انہوں نے بتایا کہ سائنسدانوں نے کورونا وائرس سے حال ہی میں متاثر ہونے والے مریضوں کے جینیاتی سیکونسنگ کے دوران اس نئی قسم کو دریافت کیا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ یہ نئی قسم بہت زیادہ متعدی نظر آتی ہے اور دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ آسانی سے پھیل سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا 'ویتنام نے کووڈ 19 کی ایک نئی قسم کو دریافت کیا ہے جس میں بھارت اور برطانیہ میں دریافت ہونے والی اقسام کی میوٹیشنز کا امتزاج موجود ہے'۔
ویتنام کے وزیر صحت نے بتایا 'بنیادی طور پر یہ بھارت میں دریافت ہونے والی قسم ہے جس میں ایسی میوٹیشنز موجود ہیں جو برطانیہ میں دریافت ہونے والی قسم میں دیکھنے میں آئی، اس وجہ سے یہ نئی قسم بہت خطرناک ہے'۔
لیبارٹری میں ہونے والی تحقیق میں معلوم ہوا کہ یہ نئی قسم بہت تیزی سے اپنی نقول بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس سے یہ ممکنہ وضاحت ہوتی ہے کہ ویت نام میں حال ہی میں اچانک کووڈ کے کیسز میں تیزی سے اضافہ کیوں ہوا ہے۔
خیال رہے کہ کورونا وائرس میں معمولی جینیاتی تبدیلیاں عام ہیں جس کے نتیجے میں نئی اقسام سامنے آتی ہیں۔
تاہم اب تک عاللمی ادارہ صحت نے بی 117 (سب سے پہلے برطانیہ میں سامنے آئی تھی)، بی 1617 (بھارت میں دریافت ہوئی) سمیت جنوبی افریقہ اور برازیل میں دریافت ہونے والی اقسام کو عالمی سطح پر تشویش کا باعث قرار دیا ہے۔
سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ برطانیہ اور بھارت میں دریافت ہونے والی دیگر کے مقابلے میں 50 فیصد زیادہ متعدی ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کی کووڈ 19 ٹیم کی سربراہ ڈاکٹر ماریہ وان کرکوف ہم نے ابھی تک ویت نام میں دریافت ہونے والی نئی قسم کا تجزیہ نہیں کیا۔
تاہم ان کا کہنا تھا 'ہمیں مزید اقسام سامنے آنے کی توقع ہے کیونکہ وائرس کے پھیلاؤ سے وہ ارتقائی مراحل سے گزر رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں سیکونسنگ کی گنجائش کو بڑھایا جارہا ہے'۔
انہوں نے مزید کہا کہ وائرس کی ہر نئی قسم کے بارے میں سب سے پہلے عالمی ادارے کو تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔