سپر ٹیسٹر ایسسے فرد کو کہا جاتا ہے جو غذا میں تلخی کے حوالے سے بہت زیادہ حساس ہوتے ہیں۔
تحقیق میں کہا گیا کہ ایسے افراد میں نہ صرف کووڈ 19 سے متاثر ہونے کا خطرہ کم ہوتا ہے بلکہ بیمار ہونے پر ہسپتال میں داخلے کا امکان بھی کم ہوتا ہے۔
تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ سپر ٹیسٹرز افراد میں کووڈ 1 کی علامات اوسطاً محض 5 دن تک ہی برقرار رہتی ہیں جبکہ دیگر میں اوسطاً 23 دن تک موجود رہ سکتی ہیں۔
تحقیق میں یہ واضح طور پر نہیں بتایا گیا کہ کیسے اور کیوں منہ کا ذائقہ کووڈ 19 کے خطرے پر اثرانداز ہوتا ہے مگر محققین نے ایک خیال ضرور ظاہر کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ تلخ ذائقہ محسوس کرانے والے ریسیپٹرز ٹی 2 آر 38 زبان کے ذائقہ کا احساس دلانے والی سطح پر موجود ہوتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ جب یہ ریسیپٹر متحرک ہوتے ہیں تو اس کے ردعمل میں نائٹرک آکسائیڈ بنتا ہے جو نظام تنفس میں موجود ایک جھلی میں وائرس کو مارنے میں مدد کرتا ہے یا ان کو مزید نقول بنانے سے روکتا ہے۔
یہ جھلی ہی جسم میں وائرسز بشمول کورونا وائرس کے داخلے کا ایک مقام ہوتی ہے۔
محققین نے بتایا کہ متعدد تحقیقی رپورٹس میں تلخ ذائقے کے احساس دلانے والے ریسیپٹرز سے کووڈ 19 و بالائی نظام تنفس کے دیگر امراض کے خطرے پر اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔
اس تحقیق میں 2 ہزار کے قریب افراد کو شامل کیا گیا تھا اور ان کے حس ذائقہ کی آزمائش کاغذی پٹیوں سے کی گئی۔
ان لوگوں کو 3 گروپس میں تقسیم کیا گیا تھا، ایک نان ٹیسٹرز، دوسرا سپر ٹیسٹرز اور تیسرا ٹیسٹرز۔
نان ٹیسٹرز ایسے افراد کا گروپ تھا جو مخصوص تلخ ذائقے کو شناخت ہی نہیں کرپاتے، سپر ٹیسٹرز تلخ ذائقے کے حوالے سے بہت حساس ہوتے ہیں اور بہت کم مقدار میں بھی اسے شناخت کرلیتے ہیں، جبکہ ٹیسٹرز ان دونوں کے درمیان موجود گروپ تھا۔
تحقیق کے دوران 266 افراد میں کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی جن میں نان ٹیسٹرز کی تعداد زیادہ تھی اور ان میں بیماری کی شدت کا خطرہ بھی زیادہ دریافت کیا گیا۔
اس کے مقابلے میں ٹیسٹرز کے گروپ میں کووڈ 19 کی علامات کی شدت معمولی سے معتدل ہوسکتی ہے اور انہیں اکثر ہسپتال میں داخلے کی ضرورت نہیں ہوتی۔