آئی ایس آئی کا صحافی پر حملے سے اظہارِ ’لاتعلقی‘
اسلام آباد: ملک کے اندرونی اور بیرونی سیکیورٹی معاملات پر نظر رکھنے والی پاکستان کی اہم ترین خفیہ ایجنسی انٹر سروس انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) نے اسلام آباد میں صحافی اور یوٹیوبر اسد علی طور پر ہونے والے حالیہ حملے سے خود کو مکمل طور پر علیحدہ کرلیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایک جاری بیان میں کہا گیا کہ اس واقعے پر وزارت اور آئی ایس آئی کے مابین ایک ’اعلی سطح کا رابطہ‘ قائم ہوا تھا جس میں اسلام آباد میں ڈیجیٹل میڈیا کے صحافی پر ’مبینہ طور پر حملے‘ کے حوالے سے بات چیت ہوئی اور آئی ایس آئی نے بیان دیا تھا کہ اس کا اس واقعے سے کوئی لینا دینا نہیں۔
مزید پڑھیں: اسلا آباد میں صحافی پر نامعلوم افراد کا تشدد
بیان میں کہا گیا کہ ’آئی ایس آئی کے خلاف اس طرح کے لگاتار الزامات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایک منظم سازش کے تحت فیتھ جنریشن وار کا نشانہ بنایا جارہا ہے‘۔
آئی ایس آئی کی جانب سے وضاحتی بیان ملک میں صحافیوں پر بڑھتے ہوئے حملوں کے خلاف اسلام آباد میں ہونے والے احتجاجی مظاہرے کے ایک روز بعد جاری ہوا۔
بیان میں کہا گیا کہ ’آئی ایس آئی کا خیال ہے کہ جب سی سی ٹی وی فوٹیج میں مبینہ حملہ آوروں کی شناخت کی جاسکتی ہے تو ان کے خلاف تحقیقات ہونی چاہیے اور اس کے ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: 'آزاد صحافت پر بڑھتے ہوئے حملے آمرانہ سوچ کو تقویت دینے کا باعث ہیں'
انہوں نے کہا کہ آئی ایس آئی تحقیقات میں اپنے بھر پور تعاون کا یقین دلاتی ہے۔
وزارت اطلاعات کے حکام اسلام آباد پولیس سے رابطے میں ہیں اور اُمید ہے کہ جلد ہی ملزمان کو بھی گرفتار کرلیا جائے گا۔
خیال رہے کہ اسد علی طور کو 25 مئی کو سیکٹر ایف 10 میں واقع ان کی رہائش گاہ کے باہر نامعلوم حملہ آوروں نے شدید زدوکوب کیا تھا۔
پولیس کے مطابق کچھ لوگ ایک اپارٹمنٹ کی عمارت میں واقع اسد طور کی رہائش گاہ کے باہر جمع ہوئے اور اس دوران جھگڑا ہوا جس کے بعد نامعلوم افراد نے تشدد کیا اور فرار ہوگئے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں سال 2020 آزادی صحافت کیلئے تاریک رہا، پی پی ایف
اسد طور نے واقعے کی کچھ تفصیلات بیان کرتے ہوئے ویڈیو کے ذریعے بتایا کہ حملہ آوروں نے ان سے ان کے فنڈز کے بارے میں پوچھا تھا۔
بعدازاں وزیر اطلاعات چوہدری فواد حسین نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے اسلام آباد پولیس چیف کو معاملے کی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔