسز متاثر ہوتی۔ بعض اوقات تو انٹرنیٹ عین ایسے وقت پر بند ہوتا جب حاضری لگ رہی ہوتی اور انٹرنیٹ کی خرابی کی وجہ سے ٹیچر بچوں کی غیر حاضری لگادیتے یا پھر بچوں کو کلاس میں شرکت نہ کرنے پر ڈانٹ سننا پڑتی۔
انٹرنیٹ کی خراب کارکردگی کی وجہ سے بچوں کو استاد کی آواز بھی ٹھیک سے سنائی نہ دیتی جس سے اکثر یہ حال ہوتا کہ سوال کیا گندم اور جواب ملا چنا۔
مزید پڑھیے: ’ہمارا گھر، گھر سے زیادہ دفتر یا درسگاہ لگنے لگا ہے‘
اس مسئلے سے متعلق ہم نے جب موبائل فون کمپنی میں کام کرنے والے ایک دوست سے پوچھا تو گویا ہوئے کہ اچانک ملک میں موبائل اور کلاؤڈ بیس انٹرنیٹ کا استعمال بڑھ گیا ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ موبائل فون پر انٹرنیٹ فراہم کرنے کے لیے اسپیکٹرم دستیاب نہیں ہے۔
’یار اب یہ اسپیکٹرم کہاں سے آگیا ہے؟‘، میں نے بے چینی سے پوچھا۔
دوست نے تحمل سے جواب دیا کہ ’اسپیکٹرم ایک نظر نہ آنے والی ریڈیو فریکوئنسی ہوتی ہے جو ہر موبائل فون کمپنی کو الاٹ کی جاتی ہے۔ اسی پر موبائل فونز کے سگنلز گردش کرتے ہیں۔ یہ تو تم جانتے ہی ہو کہ ان سگنلز کی وجہ سے ہی ہم اپنے موبائل فون سے کالز کرپاتے ہیں۔ جس فریکوئنسیز پر ہم کال کرتے ہیں وہ الیکٹرومیگنیٹک اسپیکٹرم کا ایک قلیل حصہ ہوتے ہیں۔
’اب الیکٹرومیگنیٹک اسپیکٹرم میں مختلف بینڈز ہوتے ہیں اور ہر بینڈ میں مختلف ویو لینتھ ہوتی ہے۔ انہی ویو لینتھ یا نشریاتی لہروں پر سفر کرکے موبائل فون کے سگنلز ہم تک پہنچتے ہیں، چاہے وہ وائس کال کے ہوں یا انٹرنیٹ کے۔
’مگر مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں سال 2017ء کے بعد موبائل فون کمپنیوں کو نیا اسپیکٹرم فراہم نہیں کیا جاسکا ہے۔ دوسری طرف موبائل فون اور کلاؤڈ انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے۔ اس وجہ سے موبائل فون کمپنیوں کو نشریاتی لہروں کی قلت کا سامنا ہے، جس کو اسپیکٹرم کی کمی بھی کہا جاتا ہے۔
’پاکستان میں موبائل فون اسپیکٹرم پر بڑھتے دباؤ کا اندازہ اسپیکٹرم پر منتقل ہونے والے ڈیٹا سے ہی لگایا جاسکتا ہے۔ اسپیکٹرم ڈیٹا جو سال 2018ء میں 1207 پیٹا بائیٹس تھا وہ سال 2020ء میں بڑھ کر 4498 بیٹا بائٹس ہوگیا ہے۔ اس طرح اسپیکٹرم پر منتقل ہونے والے ڈیٹا میں 272 فیصد کا نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ڈیٹا میں اس ہوش رُبا اضافے کی وجہ سے اسپیکٹرم ہائی وے پر ٹریفک جام ہورہا ہے۔ اسپیکٹرم کی قلت کے باعث موبائل فون پر انٹرنیٹ کی رفتار کے حوالے سے 140 ملکوں میں پاکستان 111 نمبر پر کھڑا ہے۔‘
ہم نے یہ کہہ کر فون بند کردیا کہ بھائی مجھے انٹرنیٹ کی معیاری سروس درکار ہے، اور تم اسپیکٹرم کے پیچھے پڑگئے ہو۔
لیکن ابھی چند روز پہلے ہی حکومت نے اپنی پالیسی کا مسودہ جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کورونا وبا کے پھیلاؤ کے بعد انٹرنیٹ کے استعمال میں بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس دوران سب سے زیادہ موبائل انٹرنیٹ کا استعمال ہوا ہے، اس لیے اسپیکٹرم کو بہتر بنانے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے۔
اس تحریر میں ہم پاکستان میں موبائل فون کے لیے دستیاب اسپیکٹرم کی موجودہ صورتحال، حکومت کی جانب سے نئے اسپیکٹرم کی فروخت اور موبائل فون صنعت کی جانب سے پالیسی سے متعلق اعتراضات کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔
اکنامک انٹیلیجنس یونٹ کے حالیہ جاری کردہ جامع انٹرنیٹ انڈیکس میں پاکستان کی ناقص درجہ بندی کے پیشِ نظر، ٹیلی کام انڈسٹری نے فوری پالیسی مداخلت کی کوشش کی ہے۔ اس وقت ملک میں ایک تہائی اسپیکٹرم استعمال میں ہے۔ انڈیکس ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان کی مجموعی درجہ بندی 90 ہے، جو 2020ء میں 89 اور 2019ء میں 77 تھی۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ کم درجہ بندی کی اہم وجہ سیلولر موبائل سروس فراہم کرنے والوں کے لیے مختص اسپیکٹرم کی کمی قرار دی گئی ہے۔
دنیا بھر میں موبائل فون صنعت کی نمائندہ تنظیم جی ایس ایم اے نے سال 2020ء کی رپورٹ میں ٹیلی کام صنعت کو طلب کے مطابق مناسب اسپیکٹرم فراہم نہ کرنے والے ملکوں میں پاکستان کو بھی شامل کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیائی خطے میں نیپال اور پاکستان 2 ایسے ممالک ہیں جہاں موبائل فون سروسز کے لیے سب سے کم اسپیکٹرم فراہم کیا گیا ہے۔
جی ایس ایم اے رپورٹ میں کسی بھی ملک کی درجہ بندی میں 4 اہم جہتیں ہوتی ہیں۔ اس میں دستیابی، خدمات کا سستا ہونا، مسابقت اور تیاری شامل ہیں۔
پاکستان کی 3 کروڑ 50 لاکھ آبادی اور 50 فیصد رقبہ ٹیلی کام سہولتوں سے محروم ہے، اور جہاں یہ سہولیات موجود ہیں وہاں اس کی صورتحال بہت ہی خراب ہے۔ ملک کی آبادی میں ڈیجیٹل تقسیم یا انٹرنیٹ کی دستیابی میں تفریق بہت زیادہ ہے۔ اگر اس کو درست طور پر حل نہ کیا گیا تو سماجی و معاشی تفریق میں اضافہ ہوگا اور پالیسی کی سطح پر ہنگامی نوعیت کے فیصلے اور اقدامات کی ضرورت پڑے گی۔
جی ایس ایم اے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر پاکستان میں موجود اسپیکٹرم موبائل فون کمپنیوں کو فراہم کیا جائے تو اس سے ٹیلی کام کی صنعت کو پھلنے پھولنے میں مدد ملے گی اور ملک میں براڈ بینڈ انٹرنیٹ کا استعمال بڑھنے سے حکومتی ٹیکس آمدنی میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
وزارتِ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے پیش کردہ ایک پالیسی مسودے کو کابینہ نے منظور کیا ہے۔ اس پالیسی کے تحت موبائل فون خدمات کے لیے 'نیکسٹ جنریشن اسپیکٹرم' کی فروخت کا طریقہ کار وضح کیا گیا ہے۔ حکومت نے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) اور فریکوئنسی ایلوکیشن بورڈ کی سفارشات پر پالیسی کی منظوری دی ہے۔
حکومت ٹیلی کمیونیکیشن ایکٹ 1996ء کے تحت 1800 میگا ہرڈز اور 2100 میگا ہرڈز بینڈز کی نیلامی کرنا چاہتی ہے۔ اس حوالے سے پی ٹی اے کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ 1800 میگا ہرڈز بینڈ میں 12.8 میگا ہرڈز کے اسپیکٹرم اور 2100 میگا ہرڈز بینڈ میں 15 میگا ہرڈز کے اسپیکٹرم کی نیلامی کرے۔ اس حوالے سے پی ٹی اے نے ایک انفارمیشن میمو جاری کرنا ہے جو ابھی تک جاری نہیں ہوسکا ہے۔
اس دستاویز میں مزید کہا گیا ہے کہ 1800 میگا ہرڈز میں ایک جوڑے کی قیمت 3 کروڑ 10 لاکھ امریکی ڈالر ہوگی جبکہ 2100 میگا ہرڈز کے ایک جوڑے کی قیمت 2 کروڑ 90 لاکھ امریکی ڈالر ہوگی۔ دستاویز میں یہ سفارش بھی کی گئی ہے کہ ہر کمپنی کم از کم 5 میگا ہرڈز کے اسپیکٹرم حاصل کرے۔
کمپنیوں کو نیلام کیے جانے والے اسپیکٹرم کی 50 فیصد بولی فوری طور پر ادا کرنا ہوگی جبکہ باقی رقم 5 سال میں اقساط کی صورت میں ادا کرنا ہوگی۔ باقی ماندہ رقم پر لندن انٹر بینک کی پیش کردہ شرح یا (LIBOR) سے 3 فیصد اضافی سود ادا کرنا ہوگا۔ کامیاب بولی دینے والے کو اسپیکٹرم 15 سال کے لیے الاٹ کیا جائے گا۔ ایک اندازے کے مطابق حکومت اسپیکٹرم کی فروخت سے ایک ارب ڈالر حاصل کرنا چاہتی ہے۔
پی ٹی اے نے کابینہ سے موبائل فونز کے اسپیکٹرم سے متعلق پالیسی کی منظوری تو لے لی ہے تاہم ٹیلی کام کمپنیوں کی جانب سے اعتراضات سامنے آنے لگے ہیں۔
موبائل فون کمپنیوں کا کہنا ہے کہ حکومت، وزارت انفارمیشن و ٹیکنالوجی اور پی ٹی اے کو چاہیے کہ ٹیلی کام کمپنیوں سے صرف اسپیکٹرم کی یکمشت اضافی قیمت وصولنے کے بجائے اسپیکٹرم کو شروع میں کم قیمت پر فراہم کرے اور اس کے بتدریج استعمال سے پیدا ہونے والے ریونیو میں حکومت کو حصہ دار بنائے۔
اسپیکٹرم کے معاملے پر راقم نے چاروں موبائل فون کمپنیوں سے رابطہ کیا۔ ایک کمپنی کا کہنا تھا کہ جب تک حکومت اسپیکٹرم کی فروخت کا حتمی اعلان نہیں کردیتی اس وقت تک وہ اپنا مؤقف پیش کرنا نہیں چاہے گی۔ باقی کا مؤقف وہی ہے جو جاز کے چیف ایگزیکٹو عامر ابراہیم کہہ رہے ہیں۔
عامر ابراہیم کا کہنا ہے کہ ’کورونا وائرس کی وجہ سے انٹرنیٹ کا استعمال بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ انٹرنیٹ اور اسمارٹ فون اب پُرتعیش اشیا کے بجائے ضرورت بن گئے ہیں۔ لوگوں کی روزمرہ زندگی اور کاروبار کا انحصار انہی آلات اور خدمات پر ہے۔ دنیا بھر کی طرح پاکستانی معیشت میں ٹیلی کام شعبے کا کردار بڑھ گیا ہے، اگر اس کو ترقی نہیں دی گئی تو پاکستان معاشی ترقی میں دنیا سے پیچھے رہ جائے گا اور دنیا کے قدم سے قدم ملا کر نہیں چل سکے گا‘۔
ملک میں ٹیلی کام کی سہولیات کو بڑھانے کے لیے یونیورسل سروس فنڈ قائم کیا گیا تھا۔ ٹیلی کام کمپنیاں اپنے نفعے کا ایک بڑا حصہ اس میں شامل کرتی رہتی ہیں۔ عامر ابراہیم اس فنڈ کے استعمال اور اہداف پر عملدر آمد میں سست روی کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اس کے باوجود کہ ٹیلی کام کمپنیاں اپنا حصہ قانون کے مطابق فراہم کرتی رہتی ہیں، مگر فنڈ کی رقم بروقت استعمال نہیں کی جاسکی ہے۔ یو ایس ایف پالیسی 2005ء میں بنائی گئی پالیسی کے مطابق سال 2010ء میں 85 فیصد اور 2015ء میں 95 فیصد آبادی تک ٹیلی کام کی سہولیات پہنچانے کا ہدف رکھا گیا تھا۔ مگر سال 2021ء تک صرف 85 فیصد آبادی کے پاس موبائل فون خدمات پہنچ سکی ہیں۔ صوبہ خیبر پختونخوا اور سابقہ فاٹا اور بلوچستان کے کچھ علاقوں میں موبائل فون اور انٹرنیٹ خدمات اب بھی دستیاب نہیں ہیں‘۔
عامر ابراہیم کا کہنا ہے کہ ’پاکستان میں اسپیکٹرم کا استعمال بہت کم ہے اور صرف ایک تہائی اسپیکٹرم کو استعمال کیا جاسکا ہے۔ اس وجہ سے پاکستان کی موبائل فون صنعت دنیا میں سب سے کم اسپیکٹرم استعمال کرنے والی صنعت بنی ہوئی ہے۔ اسپیکٹرم کی کمی کی وجہ سے ٹیلی کام کمپنیوں کو زیادہ موبائل فون ٹاورز لگانا پڑتے ہیں اور صارفین کو غیر معیاری سروسز دستیاب ہوتی ہے‘۔
جاز کے چیف ایگزیکٹو مزید کہتے ہیں کہ ’جب تک اسپیکٹرم استعمال نہیں کیا جاتا تب تک یہ معاشی اعتبار سے کسی کام کا نہیں ہے۔ پاکستان میں موبائل فون انٹرنیٹ سروسز کی بہتری پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔ اس کے لیے اسپیکٹرم کو مناسب قیمت پر موبائل فون کمپنیوں کو فراہم کیا جائے تاکہ وہ انفرااسٹرکچر میں سرمایہ کاری کرسکیں۔ ٹیلی کام کمپنیوں کو ملک میں براڈ بینڈ کی خدمات میں سرمایہ کے لیے مالیاتی ریلیف ملنا چاہیے‘۔
ایک اور موبائل فون کمپنی کے ایگزیکٹو نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’صوتی سروس کے برعکس ڈیٹا سروس کی بڑھتی کھپت کے باعث بڑھتی ہوئی ضروریات کی وجہ سے، خدمت کے معیار میں مستقل بہتری کی ضرورت ہے۔ اسپیکٹرم کی مہنگے داموں نیلامی میں فروخت کے بجائے متبادل طریقہ کار کو استعمال کیا جائے جس میں ٹیلی کام کمپنی کے ساتھ ریونیو میں شراکت داری کی جاسکتی ہو‘۔
موجودہ دور میں ایسی مثالیں موجود ہیں جن میں متعدد حکومتوں نے بہت ہی تیزی سے کام کرتے ہوئے پالیسی میں تبدیلی کی اور ٹیلی کام کمپنیوں کو اضافی اسپیکٹرم فراہم کیے، کیونکہ کورونا کی وجہ سے موبائل براڈ بینڈ کے استعمال میں اضافہ ہوا تھا۔ چنانچہ ریگولیٹری اتھارٹیز نے اضافی اسپیکٹرم موبائل فون کمپنیوں کو دیا تاکہ صارفین کو ٹیلی کام کی معیاری سہولت دستیاب ہوسکے۔
کورونا وبا اور لاک ڈاؤن میں موبائل فون پر بڑھتے ہوئے انٹرنیٹ کے استعمال کی وجہ سے سعودی عرب نے 4G نیٹ ورک کے لیے مفت اسپیکٹرم فراہم کیا ہے جبکہ افریقی ملک گھانا، امریکا، جنوبی افریقہ، عمان اور آئرلینڈ نے موبائل فون کمپنیوں کو اضافی اسپیکٹرم مفت فراہم کیا ہے۔
ٹیلی کام ماہرین اور صنعت سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ اسپیکٹرم ایک ایسی چیز ہے جس کو استعمال میں نہ لایا جائے تو اس کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ ٹیلی کام کمپنیوں کو اپنی خدمات کو بہتر بنانے کے لیے اسپیکٹرم کی ضرورت ہے۔ لیکن اگر وہ مہنگے داموں اسپیکٹرم خرید لیتی ہیں تو پھر ان کے پاس اپنے نیٹ ورک میں سرمایہ کاری کے لیے زیادہ رقم نہیں بچے گی۔
اگر ملک میں انٹرنیٹ کی رفتار بہتر نہ ہوئی تو ملک میں کام کرنے والے فری لانسرز کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ وہ اسپیکٹرم کی فروخت کے حوالے سے کنسلٹنٹ کی رپورٹ کے بجائے ماہرین کی ایک ایسی کمیٹی قائم کرے جس میں انڈسٹری اور عوامی نمائندگی کے ساتھ ریگولیٹری اتھارٹی کے لوگ شامل ہوں، پھر یہ کمیٹی نیلامی کے ساتھ ادائیگی کا ایسا طریقہ وضح کرے جس میں کمپنیاں اسپیکٹرم کے استعمال کے ذریعے پیدا ہونے والے ریونیو میں حکومت کو بھی حصہ دار بنا سکیں۔ ایسا کرنے پر کمپنیوں کو اسپیکٹرم پر یکمشت بڑی سرمایہ کاری بھی نہیں کرنا پڑے گی اور کمپنیاں زیادہ اسپیکٹرم حاصل کرکے ملک میں ٹیلی کام کی صنعت کو فروغ دے سکیں گے۔
راجہ کامران نیو ٹی وی سے وابستہ سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ آپ کا ٹوئٹر ہینڈل rajajournalist@ ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔