برانڈنگ اور مارکیٹنگ کے چنگل میں پھنسی بے چاری صحافت
ڈیجیٹل میڈیا آنے کے بعد صحافت کے پیشے کو ایسے چیلنجز کا سامنا ہے جو اس سے پہلے کبھی نہ تھے۔ خبر کا ذریعہ اب صرف میڈیا ادارے نہیں بلکہ شخصیات بھی ہیں۔ ان صحافتی شخصیات کے ٹوئٹر، فیس بک، یوٹیوب پر لاکھوں فالوورز ہیں جو ان کی دی ہوئی خبر پر آنکھ بند کرکے یقین کرتے ہیں اور ان کے تبصروں، تجزیوں کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔
ان اینکرز، یوٹیوبرز اور تجزیہ نگاروں کو قابلِ اعتماد سمجھنے کی ایک بڑی وجہ ان کو دیکھنے، سُننے، ان کی ماننے اور انہیں چاہنے والوں کی بڑی تعداد ہے۔ خبر سے زیادہ اینکر کی مقبولیت، پذیرائی اور زیادہ لوگوں تک رسائی کی وجہ سے اب اشتہاری کمپنیاں براہِ راست میڈیا کی مقبول شخصیات سے رابطہ کرتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ اگر ایک ٹی وی چینل سے زیادہ کسی یوٹیوبر کا پروگرام یا اینکر کا انسٹاگرام دیکھا جارہا ہوگا تو خود سوچیں کہ اشتہار کس کو ملے گا؟
فلم اسٹار، صحافی، کھلاڑی، سیاستدان، ادیب وغیرہ کو شہرت کے میدان میں شکست سوشل میڈیا انفلوئنسرز کے ہاتھوں ہوئی ہے۔ سوشل میڈیا انفلوئنسر اس شخصیت کا نام ہے جو سوشل میڈیا پر لوگوں کی زندگیوں، ان کی رائے اور فیصلوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ وہ کالی رات کو روشن دن کہے تو سب کہنے لگیں کہ واقعی دن چمک رہا ہے ہم ہی اندھے ہیں جو نظر نہیں آرہا۔
تو یہ ہوتا ہے سوشل میڈیا انفلوئنسر۔
اب ڈیجیٹل نیوز میڈیا کے ستاروں کی تازہ واردات سُنیے۔
بے حد جذباتی اور فضول الفاظ کے بے دریغ استعمال کے لیے مشہور ایک اینکر نے ایک ویڈیو جاری کی، جس میں وہ کہنے لگے کہ ’تمباکو کی غیر قانونی تجارت کے باعث پاکستان کو 77 ارب سالانہ کا نقصان ہوتا ہے، فلاں ہوتا ہے اور فلاں ہونا چاہیے‘۔
مجھے خوشی ہوئی کہ کوئی مفادِ عامہ کی بات موصوف نے پوری تحقیق کے بعد کہی ہے۔ لیکن یہ خوشی زیادہ دیر نہ ٹِک سکی کیونکہ اگلے ہی دن وہی پیغام ایک اور اینکر کی ویڈیو میں سنا۔ پھر یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ سوشل میڈیا پر کئی بڑے نام اور بڑی فالوونگ والے اینکرز، یوٹیوبرز اور بعض صحافیوں نے وہی پیغام دُہرایا۔ بس الفاظ میں انیس بیس کا فرق تھا مگر پیغام میں کوئی تفریق نہیں تھی۔
میں نے لاحول پڑھا کہ کسی نے سب کو ایک ہی پیغام بھیجا ہوگا، چلو جانے دیتے ہیں، مگر گزشتہ روز مونا خان نے بتایا کہ ایک محترمہ نے ان سے بھی رابطہ کیا تھا کہ سوشل میڈیا پر تمباکو کی غیر قانونی تجارت سے متعلق ٹوئٹ اور ویڈیو ڈالیں، بجٹ موجود ہے لہٰذا مہم کا حصہ بننے پر معاوضہ دیا جائے گا۔ مونا انڈیپنڈنٹ اردو سے بطور نمائندہ اسلام آباد وابستہ ہے اور ہزاروں لوگ ان کے کام کو سراہتے ہیں۔ مونا ٹھہری ملنگ طبیعت سو اس نے جب ٹوئٹ اور ویڈیو کرنے کے عوض پیسے ملنے کا سُنا تو اس پیش کش کو نظر انداز کردیا۔
میں نے مونا کو ٹوکا کہ میڈیا کے بڑے بڑے اینکرز اس اشتہاری مہم کا حصہ بنے ہوئے ہیں جو بظاہر مفاد عامہ کا پیغام ہے، تم بھی کرلیتیں۔ مونا کہنے لگی کہ ’مارکیٹنگ اور صحافت 2 الگ پیشے ہیں۔ میں صحافی ہوں اور لوگوں کو میری خبروں پر اعتماد ہے، لہٰذا انہیں میں کوئی بامعاوضہ پیغام خبر کے انداز میں سناؤں اور یہ بھی نہ بتاؤں کہ یہ اسپانسرڈ مواد ہے تو یہ پیشہ ورانہ خیانت اور فکری بددیانتی ہوگی‘۔
البتہ مونا نے اتنا ضرور کہا کہ 'اگر رابطہ کرنے والے مفاد عامہ کا پیغام بلامعاوضہ کرنے کی درخواست کرتے تو ضرور کرتی۔ پیسے لے کر اشتہار کرنے کو شوبز والے بہت ہیں، یہ صحافیوں کا کام نہیں‘۔
مونا نے زور دیا کہ میں یہ ضرور کہنا چاہوں گی کہ ’یہی وہ باریک سی لکیر ہے جو ایک عامل صحافی اور ایک اینکر کو، ان کے رجحان اور ان کی پہچان کو جدا کرتی ہے‘۔
تمباکو کی غیر قانونی تجارت کے خلاف سوشل میڈیا مہم میں معروف ٹی وی اینکر مدیحہ عابد علی نے بھی حصہ لیا جن کے سوشل میڈیا پر ہزاروں فالوورز ہیں۔ مدیحہ نے مجھ سے بغیر کسی لگی لپٹی کھل کر اس موضوع پر بات کی۔ انہوں نے کہا کہ ’یہ پاکستانی معیشت کے مفاد میں ایک پیغام تھا اور میں نے اس ویڈیو میں عوام کو یہ بھی بتایا کہ تمباکو نوشی مضر صحت ہے‘۔
جب میں نے پوچھا کہ کیا اس پیغام کو جاری کرنے کے پیسے ملے؟ تو مدیحہ نے کہا ’ہاں ملے، مگر اس سے زیادہ پیسے تو ان فیشن، کپڑوں اور بیوٹی برانڈز سے مل جاتے ہیں جن کی مجھ سمیت بہت سے نیوز اینکرز توثیق کرتے ہیں‘۔
میں نے وہی سوال مدیحہ کے سامنے رکھا کہ کیا بحیثیت صحافی ان کی ذمہ داری نہیں تھی کہ وہ لوگوں کو بتاتیں کہ تمباکو کی غیر قانونی تجارت کے خلاف ان کا یہ پیغام ایک با معاوضہ تشہیر ہے۔ اس پر مدیحہ نے کہا کہ ’فالوورز کو یہ بتانا ضروری نہیں، ملک کے تمام نامور اینکرز اس مہم میں شامل ہوئے اور یہ ایک مثبت مہم تھی سو اس میں حصہ لینے میں مضائقہ نہیں‘۔
مدیحہ عابد علی کا ماننا ہے کہ ’سوشل میڈیا سیلیبرٹیز دنیا بھر میں برانڈنگ، مارکیٹنگ اور انڈورسمنٹ کا معاوضہ لیتی ہیں، یہ رجحان پاکستان میں نیا ہے اس لیے لوگوں کو عجیب لگ رہا ہے۔ برانڈز کی تشہیر سے طارق عزیز نے اپنا شو نیلام گھر چلایا تھا، رمضان ٹرانسمیشن میں اینکر کے آگے رکھا لال شربت تک بطور اشتہار موجود ہوتا ہے پھر اینکرز ذاتی طور پر کسی تشہیر کا حصہ کیوں نہ بنیں؟‘
مدیحہ کی دلیل جدید سوشل میڈیا انڈسٹری کے تناظر میں تو کافی ٹھوس ہے مگر صحافتی اصولوں پر پوری نہیں اترتی۔ سوشل میڈیا سیلیبرٹی اور صحافی، خبر اور اشتہار میں فرق ہونا ضروری ہے۔ صحافی اگر معاوضے کے عوض کوئی تشہیر کرتا ہے تو مفادات کے ٹکراؤ کا معاملہ پیدا ہوتا ہے۔
کہا تو مدیحہ نے ٹھیک ہی ہے کہ یہ رجحان نیا ہے اس لیے عجیب لگ رہا ہے۔ ویسے تو معاوضہ لے کر کسی سیٹھ، ادارے یا طاقتور شخصیت کے لیے اپنی صحافتی ساکھ اور شہرت کا استعمال کرنا ایسا بھی کچھ نیا نہیں۔ مہر بخاری اور مبشر لقمان کا بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض سے لیا گیا وہ انٹرویو تو سب کو یاد ہی ہوگا جس میں صرف سوال ہی نہیں بلکہ سوال کی ٹائمنگ سمیت سب کچھ پروگرام کے مہمان ملک ریاض طے کررہے تھے۔
بس فرق یہ ہے کہ اس وقت وہ انٹرویو دونوں اینکرز کی صحافتی ساکھ کو گرانے کے لیے کافی تھا۔ مگر اب 9 برس بعد یہ ایک سوشل میڈیا رجحان اور نیو نارمل بن کہ ابھرا ہے۔
وہ تو ایک پروگرام تھا جو کیمرے نے بلاضرورت ریکارڈ کرلیا، اور یہ تمباکو والی مہم بھی لائم لائٹ میں آگئی تو علم ہوگیا کہ یہ ایک بامعاوضہ تشہیری مہم ہے۔ نہ جانے ایسی کتنی خبریں، تصویریں، پیغام، تبصرے اور تجزیے ہوتے ہوں گے جن کے معاوضے لیے جاتے ہوں گے اور ہمیں کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔
عفت حسن رضوی اسلام آباد کی نجی نیوز ایجنسی کی کاریسپانڈٹ ہیں اور بین الاقوامی نشریاتی اداروں کے ساتھ بطور فری لانس کالم کار وابستہ ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: IffatHasanRizvi@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔