برطانوی وزیراعظم نے مسلمان با پردہ خواتین سے متعلق بیان پر معافی مانگ لی
برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے ماضی میں اسلام اور برقع پوش خواتین کے حوالے سے کیے گئے نامناسب تبصرے پر معافی مانگتے ہوئے کہا ہے کہ اگر کسی کی دل آزاری ہوئی تو میں معذرت چاہتا ہوں۔
خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق بورس جانسن نے ایک آزاد پروفیسر سوارن سنگھ کو انٹرویو دیا تھا کہ جو برابری اور انسانی حقوق کمیشن کے کمشنر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: برطانوی وزیراعظم اگلے سال تیسری شادی کریں گے، رپورٹ
انہوں نے اپنی سیاسی جماعت کی جانب سے کیے گئے ایک انٹرویو میں اپنے رویے پر معافی مانگی جہاں مذکورہ رپورٹ میں 2018 میں دیے گئے ان کے انٹرویو کا حوالہ دیا گیا۔
انہوں نے برقع پہننے والی خواتین کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ برقع پہننے والی عورتیں اطراف میں گھومتی ہوئی لیٹر باکس کی طرح لگتی ہیں اور انہیں بینک لوٹنے والے ڈاکوؤں سے تشبیہ دی تھی۔
جانسن نے اس مضمون کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک مسلمان عورت کے لبرل انتخاب کا دفاع ہے کہ وہ کیا پہننا چاہتی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق بورس جانسن نے کہا کہ میں نہیں جانتا کہ میں نے جو کہا اس سے میں کسی جرم کا ارتکاب کر بیٹھا ہوں، لوگ توقع کرتے ہیں کہ میں جس مقام پر ہوں وہاں ہر چیز ٹھیک ہو لیکن صحافت میں آپ کو آزادانہ طریقے سے زبان کے استعمال کی ضرورت ہوتی ہے تاہم اگر کسی کو برا لگا ہے کہ تو میں اس بات کے لیے معافی مانگتا ہوں۔
یہ بھی پڑھیں: برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کے ہاں بیٹے کی پیدائش
ان کا مزید کہنا تھا کہ کیا میں وزیراعظم ہوتے ہوئے ماضی کے مضامین میں استعمال کی گئی زبان استعمال کر سکتا ہوں؟ اب میں ایک وزیراعظم ہوں تو ایسا نہیں کروں گا۔
پروفیسر سوارن سنگھ نے کہا کہ امتیازی سلوک چیلنج کرنے کے حوالے سے پارٹی زیادہ متحرک نہیں اور شکایت درج کرنے کے طریقہ کار میں تبدیلی درکار ہے جبکہ ضوابط کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا دینے کا نظام بھی واضح نہیں ہے۔
رپورٹ میں اخذ کردہ نتائج میں کہا گیا کہ پارٹی کے خود ہی مسلم مخالف الفاظ اور طرز عمل سے متعلق پارٹی کی طرف سے شکایات اور بدانتظامی کو دیکھتے ہوئے پارٹی کے اندر مسلم مخالف جذبات ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے۔