دنیا

'امریکا 20 روز میں بگرام بیس افغان فورسز کے حوالے کردے گا'

یہ بیس سویت یونین نے 1980 میں تعمیر کیا تھا جو افغانستان میں غیر ملکی افواج کے زیر استعمال سب سے بڑی فوجی سہولت گاہ ہے، رپورٹ

کابل: امریکی فوج، ان کے زیر استعمال مرکزی بگرام ایئر بیس 20 روز میں افغان فورسز کے حوالے کردے گی۔

ڈان اخبار میں شائع ہونے والی فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق یہ بات ایک عہدیدار نے بتائی۔

یہ وسیع بیس سویت یونین نے 1980 میں تعمیر کیا تھا جو افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کے زیر استعمال سب سے بڑی فوجی سہولت گاہ ہے اور افغان جنگ کے عروج میں یہاں لاکھوں فوجی تعینات تھے۔

یہ بھی پڑھیں:امریکا کا افغانستان سے فوج کے انخلا کا اعلان، طالبان کا خیرمقدم

ایک امریکی دفاعی عہدیدار نے منتقلی کے حوالے سے درست وقت بتائے بغیر کہا کہ 'میں تصدیق کرسکتا ہوں کہ ہم بگرام ایئر بیس دے دیں گے'۔

دوسری جانب ایک افغان سیکیورٹی عہدیدار کا کہنا تھا کہ بیس کی منتقلی 20 روز میں متوقع ہے اور وزارت دفاع نے اس کا انتظام سنبھالنے کے لیے خصوصی کمیٹیاں تشکیل دے دی ہیں۔

یہ بیس گزشتہ 2 دہائیوں کے دوران افغانستان میں ملک گیر کمانڈ اور فضائی آپریشنز کا مرکز رہی ہے اور یہاں ایک جیل بھی ہے جہاں کئی سالوں تک ہزاروں طالبان اور عسکریت پسندوں کو قید رکھا گیا۔

واشنگٹن یکم مئی سے قبل اپنے متعدد اڈے پہلے ہی افغان فورسز کے حوالے کرچکا ہے جب اس نے فوجوں کے حتمی انخلا کو تیز کیا تھا۔

مزید پڑھیں: افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا پاکستان، دیگر ہمسایہ ممالک کیلئے ایک امتحان

گزشتہ ماہ امریکا نے جنوبی افغانستان میں قندھار ایئر فیلڈ سے انخلا مکمل کیا ہے جو یہاں غیر ملکی افواج کی دوسری بڑی فوجی بیس تھی۔

امریکی افواج کا انخلا ایسے وقت میں ہورہا ہے کہ جب افغانستان میں طالبان اور افغان فورسز کے درمیان پر تشدد جھڑپیں جاری ہیں۔

گزشتہ برس قطر میں امن مذاکرات کا آغاز ہوا تھا لیکن 2 دہائیوں سے جاری اور ہزاروں افراد ہلاکت کا سبب بننے والی جنگ کے خاتمے کے لیے اب تک کسی معاہدے میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔

ایک روز قبل افغان حکومت کی مذاکراتی ٹیم تعطل کا شکار بات چیت کی بحالی کی امید لیے دوحہ روانہ ہوئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: طالبان کی افغانستان سے فوجی انخلا میں تاخیر پر امریکا کو 'سنگین ردعمل' کی دھمکی

وزارت امن کی ترجمان ناجیہ انوری نے بتایا کہ 'ہماری ٹیم سنجیدہ بات چیت کے لیے تیار ہے، تنازع کا کوئی عسکری حل نہیں ہے لیکن بات چیت دوبارہ شروع کرنے کے لیے اب تک کوئی تاریخ مقرر نہیں ہوئی'۔

حکومتی ٹیم میں شامل فوزیہ کوفی کا کہنا تھا کہ وہ اس مرتبہ بامعنی اور نتیجہ خیز مذاکرات کی اُمید رکھتی ہیں تا کہ لوگوں کی تکالیف اور قتل و غارت گری ختم ہوسکے۔

پاکستان کو افغانستان میں سیکیورٹی خلا کے حوالے سے تشویش

علیزے گبول کا جعلی سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے خلاف قانونی کارروائی پر اظہارِ مسرت

ڈینیئل پرل قتل کیس: عمر شیخ کی رہائی کے خلاف وفاق کی درخواست پر فریقین کو نوٹس جاری