بُک ریویو: کراچی وائس: لائف اینڈ ڈیتھ ان اے کنٹیسٹڈ سٹی
1980ء کی دہائی سے قبل کراچی کو اس کے عروج کے دنوں میں ’روشنیوں کا شہر‘ کہا جاتا تھا۔ کئی حوالوں سے یہ شہر دنیا کے دیگر بڑے شہروں سے مختلف نہیں تھا۔ پورے پاکستان اور اس خطے بھر سے لوگ اس معاشی حب میں آتے تھے۔
امریکی صحافی اسٹیو انسکیپ نے اپنی کتاب انسٹینٹ سٹی: لائف اینڈ ڈیتھ ان کراچی میں اس شہر کو بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ شہر ’پوری قوم کی توانائیاں اور پریشانیاں ایک جگہ جمع کردیتا ہے‘۔ تاہم روز مرہ کی پریشانیوں کے علاوہ کچھ ایسی مشکلات بھی تھی جو اس شہر کے حوالے سے مخصوص ہیں۔
تقسیم کے وقت اس شہر کی آبادی 5 لاکھ سے بھی کم تھی اور حالیہ تخمینے کے مطابق اس کی آبادی 2 کروڑ سے زیادہ ہوچکی ہے۔ تاہم خدمات اور انفرااسٹرکچر بڑھتی ہوئی آبادی کا مقابلہ نہیں کرسکے۔ گزشتہ 3 دہائیوں میں دہشتگردی، فرقہ وارانہ فسادات اور گینگ وار شہر کے مسائل میں اضافے کا سبب بنے۔
مختلف گینگ، عسکری گروہوں اور مین اسٹریم کی سیاسی جماعتوں کے مابین رابطوں نے صورتحال کو مزید پیچیدہ کردیا۔ ایوارڈ یافتہ برطانوی صحافی سمیرا شیکل اپنی کتاب ’کراچی وائس: لائف اینڈ ڈیتھ ان اے کنٹیسٹڈ سٹی‘ (Karachi Vice: Life and Death in a Contested City) میں لکھتی ہیں کہ ’ہر مجرم کی کوئی نہ کوئی سیاسی وابستگی ہوتی ہے، اور سیاسی جماعتیں بھی متعدد جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کرتی ہیں‘۔
کراچی کو درپیش چیلنجز کے باوجود مصنفہ یہاں کے شہریوں اور یہاں آنے والوں کے لیے اس شہر کی کشش کو سمجھتی ہیں۔ انہوں نے خود بھی 2012ء سے 2013ء تک ایک سال کا عرصہ اپنے خاندان کے ساتھ اس شہر میں گزارا اور بعد میں بھی کئی مرتبہ یہاں کھنچی چلی آئیں۔ وہ اپنی کتاب کی تمہید میں لکھتی ہیں کہ ’ان تمام لوگوں کی طرح جو ہر سال اس شہر کا رخ کرتے ہیں، میں بھی خود کو اس شہر کے سحر سے آزاد نہیں کرسکی‘۔
کراچی نے بہت زیادہ دہشت دیکھی ہے۔ یہاں جن لوگوں کے پاس طاقت تھی انہوں نے اس کا ظالمانہ استعمال کیا۔ یہ تضادات کا شہر ہے، یہاں ایک طرف خوشحالی اور دولت نظر آتی ہے تو دوسری طرف انتہائی غربت دیکھنے کو ملتی ہے، یہاں آئیڈیل ازم اور کرپشن کے درمیان موجود لکیر دھندلی ہوتی نظر آتی ہے۔ اس شہر میں جہاں عام آدمی ناقابلِ تصور مشکلات کے باوجود زندگی گزارنے کی کوشش کر رہا ہے وہیں کچھ غیر معمولی لوگ بھی ہیں جو اپنی اور اپنے اردگرد موجود افراد کی بھلائی کے لیے کچھ کر گزرنے کی کوشش میں لگے ہیں۔
مصنفہ نے اپنی کتاب میں کراچی کو 5 ایسے ہی افراد کی نظر سے دیکھا ہے۔ یوں ایک ایسے شہر کی منظر کشی ہوتی ہے جو دہشتگردی، منظم جرائم، گینگ وار اور کبھی شہر کی سب سے طاقتور جماعت رہنے والی متحدہ قومی موؤمنٹ (ایم کیو ایم) کی جارحیت اور کرپشن کا شکار ہے۔
ان 5 افراد کے تجربات ہی کراچی وائس کو ایک زبردست، پُرجوش اور دلچسپ کتاب بناتے ہیں۔ ان 5 کرداروں میں جو چیز یکساں ہے وہ حالات کا مقابلے کرنے اور ہمت نہ ہارنے کا جذبہ ہے۔
پروین لیاری سے تعلق رکھنے والی ایک استانی اور سماجی کارکن ہیں جو اپنے خیالات کے اظہار سے نہیں ہچکچاتیں۔ ان کا کام اکثر انہیں خطرے میں ڈال دیتا ہے۔ ظلِ ٹی وی کے کرائم رپورٹر ہیں، ان کا کام بھی انہیں خطروں سے دوچار کرتا ہے، وہ اپنے پیشے سے وابستہ خطرات کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’جب آپ دہشتگردوں کی ہٹ لسٹ میں ہوں تو سب کو معلوم ہوجاتا ہے کہ آپ حقیقی صحافی ہیں‘۔
ایدھی فاؤنڈیشن ملک کا سب سے بڑا فلاحی ادارہ ہے اور کراچی شہر کے بھائی چارے کا سب سے بڑا مظہر ہے۔ صفدر، ایدھی فاؤنڈیشن میں ایمبولینس ڈرائیور ہیں۔ ظلِ کی طرح انہوں نے بھی پُرخطر حالات کا سامنا کیا ہے لیکن ایک علیحدہ انداز میں۔ ان کے لیے سانحات کا مشاہدہ کرنا روز کا معمول ہے۔ وہ مصنفہ کو بتاتے ہیں کہ ’میں ماضی کی یادوں میں نہیں جھانکتا وہ یادیں ایک جیل کی طرح ہیں‘۔
سراج ایک شہری نقشہ ساز اور سماجی کارکن ہیں جو اورنگی پائلٹ پراجیکٹ پر کام کررہے ہیں۔ وہ اورنگی ٹاؤن کی ان آبادیوں کا سروے کر رہے ہیں جو باضابطہ طور پر قائم نہیں ہیں تاکہ وہاں کے رہائشیوں کو بنیادی حقوق مل سکیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’چیزوں کو کاغذ پر منتقل کرنے کا مطلب ہے کہ آپ ان کی موجودگی ثابت کرسکتے ہیں، شہر کی بے ترتیبی اور ہنگامہ خیزی میں یہ اپنے دفاع کے لیے بہت ضروری ہے‘۔
پھر اس کتاب میں جنت نامی ایک نوجوان خاتون کا ذکر ہے۔ کراچی کے مضافات میں رہنے والی جنت نے تمام مشکلات کے باوجود اسکول کی تعلیم مکمل کی لیکن وہ سوچتی ہیں کہ کیا ان کے بچوں کا مستقبل زیادہ بہتر اور آسان ہوگا؟ جنت کا خاندان جس گاؤں میں صدیوں سے آباد تھا اس کی زمین پر بحریہ ٹاون کراچی کی جانب سے قبضہ کیا جارہا ہے۔ یہ اس بات کی بہترین مثال ہے کہ طاقتور اور امیر لوگ اپنی قوت کا کس بے دردی سے استعمال کرتے ہیں۔ بلڈوزروں کے پیچے پولیس کی موجودگی امیروں کے اختیارات اور غریبوں کی بے چارگی کا مظہر ہے۔
مصنفہ نے برطانوی اداروں کے لیے خبر نگاری شروع کی اور 2015ء اور 2016ء میں دی گارجئین کے لیے ظلِ اور صفدر پر تفصیلی تحریر لکھی۔ بعد میں اسی کاوش نے ایک کتاب کے خیال کا روپ دھار لیا۔ اس شہر سے ان کے لگاؤ کی وجہ خاندانی بھی ہے۔ ان کی والدہ کے خاندان کا تعلق یہیں سے تھا اور ان کی والدہ کراچی میں ہی پیدا ہوئیں اور یہیں پلی بڑھیں۔
مصنفہ کو یہ فائدہ ضرور حاصل تھا کہ وہ شہر کے اندرونی اور بیرونی دونوں حالات سے واقف تھیں۔ یہاں اس دور کی بات ہوئی ہے جب پہلے سے مشکلات کے شکار شہر میں طالبان آنا شروع ہوتے ہیں۔ جیسے جیسے انفرادی کہانیاں آگے بڑھتی ہیں ویسے ویسے ہمارے سامنے گزشتہ دہائی کے کراچی کا ایک وسیع منظرنامہ آنے لگتا ہے۔
مصنفہ نے پانچوں کرداروں کو ان کی منفرد آواز دے کر ان کے تناظر کی عکاسی کی ہے۔ انہوں نے خود کو کہانی میں مرکزی حیثیت نہیں دی۔ ان کی موجودگی صرف اس وقت ظاہر ہوتی ہے کہ جب قاری کو یہ بتانا ضروری ہو کہ واقعات کو ایک رپورٹر کی آنکھ سے دکھایا جارہا ہے۔
اس کہانی کے کردار جس کراچی کو ظاہر کرتے ہیں وہ اس کراچی سے بالکل مختلف ہے جہاں امرا ایک حفاظتی حصار میں رہتے ہیں۔ عام طور پر، شہر کا ایک حصہ جنگ زدہ نظر آتا ہے جبکہ متمول علاقوں میں زندگی معمول کے مطابق جاری رہتی ہے۔ اس کتاب میں ذکر کردہ علاقوں کی تفصیلات کسی ایسے شخص کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہوسکتی ہیں جو اس شہر میں نسبتاً محفوظ اور مراعت یافتہ زندگی گزار رہا ہو۔ یہ لاتعلقی طبقاتی تقسیم کے ساتھ ساتھ شہر کی وسعت کا بھی ثبوت ہے۔
مصنفہ نے جن سانحات کا ذکر کیا ہے ان میں 2009ء میں عاشورہ کے جلوس پر ہونے والا خودکش حملہ بھی ہے جس میں تقریباً 50 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ 2012ء میں شہر کے شورش زدہ علاقے لیاری میں ’8 روزہ آپریشن‘ کا آغاز ہوا جس میں تقریباً 3 ہزار پولیس اہلکاروں نے مقامی گینگسٹر کے خلاف مورچے سنبھالے۔ بھاری مشین گنوں کی فائرنگ اور راکٹوں کے باعث مکین اپنے گھروں سے بھی نہ نکل سکے، ان کے گھروں میں پانی، بجلی اور گیس پہلے ہی بند تھے۔ دونوں جانب ہونے والے جانی نقصان کے باعث پولیس کو پیچھے ہٹنا پڑا۔
2012ء میں ہونے والے ایک سانحے میں بلدیہ ٹاؤن کی ایک فیکٹری میں لگنے والی آگ میں 260 مزدور ہلاک ہوگئے۔ اس کتاب میں 2014ء میں کراچی ایئرپورٹ پر ہونے والے دہشتگردوں کے حملے کا بھی ذکر ہے۔ مصنفہ نے ان واقعات کو ’جنگ جیسی‘ صورتحال سے تعبیر کیا ہے۔
مصنفہ نے اس بات کا بھی ذکر کیا ہے کس طرح ایم کیو ایم کے عروج نے شہر کے سیاسی منظرنامے کو تبدیل کردیا۔ 2012ء میں ایم کیو ایم کی ایک ہڑتال سے مصنفہ پر یہ بات واضح ہوگئی کہ اس شہر میں ایم کیو ایم کے قائد کی مرضی کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا، وہی قائد جو مصنفہ کے آبائی شہر لندن میں خودساختہ جلاوطنی کی زندگی کزار رہے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے اس شہر کو دیکھا اور مجھے معلوم ہوا کہ طاقت کس طرح کام کرتی ہے‘۔
اس پوری کتاب میں بارہا حکومت کی عدم موجودگی یا عدم دلچسپی کا ذکر کیا گیا ہے۔ طاقتور ترین انٹیلیجنس سروس اور فوج کی موجودگی کے باوجود اس شہر میں اور ملک بھر میں لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا تھا۔ حکومت کی جانب سے اسپتالوں اور پولیس کے شعبے میں بہتری کے لیے کچھ نہیں کیا گیا اور نہ ہی پانی اور بجلی جیسی بنیادی سہولیات فراہم کرنے سے متعلق کوشش کی گئی، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان معاملات کی ذمہ داری یا تو فلاحی اداروں نے لے لی یہ یا چیزیں مافیاز کے ہاتھوں میں چلی گئیں۔
اس کتاب کا ایک باب مرحومہ پروین رحمٰن پر بھی ہے۔ انہوں نے عوام کے لیے کام کرتے ہوئے پانی مافیا اور لینڈ مافیا کو بے نقاب کیا تھا۔ وہ بہت ہی عمدہ طریقے سے حکومتی کرپشن، واٹر بورڈ میں کرپشن اور جرائم پیشہ افراد کی جانب سے پانی چوری اور پھر اسے مہنگے داموں عوام کو فروخت کرنے کو بھی سامنے لے کر آئیں۔
ان کے کام میں بہت خطرہ تھا۔ انہیں 2013ء میں قتل کردیا گیا۔ اس وقت سراج پروین رحمٰن کے ساتھ کام کر رہے تھے۔ سراج نے پروین رحمٰن کی نگرانی میں جو کام شروع کیا تھا ان کے قتل کے بعد سراج نے اس کام کو اپنے آزاد ادارے ٹیکنیکل ٹریننگ ریسورس سینٹر (ٹی ٹی آر سی) کی مدد سے آگے بڑھایا۔
کراچی میں کشیدگی اس وقت قابو میں آئی جب آرمی آپریشن کے بعد دہشتگردوں کا صفایا کیا گیا اور ایم کیو ایم کی طاقت کو کم کیا گیا۔ تاہم ابھی بھی کراچی میں نسائی تحریک کے کارکنوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور وہ سب جو اسٹیٹس کو کے خلاف بات کرتے ہیں، ان کے لیے خطرات موجود ہیں۔ یہ خطرات درست ہیں، ان میں سے کچھ لاپتا ہوچکے ہیں، کچھ کو تفتیش کے لیے گرفتار کیا گیا اور کچھ عدم تحفظ کی بنا پر ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔
قانون اور سزاؤں سے بچنے کے لیے کئی گینگز کے سربراہ اب ملک سے باہر منتقل ہوچکے ہیں۔ اس سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ شہر کے حالات بہتر ہوچکے ہیں جبکہ ان گینگز کے تمام معاملات ابھی بھی اسی طرح جاری ہیں۔ اگرچہ ایک بڑے اخبار نے جنوبی ایشیا کے سب سے بڑے اور پُرتعیش رہائشی منصوبے کی غیر قانونی تعمیر اور اس کے لیے تباہ کیے جانے والے دیہاتوں کے حوالے سے حقیقت بیان کی ہے، مگر اس کے باوجود اس منصوبے پر کام اب بھی جاری ہے۔
مصنفہ نے اس کہانی کو زبردست مہارت کے ساتھ پیش کیا ہے اور اپنا تجزیہ بیان کرنے کے لیے کئی طریقوں کا انتخاب کیا ہے۔ ان کی یہ کتاب ہے تو غیر افسانوی لیکن ایک ناول کی طرح دلچسپ ہے۔ اس میں ہر کردار کو اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ وہ جیتا جاگتا قاری کے سامنے موجود ہوتا ہے۔ مصنفہ کے تجزیے میں اس شہر کی تفہیم، اس سے ہمدردی اور اس کے حوالے سے حساسیت پوشیدہ ہے۔ اس کتاب میں کراچی کو ان افراد کی آنکھ سے دیکھا گیا ہے جو اس تباہ حال شہر کو بہتر کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔
یہ کراچی کے ان گمنام ہیروز کی کہانی ہے جو اپنے کام میں ثابت قدم رہتے ہیں اور دوسروں کو امید فراہم کرنے کا باعث بنتے ہیں۔
کتاب کا نام: Karachi Vice: Life and Death in a Contested City
مصنفہ: سمیرا شیکل
گراناتا، برطانیہ
آئی ایس بی این: 1783785391-978
صفحات: 272
یہ مضمون 30 مئی 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
تبصرہ نگار ایک فری لانس لکھاری ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔