جب مجھے بار بار 'آف ایئر' کیا گیا
بڑے چینل کے بڑے اینکر کا آف ایئر (Off Air) ہونا یقیناً بڑی خبر ہی بنے گی، اور جس کی بازگشت مہینوں اور ہفتوں نہیں تو کچھ دنوں تک تو سنائی ضرور دے گی۔ 4 دہائی کی طویل صحافتی زندگی میں ایسی افتاد اس طالبِ علم پر ایک سے زیادہ بار گزری۔ مگر اسے رقم کرنے کا خیال نہیں آیا بلکہ ابھی بھی کہتے اور لکھتے ہوئے جھجک ہورہی ہے۔
یونیورسٹی کی سیاست سے نکلنے کے بعد جب صحافت میں آئے تو لکھنے پڑھنے سے زیادہ کراچی پریس کلب میں 'زندہ باد! مردہ باد!' میں وقت گزرتا۔ جنرل ضیاالحق کے دور میں جب میڈیا پر ضربِ کاری لگی اور پیپلز پارٹی کے اخبار 'مساوات' کے ساتھ ہمارے جریدے ہفت روزہ 'معیار' پر بھی نہ صرف پابندی لگی بلکہ اس پابندی کے خلاف چلنے والی تحریک میں گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوا تو ہم بھی 6 ماہ کے لیے درِ زِنداں ہوئے۔
خوش نصیب تھے ورنہ اس دورِ سیاہ میں دنیا کی تاریخ میں پہلی بار 4 صحافیوں کو کوڑوں جیسی بہیمانہ سزائیں بھی دی گئیں۔ جن 4 صحافیوں کو کوڑے لگے ان میں ہمارے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے موجودہ سیکریٹری ناصر زیدی بھی ایک ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے اور صرف ریکارڈ کی درستی کے لیے لکھ رہا ہوں کہ آج کی آزادئ صحافت کے سب سے بڑے داعی میڈیا گروپ نے صحافیوں کو کوڑے لگنے کی خبر 4 سطر میں بھی نہیں چھاپی تھی۔ بہرحال انگریزی اخبار ڈان کو کریڈٹ جائے گا کہ نہ صرف اس نے نمایاں طور پر یہ خبر بھی شائع کی اور مذمتی اداریہ بھی لکھا۔
پڑھیے: پاکستانی صحافت: آگ کا دریا
یہ لیجیے، بھٹکتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں جب نجی ٹی وی چینلز کا آغاز ہوا اور حادثاتی طور پر ہی کہوں گا کہ جب ہمیں پہلے نجی چینل انڈس میں آواز لگانے کا موقع ملا تو شہر شہر پہچان بھی ملی اور ایسی یافت بھی (کہ جس کا خواب دیکھتے تھے)۔ انڈس نیوز میں کوئی 4 سال ہونے کو آرہے تھے۔ اس دوران آج کے بڑے چینلوں میں سے ایک دو سے بلاوے بھی آئے، مگر تہذیب اور روایت کا پاس رکھتے ہوئے، انڈس نیوز سے اپنی وابستگی جاری رکھی۔
اتنے برس بیت گئے، مگر 7 اکتوبر 2005ء ابھی تک یاد ہے۔ سہہ پہر سے خبریں آنے لگی تھیں کہ اسلام آباد سے لے کر خیبرپختونخوا اور آزاد کشمیر تک اتنا شدید زلزلہ آیا ہے کہ ہلاکتیں ہزاروں تک پہنچ گئی ہیں۔ مسلسل 4 گھنٹے سے لائیو اسٹوڈیو میں بیٹھا تھا۔ اس وقت بھی ہمارے محترم شیخ رشید صاحب مشرف حکومت میں اہم وزارت سنبھالے ہوئے تھے۔
ایک سرکاری چینل پر انہوں نے زلزلے سے ہزاروں شہادتوں کی تردید کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ زلزلہ اتنا بھی شدید نہیں تھا کہ جس سے لال حویلی کے قریب مسجد کا مینار بھی گرتا۔ رات کے پہلے پہر میں لائیو جب ہم نے مسلم کانفرنس کے سربراہ سردار عتیق احمد خان سے ٹیلیفون پر آزاد کشمیر اور خاص طور پر مظفر آباد میں زلزلے کی تباہ کاری کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے رندھی ہوئی آواز میں کہا، ’مظفرآباد زمیں بوس ہوگیا، اب تک 50 ہزار اموات کی تصدیق ہوچکی ہے‘۔
یہیں تک پہنچے تھے تو دیکھا کہ کیمرے کے پیچھے سے اشارے سے کہا جارہا تھا کہ پروگرام 'کٹ' کردیں۔ حیرت ہوئی اور غصہ بھی آیا۔ اس وقت موجود کنٹرولر نیوز کے کمرے میں گئے تو مطلع کیا گیا کہ چینل کے مالک کا فون آیا ہے اور کہا گیا ہے کہ میں نہ صرف اب زلزلے پر کوئی پروگرام نہیں کروں گا بلکہ اس وقت تک آف ایئر رہوں گا جب تک کہ میں کلیئر نہ ہوجاؤں۔ یوں بھی رات کا آخری پہر ہوگیا تھا۔ سیدھا کراچی پریس کلب گیا اور سرد پانی کے 3 گلاسوں سے غصہ ٹھنڈا کیا۔
اگلے دن صبح جب انڈس نیوز پہنچا تو سُتے ہوئے سرد چہرے سے یہی جواب ملا کہ آپ آف ایئر ہیں۔ اب ہم اس طرح کے اینکر تو نہیں تھے کہ جنہوں نے 3، 4 برسوں میں آواز لگانے سے گاڑی اور فلیٹ لے لیا ہو۔ دونوں بچیاں پڑھ رہی تھیں۔ فکر مندی تو تھی۔ شام تک آن ایئر (On Air) ہونے کا انتظار کرتے رہے۔ بالآخر رات کے آخری پہر میں پیغام آیا کہ اجازت مل گئی ہے۔
ہاں، اس سے پہلے ایک بار اور بھی آف ایئر ہونا یاد آرہا ہے۔ وزیرِ اعلیٰ سندھ ہمارے محترم ارباب غلام رحیم تھے۔ رات کے شو میں ہمارے ساتھ ان کے سیاسی مخالف اور آج کے سینئر وزیر امتیاز شیخ ہمارے مہمان تھے۔ ساتھ میں سندھ کے سینئر صحافی جامی چانڈیو بھی تھے۔ کوشش کی کہ ارباب صاحب بھی فون بیپر پر آجائیں مگر یہی جواب ملتا رہا کہ وہ اسے اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔
یقیناً، پروفیشنلی تسلیم کہ دوسرا مؤقف نہیں آیا لیکن جیسا کہ کہا ارباب صاحب خود انکاری تھے۔ حسبِ روایت اگلے دن وقتِ مقررہ پر انڈس نیوز کے دفتر پہنچے تو دروازے سے داخل ہوتے ہی سامنے انڈس نیوز کے مالک (جو مہربانیاں انہوں نے ہم پر کیں اس سبب نام لینا اچھا نہیں لگتا) نے گرجتی ہوئی آواز میں کہا کہ وزیرِ اعلیٰ ارباب رحیم نے مجھے رات کو فون پر کہا ہے کہ اس پروگرام کے لیے مجھے ایک خطیر رقم دی گئی ہے۔ میں نے ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا، 'میں ابھی اسی وقت، سی ایم ہاؤس جا رہا ہوں۔ سُنا ہے وہ کوئی پریس کانفرنس کررہے ہیں۔ اب کیمرے پر ان سے جواب لاؤں گا‘۔
سی ایم ہاؤس سے گھنٹے بھر بعد واپسی ہوئی۔ ابھی تک یاد ہے۔ چینل کے مالک جو مجھ سے بہت پیار کرتے تھے۔ میرے چہرے کو دیکھ کر کہنے لگے، 'میں نے تمہارے چہرے پر کبھی اتنا غصہ نہیں دیکھا۔ چلو، جانے دو! ابھی میڈیا میں نئے آئے ہو۔ اس میں ایسا ہوتا رہتا ہے'۔
یہ وہ وقت تھا جب ہمارا کمٹمنٹ بھی بہت تھا اور جوش و خروش بھی۔ مگر پھر اسکرین سے لگا پیٹ یاد آگیا۔
پڑھیے: صحافت سے دم توڑتی مزاحمت دیکھ کر ڈر لگتا ہے
انڈس نیوز میں 5 سال گزارنے کے بعد سی این بی سی پاکستان آئے، جو ایک بزنس چینل تھا۔ بعد میں سی این بی سی پاکستان کے ساتھ سماء چینل بھی آگیا تو یہ بھی سیاسی ہوگیا۔ 'دوسرا پہلو' کے نام سے ہمارا پروگرام کئی سالوں سے جاری تھا۔ ایک دن سماء اور سی این بی سی پاکستان کے مالک جن کا زیادہ وقت دبئی میں گزرتا تھا، چینل میں آئے ہوئے تھے۔ اس بات کا بھی اعتراف کرلوں کہ انہوں نے بھی ہر اعتبار سے شفقت اور محبت فرمائی۔
عام طور پر وہ چینل کی پالیسی میں دخل نہ دیتے مگر بُلا کر کہا کہ فلاں ایشو پر جو اس وقت بڑا ہاٹ تھا، آپ پروگرام نہیں کریں گے۔ اب ہوا یہ کہ چینل کے دوسرے اینکر جو ماشاء اللہ اب ان کے داماد بھی ہیں، ایک شو کیا کرتے تھے۔ انہوں نے ہمیں اپنے پروگرام میں شرکت کی دعوت دی۔ خیال یہی ہوا کہ وہ کلیئرنس لے چکے ہوں گے اس ایشو پر بات کرنے کی۔ پروگرام ختم ہوا۔ تھوڑی ہی دیر بعد ڈائیریکٹر پروگرام جو ماشاء اللہ اب بھی پچھلی ایک دہائی سے اسی کرسی پر بیٹھے ہیں، بڑی گھبرائی ہوئی آواز میں کہا 'آپ کو تاحکمِ ثانی آف ایئر کردیا گیا ہے‘۔
غالباً اگلے دن ہمارا پروگرام نہیں ہوتا تھا۔ اگلے 24 گھنٹے ذہنی خلفشار میں گزرے کہ اسکرین پر 10 سال آواز لگانے کے باوجود اتنا بینک بیلنس نہیں ہوا تھا کہ مہینے دو گھر بیٹھ کر کھاتے۔ تاہم دبئی میں موجود چینل کے مالک سے اس بات پر معذرت کی اور پروفیشنلی اس کو میں درست بھی سمجھتا تھا کہ جب انہوں نے اس موضوع پر بات کرنے سے بذاتِ خود روکا تھا، تو مجھے آن ایئر نہیں جانا تھا۔ اب یہ یاد نہیں کہ پروگرام کے ہوسٹ جو ان کے فیملی ممبر بننے جارہے تھے، انہیں اور ان کے پروگرام کو بھی آف ایئر کیا گیا تھا کہ نہیں۔
پڑھیے: صحافت کا سہرا: صحافی تو میں بن گیا، مگر بنا کیسے؟
چینل 24 میں بھی ہم کوئی 2014ء سے 2017ء تک رہے۔ کیوں اور کس طرح اور کس کے حکم پر آف ایئر ہونے کا حکم ملا، اس کی تفصیل میں اس لیے نہیں جاؤں گا کہ وہ اب میرے لیے اتنے معتبر نہیں رہے۔ اس پر یہ بھی لکھتے ہوئے معذرت خواہ ہوں۔
عزیزی حامد میر کے آف ایئر ہونے پر جو شور وغوغا ہورہا ہے، اس میں میری آواز بھی شامل ہے۔ مگر یہ سوال کرنے کا تو حق ہے نا، کہ جس چینل کے مالکان نے آف ایئر کیا ہے، وہ اتنی جرأت کا مظاہرہ تو کریں کہ انہیں کس نے عزیزی میر کو آف ایئر کرنے کا کہا ہے؟
اسٹیبلشمنٹ کا لفظ اب اتنا معصوم لگنے لگا ہے کہ کسی کی نکسیر بھی پھوٹ جائے تو تہمت ان ہی کے سر ڈال دی جاتی ہے۔ ہمارے دوست یہ بھول جاتے ہیں کہ ہماری جیسی ریاستوں میں انفرادی مہم جوئی سیاسی و انسانی حقوق کے زمرے میں نہیں آتی۔
شاعرِ عوام جالب صاحب یاد آرہے ہیں کہ جب ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی اور اس کے بعد برسوں پیپلز پارٹی مصائب و آلام جھیلنے کے بعد اقتدار میں آئی تو اس کی قیادت میں کبھی جھوٹے سے بھی نام نہیں لیا کہ پیپلزپارٹی کی حکومت کس نے ختم کی اور اس کے قائد کو پھانسی چڑھانے میں کس کا ہاتھ تھا۔
جالبؔ صاحب نے بھٹو صاحب کا مرثیہ لکھتے ہوئے کہا تھا:
ہاتھ کس کا پسِ عدالت تھا
دار پر کس نے اس کو کھچوایا
ایک ہی مجرمِ زمانہ ہے
اس پر الزام تک نہیں آیا
مجاہد بریلوی ’جالب جالب‘، ’فسانہ رقم کریں‘ اور ’بلوچستان مسئلہ کیا ہے‘ کے مصنف ہیں۔ 2002ء میں پاکستان کے پہلے نجی چینل پر مجاہد آن لائن نامی پروگرام کی میزبانی کی اور پھر 8 سال تک سی این بی سی پر پروگرام ’دوسرا پہلو‘ کی میزبانی کرتے رہے۔ اس کے علاوہ ڈان نیوز ٹی وی پر ’سوال سے آگے‘ کی میزبانی بھی وہ کرچکے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔