'ترکی کی طرح معاشی ترقی کے خواہاں ہیں، جو طویل المعیاد معاشی پالیسی کی بدولت ممکن ہے'
وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے معاشی حکمت عملی سے متعلق کہا ہے کہ ہم ترکی کی طرح معاشی ترقی کے خواہاں ہیں جس نے طویل المعیاد معاشی پالیسی کی بدولت کامیابی حاصل کی۔
اسلام آباد میں ملک کے آنے والے بجٹ سے متعلق منعقدہ ویبینار سے خطاب کے دوران وزیر خزانہ نے کہا کہ 60 کی دہائی کے علاوہ ہمارے پاس کبھی پائیدار معاشی پالیسی نہیں رہی۔
مزید پڑھیں: پہلی مرتبہ گیارہ ماہ کے عرصے میں 41 کھرب 43 ارب روپے ریونیو اکٹھا کیا گیا
انہوں نے کہا کہ 'جب میں نے قلمدان سنبھالا تو چند ماہر معاشیات کو شامل کیا جبکہ ایک اکنامکس ایڈوائزری کونسل موجود ہے'۔
شوکت ترین نے کہا کہ 'میں نے کونسل سمیت دیگر اسٹیک ہولڈرز سے درخواست کی کہ اس حوالے سے معلومات حاصل کریں کہ ہمارے پاس پائیدار معاشی پالیسی کیوں نہیں رہی اور اس کی وجہ سے کن معاشی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا'۔
انہوں نے کہا کہ اس پر کام ہورہا ہے آئندہ ہفتے رپورٹ میں اس امر کی نشاندہی ہوجائے گی۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ 'میں نے ایڈوائزری کونسل کو حکومت کے ساتھ مل کر 12 شعبہ جات میں کام کرنے کا کہا ہے'۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس طویل المعیاد اور مختصر المعیاد پالیسیاں ہیں، اتنے وسائل نہیں کہ تمام شعبہ جات میں ایک ساتھ کام کریں'۔
یہ بھی پڑھیں: شوکت ترین کو اقتصادی مشاورتی بورڈ کے سربراہ تعینات کیے جانے کا امکان
شوکت ترین نے کہا کہ 60 کی دہائی میں پاورفل پلاننگ کمیشن تھا اور اسے حکومت کی ماں کا درجہ حاصل تھا لیکن بعد میں آنے والی حکومتوں نے کمیشن کو غیر مؤثر کردیا۔
انہوں نے کہا کہ آنے والے بجٹ میں زرعی شعبے میں غیرمعمولی مراعات دیں گے۔
وزیر خزانہ نے برآمد کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پائیدار ترقی کے لیے برآمد ناگزیر ہے اور اس ضمن میں اہم اقدامات لیے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ 'ہم شبعہ سروسز میں مراعات دیں گے اور ای کامرس کو ڈیجیٹائزیشن کے ذریعے مزید پائیدار بنائیں گے'۔
وزیر خزانہ نے کہا ہماری ساری توجہ شرح نمو میں بہتری پر مرکوز ہے۔
علاوہ ازیں ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان نے معیشت کے لیے بڑے فیصلے کیے اور حکومت سنبھالی تو معیشت کو شدید بحران کا سامنا تھا۔
انہوں نے کہا کہ روپے کی قدر میں اضافے کے لیے ترجیحی اقدامات کیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ تعمیراتی شعبے سے منسلک 40 سے زائد صنعتوں کو بھی فعال کیا گیا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ یہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) پروگرام بہت مشکل تھا، جب مہنگائی 7 فیصد تھی تب ڈسکاؤنٹ ریٹ 13.25 فیصد بڑھا دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ 'حقیقت یہ ہے کہ مجھے اس سے مسئلہ ہے کیونکہ ڈسکاؤنٹ ریٹ دراصل ضرورت اشیا سے متعلق مہنگائی کو قابو نہیں کرتا'۔
مزید پڑھیں: شوکت ترین ملکی معیشت کو کس سمت لے جانے والے ہیں؟
شوکت ترین نے کہا کہ اس مد میں قومی خزانے کو اربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ روپے کی قدر میں کمی ہوئی اور بجلی کے ٹیرف میں غیرمعمولی اضافہ کیا گیا تاکہ گردشی قرضے کم کیے جا سکیں۔
انہوں نے کہا کہ گروتھ ریٹ تنزلی کا شکار ہوا اور اس کے بعد کووڈ 19 کی وبا شروع ہوئی تو شرح نمو منفی میں داخل ہوگئی۔
شوکت ترین نے کہا کہ اس دوران حکومت نے احساس پروگرام کے تحت مستحق افراد میں نقد رقم تقیسم کی۔
انہوں نے کہا حکومت نے شعبہ تعمیرات کو اہمیت دی اور اس طرح اس شعبے سے منسلک 40 سے زائد صنعتوں میں معاشی سرگرمیاں بحال رہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس طرح معیشت تھوڑی بحال ہونے لگی، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اپنی جگہ رک گیا اور حالیہ برس میں یہ سرپلس میں ہے لیکن اکنامک گروتھ منفی رہی۔
شوکت ترین نے کہا کہ رواں برس بڑی صنعتوں میں کاروباری سرگرمیاں شروع ہوئیں اور ایکسپورٹ میں بہتر آئی۔
انہوں نے کہا کہ کاٹن کے علاوہ تمام زرعی مصنوعات اور شعبہ ہاؤسنگ کے ساتھ ساتھ سروسز سیکٹر میں نمایاں بہتری آئی ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان میں ٹیکس وصول کرنے والے ادارے نے رواں مالی سال کے 11 ماہ میں 41 کھرب 43 ارب روپے اکھٹا کیا جو تاریخ میں سب سے زیادہ ہے۔